اس شعبے سے ایسے افراد بھی وابستہ ہو جاتے ہیں جو نہ تواس کے تقدس کا بھرم قائم رکھ پاتے ہیں، نہ ہی طلبہ کے تئیں اپنی ذمہ داریاں نبھا پاتے ہیں۔
EPAPER
Updated: June 23, 2024, 1:29 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
اس شعبے سے ایسے افراد بھی وابستہ ہو جاتے ہیں جو نہ تواس کے تقدس کا بھرم قائم رکھ پاتے ہیں، نہ ہی طلبہ کے تئیں اپنی ذمہ داریاں نبھا پاتے ہیں۔
عوامی زندگی سے وابستہ جن شعبوں کے حالات دن بہ دن خراب ہوتے جا رہے ہیں، ان میں اب شعبۂ تعلیم کا شمار بھی ہونے لگا ہے۔ اس شعبے سے کسی فرد کی وابستگی عموماً تین حیثیتوں سے ہوتی ہے، ایک طالب علم، ایک معلم اور تیسری حیثیت اس ملازم کے طور پر جو اس شعبے سے متعلق انتظامی امور کو انجام دیتا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان تینوں کے حالات بہت اطمینان بخش نہیں ہیں۔ طالب علم کیلئے معیاری تعلیم کا فقدان ہے، استاذ کو وہ سہولتیں میسر نہیں ہیں جو ان کی ذہانت اور ذکاوت کی ترقی میں مددگار ہوں اور نہ ہی ملازمین کو بغیر کسی دباؤ کے غیر جانبدارانہ طور پر کام کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ارباب اقتدار ان حقائق سے واقف نہ ہوں لیکن حالات میں کسی مثبت تبدیلی کیلئے کوئی نتیجہ خیز کوشش ان کی جانب سے نہیں کی جاتی۔ بعض مواقع پر زبانی دعوے ضرور کئے جاتے ہیں جن سے عوام پر یہ تاثر قائم ہو سکے کہ حکومت ملک کے تعلیمی معیار کو ایسی بلندی سے ہمکنار کرنا چاہتی ہے جہاں پہنچ کر دنیا کے بہترین تعلیمی نظام کی ہمسری کی جا سکے۔ ان دعوؤں کو جب حقیقت کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے تو بیشتر مایوسی ہی ہوتی ہے۔
یوں تو شعبۂ تعلیم کی مجموعی صورتحال ہی غیر اطمینان بخش ہے لیکن اس میں بھی سب سے زیادہ خراب حالات تدریس کے شعبے کی ہے۔ یہ شعبہ عدم مساوات کی انتہائی افسوس ناک مثال بنتا جا رہا ہے۔ اس حقیقت کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ شعبہ ہی دراصل تعلیمی نظام میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے لیکن آج اس کی حالت اس قدر دگرگوں ہو چلی ہے جو کہ پورے نظام کی کارکردگی کو متاثر کر رہی ہے۔ جب کبھی تعلیمی معیار کی بات ہوتی ہے تو اہل اور قابل اساتذہ کے فقدان کا ذکر ضرور ہوتا ہے اور یہ کسی حد تک سچ بھی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تدریس سے وابستہ تمام اساتذہ نااہل تونہیں ہو سکتے، ایسی صورت میں کم از کم جو اہل اور قابل ہیں ان کی کارکردگی اس قدر اطمینان بخش ضرور ہونا چاہئے جو ملک کے نظام تعلیم کو تنقید کا ہدف بنانے سے محفوظ رکھ سکے۔ اس پہلو پر غور کرنے سے جو شعبہ ٔ تدریس کی جو تصویر سامنے آتی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اساتذہ کی اہلیت اور نااہلی سے بڑا مسئلہ ان کے درمیان امتیاز کے اس رجحان کا فروغ پانا ہے جو اہل اساتذہ کو بھی بعض اوقات نا اہلوں کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے۔ اس غیر موزوں امتیاز کا سبب تعلیمی ادارو ں میں اساتذہ کی تقرری کا وہ موجودہ طریقہ ہے جو نہ صرف اساتذہ کے استحصال کا باعث ہے بلکہ اس کے سبب مجموعی طور پر تعلیم کا معیاربھی مائل بہ پستی نظر آتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: پرائیویٹ اسکولوں کی حرکتوں سے طلبہ اور والدین پریشان
اس سے انکار نہیں کہ شعبہ تدریس سے بعض ایسے افراد بھی وابستہ ہو جاتے ہیں جو نہ تواس کے تقدس کا بھرم قائم رکھ پاتے ہیں اور نہ ہی طلبہ کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو معیاری انداز میں پورا کر پاتے ہیں۔ ایسے لوگ کبھی رشوت اور کبھی اپنے سیاسی رسوخ کی بنا پر اس معزز پیشے سے جڑ جاتے ہیں لیکن ان کا بیشتر زور ان امور کی انجام دہی پر ہوتا ہے جو اُن کیلئے عزت و احترام اور مالی منفعت کو یقینی بناتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس پیشے میں اب اہل اور ذہین اساتذہ کا مکمل فقدان ہے بلکہ ایسے ہی اساتذہ آج بھی علم کے تقدس اور عظمت کے امین ہیں لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے اساتذہ کامیابی کی راہ پر ان سے پیچھے رہ جاتے ہیں جو معمولی یا اوسط درجہ کی ذہانت کے حامل ہوتے ہیں لیکن ساز باز میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ تعلیم کے متعلق ارباب اقتدار کی غیر سنجیدگی کے سبب جب سے شعبۂ تدریس میں مستقل اور عارضی تقرریوں کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے، ایک ہی تعلیمی ادارے میں کام کرنے والے اساتذہ کے مابین امتیاز کا دائرہ روز بہ روز وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
اساتذہ کے درمیان امتیاز کی یہ صورت سرکاری اور پرائیویٹ ہر دو طرح کے تعلیمی اداروں کا لازمہ بن چکی ہے۔ ان اداروں میں فیصلہ کن حیثیتوں کے حامل افراد مالی مفاد کی خاطر تقرری کے اس طریقہ کو ترک نہیں کرناچاہتے۔ حکومت کا سالانہ تعلیمی بجٹ بھی بشمول اساتذہ کی مستقل تقرری، دیگر تعلیمی وسائل کی حصول یابی میں بہت زیادہ معاونت نہیں کرتا۔ یہی سبب ہے کہ پورے ملک میں ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کروڑوں اسامیاں خالی ہیں۔ جب کبھی ان اداروں کے ذمہ داران یا عوام کی جانب سے اقتدار کو کسی طرح کے دباؤ کا سامنا ہوتا ہے تو ان پر عارضی تقرری کر دی جاتی ہے۔ اس تقرری کے عمل کا ہر مرحلہ ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ مستقل تقرری میں، بس فرق یہ ہوتا ہے کہ عارضی تقرری پانے والے اساتذہ کی تنخواہ، مستقل اساتذہ کے مقابلے بہت کم ہوتی ہے۔ اسی فرق کی بنا پر ان کے استحصال کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں مستقل اساتذہ، ادارے کے انتظامی امور سے وابستہ افراد اور بعض دفعہ طلبہ بھی شامل ہوتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے درمیان یہ امتیاز کبھی اس صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مستقل تقرری حاصل کر لینے والے اساتذہ کے مقابلے عارضی اساتذہ ذہانت اور فہم و شعور کے معاملے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں لیکن چونکہ ان کے ساتھ عارضی کا ٹیگ لگا ہوتا ہے لہٰذا ان کی ذہانت اور صلاحیت کو عجیب سی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اس امتیاز کے سبب عارضی اساتذہ کو دہری اذیت اٹھانا پڑتی ہے۔ ایک تو وہ عزت و شہرت کے معاملے میں کوئی نمایاں شناخت نہیں حاصل کر پاتے اور دوسرے یہ کہ عارضی ہونے کے ناتے ان پر کام کا ایسا بوجھ لاد دیا جاتا ہے کہ اس کی گرانی ان کی شخصیت کے جوہر کو ماند کر دیتی ہے۔ ان پریشانیوں سے بڑی اذیت وہ معمولی مشاہرہ ہے جو ہرماہ بنام تنخواہ اسے دیا جاتا ہے۔ ایک ہی ادارے میں کام کرنے والے مستقل اور عارضی قسم کے اساتذہ کے درمیان امتیاز کی وہ صورتیں ہیں جو بہت واضح ہیں۔
اس امتیاز کی وجہ سے جو سب سے بڑی خرابی سماج میں پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ معمولی تنخواہوں پر کام کرنے والے عارضی اساتذہ اپنی مالی ضروریات کی تکمیل کیلئے بعض اوقات ان راستوں پر چل پڑتے ہیں جو انسانی اخلاقیات کی رو سے معیوب و ممنوع ہیں۔ ایسے راستوں پر چل پڑنے والے اساتذہ مجموعی تعلیمی نظام کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات اس کی وجہ سے اہل طلبہ اپنے جائز حق سے محروم رہ جاتے ہیں اور معمولی ذہانت کے حامل طلبہ کو نمایاں ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مستقل تقرری والے اساتذہ عارضی اساتذہ کو ہمیشہ نظر کم سے دیکھتے ہیں مگر جب کبھی کوئی علمی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو عارضی اساتذہ سے استفادہ کرنے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے۔ طرقہ تماشا یہ کہ استحصال کی ایسی صورتوں سے دوچار رہنے والے اساتذہ ہی بیشتر افسران اور ارباب حل وعقد کی برہمی کا ہدف بنتے ہیں ۔ تدریس سے وابستہ یہ وہ حقائق ہیں جو ملک گیر سطح پر تعلیمی نظام کی بدیہی حقیقت بن چکے ہیں۔
اس صورتحال میں اصلاح کی پہل ارباب اقتدار اور اعلیٰ حکام کی جانب ہی سے ہو سکتی ہے۔ لیکن ہر دو کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگر کبھی ان سے یہ مطالبہ کیا بھی جاتا ہے تو اقتصادیات کا حوالہ دے کر یہ احسان جتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جو بھی صورت ہے وہی غنیمت ہے۔ حالانکہ اقتصادی حالات اتنے بھی خراب نہیں ہیں جو تعلیمی اداروں کی تمام اسامیوں پر مستقل اساتذہ کی تقرری میں مخل ہوں۔ دراصل تعلیم، ارباب اقتدار کی ترجیحات میں سب سے نچلے پائیدان پر ہوتی ہے ورنہ کیا سبب ہے کہ ایک ہی سیاسی لیڈر مختلف سطح کے سیاسی منصبوں کوحاصل کر لینے کے بعد ایک سے زائد پنشن کا مجاز ہو جاتا ہے اوراگر اس سے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی مستقل تقرری کا مطالبہ کیا جائے تو اقتصادیات کا رونا شروع کر دیتا ہے؟اگر کبھی اس ضمن میں ارباب اقتدار اور محکمہ ٔ تعلیم کے حکام کی جانب سے کوئی پہل ہوتی بھی ہے تو برائے نام ہوتی ہے اور کبھی تو اس پہل کے پایہ ٔ تکمیل تک پہنچنے میں ایک طویل عرصہ لگ جاتا ہے۔ بعض اوقات اس عمل میں ایسے قانونی پیچ در آتے ہیں جو تقرری کو التوا میں ڈال دیتے ہیں اور پھر عارضی تقرری کا وہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جو نہ صرف شعبہ ٔ تعلیم میں تشویش ناک عدم مساوات کو فروغ دیتا ہے بلکہ اس کے سبب سماج بھی کئی طرح کے اقداری مسائل میں الجھ جاتا ہے۔ تعلیمی نظام میں جو اصلاحات فوری طور پر درکار ہیں ان میں اس عدم مساوات کو ختم کرنا بھی شامل ہے۔