اس زاویے سے صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ہی ان افراد یا اداروں کی جوابدہی طے ہو سکےگی جن پر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ہے۔
EPAPER
Updated: October 21, 2024, 3:46 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
اس زاویے سے صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ہی ان افراد یا اداروں کی جوابدہی طے ہو سکےگی جن پر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ہے۔
۱۳؍ اکتوبر کو بہرائچ میں مورتی وسرجن یاترا نے جس طرح فساد کا روپ اختیار کر لیا وہ یوپی پولیس اور ریاستی حکومت کے قانون کی حکمرانی کے دعوؤں کو کمزور بناتا ہے۔ فساد کے بعد میڈیا اور فرقہ پرست سیاست دانوں نے بھی اس کے اسباب و نتائج پر غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے کےبجائے اس افسوسناک صورتحال کو اس تھیوری کے مطابق پیش کرنے میں اپنا سارا زور لگا دیا کہ ملک کے ہندوؤں کیلئے ہندوستانی مسلمان خطرہ ہیں۔ اس غیرمنطقی تھیوری کو حقیقت کی شکل دینے کی کوشش اب بھی جاری ہے۔ اس فساد میں جان و مال کا جو بھی نقصان ہوا، اس کا جائزہ انسانی بنیادوں پر لینے کی ضرورت ہے۔ یہی واحد وہ طریقہ ہے جو فساد کی اس سچائی کو سامنے لا سکتا ہے جس کا مقصد ایسے فسادات کیلئے ماحول تعمیر کرنے والوں کی نشاندہی ہو سکتی ہے۔ اس زاویہ سے جب صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا تبھی ان لوگوں یا اداروں کی جوابدہی بھی طے ہوگی جن پر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
اس فساد کے متعلق بعض غیر جانبدار میڈیا اداروں کی جانب سے جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ یاترا میں بعض ایسے شر پسند عناصر شامل تھے جو دانستہ طور پر مسلمانوں کی تضحیک و تذلیل کرنے والے گانے ڈی جے پر بجا رہے تھے۔ ان عناصر کا مقصد ہی یہ تھا کہ مسلمانوں کو مشتعل کیا جائے اور ان کے رد عمل کو فرقہ ورانہ فساد کی شکل دی جائے۔ اس فساد میں ہلاک ہونے والے گوپال مشرا کا وہ ویڈیو اس بات کا ثبوت ہے جس میں وہ ایک مسلمان کے گھر سے سبز پرچم اکھاڑ کر بھگوا جھنڈا لہراتا ہے اور اپنی اس شر انگیزی پر فخریہ انداز میں نعرہ بازی کرتا ہے۔ اس کی موت یقیناً اس کے والدین اور اہل خانہ کیلئے ایک بڑا صدمہ ہے جو ہمیشہ انھیں تکلیف دیتا رہے گا۔ مذہب کو آلہ ٔکار کے طور پر استعمال کرنے والوں نے اس ہلاکت کے بعد فرقہ واریت کے رنگ میں جو شدت پیدا کرنے کی کوشش کی اس سے صورتحال مزید سنگین ہو گئی۔
اس فساد نے پولیس کے ناکارہ پن اوراس کی فرقہ پرستی کی اس حقیقت کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا جو قانون کے نفاذ کے عمل کو بے نتیجہ بناتی ہے۔ اگر پولیس غیر جانبدارنہ طور پر اپنے فرض کے تئیں محتاط ہوتی تو شاید حالات اس قدر سنگین نہ ہوتے۔ فرقہ واریت کے معاملے میں جن ریاستوں کو حساس قرار دیا گیا ہے ان میں یوپی سرفہرست ہے۔ ایسی حساس ریاست میں راجدھانی سے علاقائی قربت رکھنے والا ضلع فرقہ وارانہ فساد کی زد پر آنے کے بعد اگر کئی دنوں تک پولیس اور انتظامیہ کے قابو میں نہ آئے تو فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان اداروں کی سماج کے تئیں کیا ذمہ داری اور جوابدہی ہے؟اس سوال پر غور کرنے پر جو نکات روشن ہوتے ہیں وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس طرز کے فسادات سے وہ سیاسی عناصر فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں جو اپنی سیاست چمکانےکیلئے مذہب کا استعمال کرتے ہیں۔ ان عناصر کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ فساد میں کتنے انسانی جانوں کااتلاف ہوا یا املاک کا کتنا نقصان ہوا۔
یہ بھی پڑھئے:راہل کا نظریاتی سیاست کا دعویٰ اور کانگریس کی موجودہ صورتحال
اس ملک میں سماجی ہم آہنگی کو کمزور بنانے کی خاطر ہندو، مسلمان کے درمیان تفریق اور انتشار کو برقرار رکھنے والی سیاست کا اثر جب گہرا ہوتا ہے تو اس طرح کے فسادات برپا ہوتے ہیں۔ ان فسادات میں نقصان ان عام شہریوں کا ہوتا ہے جو اپنی روزمرہ زندگی میں دو وقت کی روٹی کا بندو بست بھی مشکل سے کر پاتے ہیں۔ معاشی اعتبار سے تنگ حال یہ طبقہ مذہبی معاملات میں بہت جلدفرقہ وارانہ سیاست کے فریب میں آجاتا ہے۔ اس دام میں گرفتار ہونے کے بعد ان کا ذہنی اور جذباتی استحصال کرنے کیلئے عیار سیاستداں اور نام نہاد مذہبی عناصر ایسا ماحول تعمیر کرتے ہیں کہ وہ ان کی شاطرانہ بساط کا مہرہ بن جاتے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ملک میں جس طرح کی سیاست کو عروج حاصل ہوا ہے اس میں ان مہروں کو سامنے رکھ کر سیاسی مقاصد کے حصول کی راہ آسان بنانے کی کوشش فرقہ وارانہ سیاستدانوں کا پسندیدہ شیوہ بن گئی ہے۔ اس کوشش کا ہی نتیجہ ہے کہ اقتدار سے مذہبی یکسانیت رکھنے والے افراد خود کو آئین اور قانون سے بالاتر سمجھنے لگے ہیں ۔ یہ افراد اس خود ساختہ فضیلت کا اظہار اشتعال انگیز نعروں اور مذہبی جلوسوں میں ہتھیاروں کی نمائش سے کرنے کو معمولی بات سمجھتے ہیں۔
ایسے فرقہ ورانہ فسادات میں انتہائی افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ پولیس اپنی ذمہ داری آئین کے مطابق نبھانے کے بجائے ان عناصر کی خواہش اور مرضی کے تابع نظر آتی ہے جن کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور ہوتی ہے۔ اس وقت یوپی میں اقتدار کا رویہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جس طرح کا ہے اس میں یہ توقع کرنا ہی بے سود ہے کہ ایسے معاملات میں اس سطح پر آئین اور قانون کی پاسداری غیر جانبدارانہ طور پر ہوگی۔ اس کے علاوہ اقتدار پرست میڈیا صورتحال کو مزید پیچیدہ اور سنگین بنانے کی مہم میں جٹ جاتا ہے۔ اس کا واضح ثبوت ایسے میڈیا اداروں کے ذریعہ گوپال مشرا کی موت اور اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کو غلط طریقے سے پیش کرنا ہے۔ میڈیا کا کام صحیح اطلاع کی ترسیل اور سماج میں امن و آشتی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنا ہے لیکن اقتدار کی جی حضوری میں منہمک میڈیا بھی ایسے موقعوں پر ایک پارٹی کا رول ادا کرنے لگتا ہے۔ یہ رویہ حالات کو اس قدر سنگین بنا دیتا ہے کہ فساد کے اسباب اور نتایج کو صحیح تصویر سامنے نہیں آ پاتی۔ بہرائچ کے فساد سے متعلق رپورٹنگ میں بھی اقتدار پرست میڈیا کا رویہ ایسا ہی رہا۔
ایسے فسادات میں جان و مال کا نقصان جن لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے ان کے مسائل اور حالات کا جائزہ انسانی بنیادوں پر لیا جانا چاہئے۔ عارضی جذباتی ہیجان نے ایک نوجوان کو موت سے دوچار کردیا۔ فرقہ پرست سیاستدانوں کیلئے یہ ایک معمولی حادثہ ہے، اگرچہ وہ ظاہر یہی کرتے ہیں کہ اس سے انھیں انتہائی رنج پہنچا ہے۔ لیکن اصل خسارہ تو ان لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے جو اپنا چشم و چراغ گنوا دیتے ہیں ، جن کی زندگی کا سہارا ان سے چھن جاتا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کی ایک تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسے صدمات سے وہی لوگ بیشتر دوچار ہوتے ہیں جو غریب یا متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ متمول طبقہ یا دھرم کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کے اعزا و اقربا اس کی زد میں نہیں آتے۔ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ بتاتی ہے کہ بارہا اس حقیقت سے روبرو ہونے کے باوجود غریب اور متوسط طبقہ نام نہاد مذہبی وارفتگی کے اظہار میں بہ آسانی ان عناصر کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتا ہے جو سماج میں فرقہ وارانہ انتشار برپا کرنے کیلئے مذہب کا سیاسی استعمال کرتے ہیں۔
سماج میں شر پھیلانے والوں کی شناخت ان کے لباس سے کرنے کی جو تھیوری اقتدار اعلیٰ نے دی ہے اس نے سماجی امن و آشتی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں مختلف مواقع خصوصاً انتخابات کے وقت اس تھیوری کو الگ الگ طریقے سے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس غیر حقیقی تصور نے سماج میں ایسا ماحول تعمیر کیا ہے کہ اب ہر سطح پر ہندو، مسلمانوں کو اپنا حریف سمجھنے لگے ہیں۔ اس کیفیت کا اظہار جب حد اعتدال سے تجاوز کر جاتا ہے تو کھلے عام مسلمانوں کے متعلق نازیبا اور بیہودہ بیان بازی شروع ہو جاتی ہے جو سماجی منافرت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ دائیں بازو کی سیاست کو عروج حاصل ہونے کے بعد مساجد اور مزارات کو جس شدت کے ساتھ نقصان پہنچانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ صریح طور پر آئین کے خلاف ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آئینی ضوابط کی سماجی تعمیل کو یقینی بنانے والے ادارے خود بھی اپنا کردار اس طور سے ادا نہیں کر رہے ہیں جو ہندوستانی شہریوں کے اندر آئین کے متعلق اعتماد کو پختہ کرے۔ اس ضمن میں کرناٹک ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کی مثال دی جا سکتی ہے جس میں کہا گیا کہ مسجد کے اندرجئے شری رام کا نعرہ لگانے سے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچتی۔
فرقہ وارانہ سیاست کے تعمیر کردہ نفرت آمیز ماحول نے شر پسندوں کو یہ حوصلہ عطا کر دیا ہے کہ وہ مساجد کے آس پاس تیز آواز میں بیہودہ اور اشتعال انگیز گانا بجانے یا نعرہ لگانے کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ ایک معمولی سمجھ رکھنے والا انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ حرکتیں صرف مسلمانوں کو مشتعل کرنے اور ان کے اندر احساس بیچارگی پیدا کرنے کیلئے کی جاتی ہیں۔ اب سے ربع صدی قبل حالات اتنے خراب نہیں ہوئے تھے۔ ہندو، مسجدوں کو مقدس جانتے تھے اور مسلمان مندروں کا احترام کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے مذہب کا احترام ہی فرقہ وارانہ فسادات کا سد باب کر سکتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ عوام ان عیار سیاست دانوں کے فریب میں نہ آئیں جو ایک دوسرے کو مدمقابل لاکر سیاسی اور مالی فائدہ اٹھاتے ہیں۔