• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

زندگی کے تئیں بیٹوں کی غیر سنجیدگی اور لاپروائی کیلئے والدین کتنے ذمہ دار ہیں؟

Updated: June 30, 2024, 5:08 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

اکثرگھروں میں باپ صرف فائنانس منسٹر بنا ہوتا ہے اور باقی ساری منسٹریاں ماں کے حوالے کر دی جاتی ہیں... لیکن یہ مناسب نہیں ہے۔

Students can expand their thinking and concern if they have the comfort of their homes. Photo: INN
طلبہ کو اگر اُن کے گھروں میں سکون میسر آئے تو وہ اپنی سوچ اور اپنی فکر کا دائرہ بڑھاسکتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

بیٹا فطری طور پر باپ سے قریب ہوتا ہے۔ بچپن میں بیٹے کیلئے اگر کوئی رول ماڈل ہوتا ہے تو ہے : باپ!وہ اپنے باپ کی حرکات و سکنات کو نقل کرنے لگتا ہے اور سوچتا یہی ہے کہ بڑا ہو کر اُسے باپ جیسابننا ہے۔ عموماً۲؍سال سے ۶؍سال کی عمر تک بیٹے پر باپ کی عادات کی چھاپ واضح نظر آتی ہے کیونکہ وہ دَور بچّے کی صرف نقالی کا دور ہوتا ہے۔ اُس کے بعد کیا ہوتا ہے، آئیے تفصیلی جائزہ لیں :
(۱) بیٹا جوں جوں اپنے شعور میں آنے لگتا ہے، وہ دیکھتا ہے کہ اُس کی اکثر خواہشات اور اُس کی ضدماں پوری کرتی رہتی ہے لہٰذا وہ اپنی ماں کے قریب آتا ہے اور اُسے اپنا راز دار بنانا شروع کر دیتا ہے۔ مرد اَنا کا پُتلا ہوتا ہے لہٰذا بیٹے کا صرف اپنی ماں کے قریب آنا بہت زیادہ پسند نہیں آتا۔ بدقسمتی سے باپ اور بیٹے میں خلیج پیدا ہونے کا آغاز وہیں سے ہوتا ہے۔ 
(۲) بچّہ بڑا ہونے لگتا ہے، باپ اُسے چھوٹی موٹی ذمہ داری دینا چاہتا ہے۔ ماں کا رویہ مختلف ہوتا ہے وہ ابھی اُسے بچّہ ہی سمجھتی ہے۔ ماں باپ کے رویے میں اس اختلاف کی رسّہ کشی کا بیٹا شکار ہوتا ہے۔ 
(۳) بیٹا چونکہ بیٹا ہے، خاندان میں اُس کی اہمیت بھی ہے اسلئے ماں باپ دونوں اُس کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں، جو کچھ بُری بات نہیں ہے البتہ بُری بات یہ ہے کہ اُس کیلئے میاں بیوی کبھی کبھی بڑی نچلی سطح پر بھی آجاتے ہیں اور بیٹے کے سامنے ایک دوسرے کے رشتہ داروں کی برائیاں اور عیب جوئی شروع کردیتے ہیں۔ یہاں سے بیٹے کا کنفیوژن شروع ہونے لگتا ہے۔ 
(۴) باپ ہمیشہ اپنے بیٹے میں اپنا عکس دیکھتا ہے اسلئے وہ اپنے سارے آدھے ادھورے خواب اپنے بیٹے کے ذریعے پورا کرنا چاہتا ہے۔ اُس کیلئے (الف) کچھ باپ اپنے خواب، اپنی خواہشات اپنے بیٹے پر صرف تھوپنا چاہتے ہیں (ب) کچھ باپ بیٹے کے ذریعے اپنے خواب پورا کرناچاہتے ہیں مگر اُنھیں علم نہیں رہتا کہ وہ اُس کیلئے کیا کیا اقدامات کریں۔ رہنمائی کے فقدان یا غلط رہنمائی کی بناء پر وہ صرف کنفیوژن اور جھنجھلاہٹ کا شکار رہتے ہیں اور اپنا سارا بخار اپنے بیٹوں پر اُتارتے رہتے ہیں کچھ اس حد تک کہ ان کے بیٹے کا کامیاب ہوتا در کنار، ڈراپ آؤٹ ہو کر تعلیمی و زندگی کی دھارا ہی سے کٹ جاتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: والدین کیلئے لڑکوں کی فطرت اور اُن میں ترجیحات کی لاعلمی کو سمجھنا ضروری ہے

(۵)کچھ بیٹوں کے تعلق سے معاملہ برعکس ہوتا ہے۔ باپ چاہتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو کچھ ایسے کریئر دے دے جس میں زیادہ جو کھم نہ ہو جب کہ بیٹا چاہتا ہے کہ وہ چیلنج بھرے کام کرے۔ اُس کے خواب بڑے ہوتے ہیں اور ارادے بھی۔ وہ حالات وغیرہ سے سمجھوتہ کرنا بھی نہیں چاہتا۔ باپ بیٹے میں فکری ٹکراؤ وہیں سے شروع ہو جاتا ہے۔ 
(۶) جنر یشن گیپ ایک بڑی وجہ ہے باپ و بیٹے کے رشتوں میں ٹکراؤ کی۔ ’یہ آج کل کے بیٹے‘ ’ہمارے زمانے میں ‘ دوسروں کے ابّو ایسا نہیں کرتے‘، ’ اس نئی نسل کا تو اللہ ہی حافظ ہے‘ اس قسم کے جملے و فقرے ہمارے ہر گھر میں عام ہیں۔ 
(۷) ہمارے معاشرے میں باپ کے ماتھے پر لیبل لگارہتا ہے: ’’ خاندان کا پیٹ بھرنے والا‘‘ اورماں کی پیشانی پر ’’تربیت کرنے والی‘‘ یعنی باپ گھر کا صرف فائنانس منسٹر بنا ہوتا ہے اور باقی ساری منسٹریاں ماں کے حوالے کر دی ہیں۔ اخلاقی اقدار کی تعلیم وغیرہ کے شعبے میں بھی کوئی رول ادا کیوں نہیں کرتا؟ کیا باپ بیٹے کے رشتے کی خلیج کو بڑی حد تک پاٹنے کا کام اس طرح بڑے احسن طریقے سے نہیں ہوسکتا ہے؟
ہمارے معاشرے میں کچھ والد صاحبان کا رول بڑا ہی منفی ہوتا ہے۔ فلاحی ٹرسٹ وغیرہ میں بعض بچوں سے جب یہ دریافت کیا جاتا ہے کہ اُن کے ابّا کیا کرتے ہیں تو اُن کے چہرے لگ بھگ سرخ ہو جاتے ہیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے ابّا، اُن کی امّی پر اتناظلم کرتے ہیں کہ اب اُن بچوں کی گو یا زندگی کایہی مقصد بن گیا ہے کہ وہ اپنے امّی کے ظلم کا حساب چکتا کر یں گے۔ جی ہاں وہ نو جوان جو آرکیٹیکٹ، اسپیس سائنس داں اور سرجن وغیرہ بن سکنے کی لیاقت رکھتے ہیں، اُن کے سامنے اب زندگی کا ایک ہی مقصد ہے۔ امّی کو انصاف دلوانا یا بدبختی سے ابّا سے بدلہ لینا۔ کچھ عجب نہیں کہ وہ نو جوانان اپنی پڑھائی آدھی ادھوری چھوڑ کر اپنے ’مقصد‘ کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں۔ اب اُس لڑکے کے گِرتے ہوئے تعلیمی گراف، کریئر میں اُس کی عدم دلچسپی کی سبھی شکایت تو کرتے ہیں البتہ کسی کو گھر میں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ اُس کی زندگی کا گول پوسٹ تبدیل ہوچکا ہے۔ وہ لڑکا انتقام کی آگ میں ایسے جھلس رہا ہے کہ اب وہ اپنے کریئر کو بھی دائو پر لگانے کیلئے تیار ہے۔ 
ہمارے یہاں کے والد صاحبان کو یہ بھی شکایت رہتی ہے کہ اُن کے بیٹے اُن کا احترام نہیں کرتے۔ ہمیں پتہ نہیں کہ ہمیں احترام مانگنا کیوں پڑتا ہے؟ وہ تو خود ان کے بیٹوں کے دلوں میں پیدا ہونا چاہئے۔ دراصل جب کچھ بیٹے ۱۲۔ ۱۵؍ سال کی عمر میں یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اُن کے والد صاحب کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ وہ قسمت کے مارے نہیں ہیں بلکہ اپنی تساہلی و کاہلی اور بے عملی کی وجہ سے ایک نا کام زندگی خود گزار رہے ہیں اور پورے خاندان کو ایسی ہی زندگی گزارنے پر مجبور کئے جا رہے ہیں تو فطری طور پر ان بیٹوں کے دلوں میں باپ کا احترام کم ہونے لگتا ہے اور اُس کے نتیجے میں وہ تعلیمی دھارا بلکہ زندگی کی دھارا ہی سے کٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بیٹیاں بھی گھر کے اس ماحول سے متاثر ہوتی رہتی ہیں مگر وہ جانتی ہیں کہ وہ پرایا دھن ہیں، اُس گھر میں تو انہیں زندگی بھر نہیں رہنا ہے لہٰذا اُس گھر کو اُس کے حال پر چھوڑ دیتی ہیں۔ بیٹا البتہ ’فیصلہ کن‘ موڈ میں رہتا ہے اور اُسی ذہنی انتشار میں بغاوت پر اُترتا ہے اور باپ کی ہر بات کی نافرمانی شروع کر دیتا ہے۔ اسکول/ کالج سے ڈراپ آؤٹ بھی اسی لئے ہو جاتا ہے۔ 
ہمارے والدین جس محاذ پر سب سے زیادہ ناکام ہورہے ہیں وہ ہے اپنے لڑکوں کے بچپن سے نوجوانی کے دَور میں داخل ہونے کے دوران کی تبدیلیوں کو سمجھ نہ پانا۔ اِن تبدیلیوں سے وہ ذہنی طور پر پریشان رہتے ہیں مگراُن کی باتوں کو سمجھنے کیلئے اُن کا کوئی ساتھی نہیں ہے۔ باہر نکّڑوں پر ساتھی موجود ہیں جواُن کی غلط رہنمائی کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ انہی وجوہات کی بناء پر اس ملک کے سنکی قسم کے سیاست داں ہمیشہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے اسکولوں میں جنسی تعلیم کولازمی قرار دیا جائے۔ ایک مرتبہ ہم نے ریاست مہاراشٹر کے وزیر تعلیم کو ایک ٹی وی کے مباحثے میں گھیر لیا اور اُن سے پوچھا کہ وہ بتائیں کہ اُس جنسی تعلیم کا نصاب کیا ہے؟ ہم نے کہا کہ حکومت در اصل جنسی تعلیم کی آڑ میں بے حیائی کو قانونی شکل دینا چاہتی ہے، اور کچھ نہیں۔ البتہ مسلم معاشرے کو یہ سوچنا ہے کہ اس ملک میں مغربی ممالک کی نقل کرتے ہوئے ’لیو اینڈ ریلیشن شپ‘ کا قانون پاس ہوچکا ہے، ہم جنسی کو قانونی شکل دینے کا سماں بھی بندھ چکا ہے اب انہیں جنسی تعلیم کے نام پر بے حیائی پھیلانے سے کون روک سکتا ہے؟ کیا اب بھی ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنے گھروں میں دین کے دائرے میں رہتے ہوئے باپ اپنے بیٹے سے اور ماں اپنی بیٹی سے ان موضوعات پر بھی گفتگو کریں تا کہ اُن کے لئے ہمارے بیٹے’ نکّڑ کے دوستوں ‘ کے ہتھّے نہ چڑھیں ؟ 
ہمارے والدین اپنے نوجوان بچّوں کو اُن کی درسی کتاب کی چند اصطلاحات پر رہنمائی کرسکتے ہیں۔ درسی کتاب کی سماجیات کہتی ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے، یہ نظریہ سراسر غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر حیوان بھی پیدا کئے ہیں البتہ انسان ہرگز حیوان نہیں ہے۔ قرآن کے مطابق انسان (الف) اللہ کا نائب ہے (ب) افضل ہے (ج) اشرف ہے۔ انسان اور کچھ حیوانات میں جسمانی مشابہت دکھائی دیتی ہے البتہ اخلاقی اعتبار سے انسان کا معاملہ حیوانات سے بالکل مختلف ہے۔ انسان میں اخلاقی احساس کو ۱۰۰؍نمبر دیں گے تو اس معاملے میں حیوانات کوصفر نمبر ملیں گے کیوں کہ حیوانات میں کوئی اخلاقی احساس ہوتا ہی نہیں اور کسی کے انسان ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس میں اخلاقی احساس قطعی موجود ہو اور بہرصورت موجود ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK