• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عزیز طلبہ!کالج کیلئے مثبت سوچ و فکر، ٹھوس منصوبہ بندی اور عزم و ارادے کے ساتھ رخت سفر باندھ لیجئے

Updated: August 18, 2024, 6:12 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

اسکول کی ۱۰؍سالہ زندگی، گنتی، پہاڑے، کاغذ کی کشتی، تتلیاں، ٹافی، بستہ، یونیفارم، پکنک، ہوم ورک، نانی کے پیار اور دادی کے دُلار کی دنیا سے نکل کر ہمارے لاکھوں طلبہ نے نئے تعلیمی دنیا کے استقبال کیلئے کمر کس لی ہوگی۔

Children who work hard succeed, this is a universal truth, for today and for tomorrow. Photo: INN
وہ بچے ضرور کامیاب ہوتے ہیں جو محنت کرتے ہیں، یہ ایک آفاقی سچائی ہے، آج کیلئے بھی اور کل کیلئے بھی۔ تصویر : آئی این این

اسکول کی ۱۰؍سالہ زندگی، گنتی، پہاڑے، کاغذ کی کشتی، تتلیاں، ٹافی، بستہ، یونیفارم، پکنک، ہوم ورک، نانی کے پیار اور دادی کے دُلار کی دنیا سے نکل کر ہمارے لاکھوں طلبہ نے نئے تعلیمی دنیا کے استقبال کیلئے کمر کس لی ہوگی۔ البتہ بعض طلبہ ایسے بھی ہوں گے جو زندگی کے چوراہے پرکھڑے یہ سوچ رہے ہوں گے کہ: ( الف ) کہاں جاؤں میں ؟ (ب)کس سمت میں جانا سُود مند ہے ؟ ( ج ) کوئی انگلی پکڑ کر ہمیں راستہ دکھائے (د)اور راستے میں جو پتھر آئے اُسے اُٹھانے میں کوئی ہماری مدد کرے۔ (و)بلکہ اس راستے سے لے جائے جہاں پتھر ہوں نہ کانٹے۔ اب زندگی اگر اس درجہ آسان ہوتی تو اُسے آزمائش کیوں کہا جاتا؟
زندگی کے سفر میں پیش قدمی کرتے وقت ہمارے یہاں سب سے بڑا ہوّا جس چیز کا کھڑا کیا جاتا ہے وہ ہے ’حالات‘۔ بدبختی سے ہمارے یہاں ہر دوسرا آدمی حالات کا رونا روتے دِکھائی دیتا ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے؟ مٹھی بھر سپنے بھی نہیں دیکھ پاتے ہمارے نو جوانان۔ آخر ایساکیوں ہوتا ہے؟ دراصل ہمارے یہ نو جوان یہ سمجھتے ہیں کہ (الف) ان سے زیادہ ستم زدہ کوئی نہیں ہے۔ (ب) حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دو کیوں کہ اس سے مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا وغیرہ وغیرہ۔ آج ہمارا روئے سخن انہی نوجوانوں سے ہے جو کامیابی کی بلندیوں میں پرواز تو کرنا چاہتے ہیں مگر سوچتے ہیں کہ قوت پرواز کہاں سے لائیں کیوں کہ اُن کے مالی حالات اتنے خستہ ہیں کہ وہ کوئی بڑا خواب دیکھ نہیں سکتے!

یہ بھی پڑھئے:متحد، منظم اور بیداررہیں کیوں کہ اِن دنوں ملک کےسارے تعلیمی اورتربیتی اِدارےفرقہ پرستوں کی زد پرہیں

ایسے نوجوانوں کو اگر ہم تاریخ کے صفحات سے کچھ مثالیں پیش کریں گے تب بھی ان میں سے کچھ یہ سوچنے لگیں گے کہ کیا معلوم واقعی کوئی بڑھئی کا لڑکا امریکہ کا صدر بناتھا، یا کوئی ایسا بھی شخص ہو گزرا جس کو اسکول جانے کیلئے کشتی کے تین پیسے نہیں تھے، اسلئے اُسے ندی تیر کر جانا پڑتا تھا اور پھر وہ شخص آگے چل کر ہندوستان کا وزیر اعظم بن جاتا ہے۔ ریلوے کے ڈبے میں اخبار بیچنے والا کوئی شخص بڑی بڑی ایجاد یں کرتا ہے۔ دراصل آج ہم تاریخ سے مثالیں نہیں دیں گے بلکہ ہم مثالیں دیں گے بالکل سامنے کی، یہیں کی، آپ کے علاقے کی: 
(۱) کوکن کے ایک گاؤں سے ایک غریب طالب علم اعلیٰ تعلیم کے سپنے سجائے ممبئی آتا ہے۔ انجمن اسلام کے ہوسٹل میں حالات سے مجبور وہ طالب علم بغیر فیس کے رہتا ہے اور پھر وہ ممبئی یونیورسٹی کا گولڈ میڈلسٹ سرجن بن جاتا ہے۔ 
(۱) رتناگری سے ایک یتیم بچّہ اعلیٰ تعلیم کیلئے ممبئی آتا ہے۔ جونیئر کالج کے دو برسوں کے اخراجات پورا کرنے کیلئے جانتے ہیں کیا کرتا ہے؟ ڈونگری کے علاقے میں صبح سویرے گھر گھر جاکر دودھ کی بوتلیں پہنچاتا ہے اورپھر گرانٹ میڈیکل کالج میں داخلہ لے کر ملک کا نامور ڈاکٹر اور سماجی شخصیت بن جاتا ہے۔ 
(۳) ممبئی کے ہاشمیہ ہائی اسکول کا ایک طالب علم اپنے حالات کی سنگینی کے باعث تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیتا ہے۔ کچھ سال بعد اپنی ادھوری تعلیم کا احساس ہوا تو دوٹانکی علاقے کے ایک نائٹ اسکول میں داخلہ لے لیتا ہے، اس کے بعد ایک انسٹی ٹیوٹ میں ٹیکسٹائیل کا ایک سال کا کورس کر لیتا ہے۔ ہاشمیہ کا وہ ’نورانی‘ بچہ آج کی تاریخ میں ٹیکسٹائل کے ایک بڑے برانڈ کی کمپنیوں کا مالک ہے۔ 
(۴) ممبئی کے کرافورڈ مارکیٹ علاقے کے گلشن ایران ہوٹل میں ’باہر والے‘ ( ویٹر ) کا کام کرنے والے شخص نے جب حالات اور زندگی سے ٹکر لینا طے کر لیا تو صابو صدیق پولی ٹیکنیک میں پارٹ ٹائم ڈپلوما میں داخلہ لیا۔ وہ دن بھر ویٹر کا کام کرتا اور شام میں پڑھائی کرتا تھا۔ آگے چل کر وہ ایک کامیاب مرین انجینئر بن گیا۔ 

یہ بھی پڑھئے:پھوس کے پردے پرپانی کا چھڑکائو ہوجاتا تو ’پچھوا‘ چلنے پر کولرسے بھی ٹھنڈی ہوا نکلتی تھی

(۵) ڈونگری کے علاقے میں رہنے والے ایک طالب علم کو ممبئی کے ’کے ای ایم‘ میڈیکل کالج میں داخلہ ملامگر اس کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے پاس بس کے کرائے کیلئے بھی پیسے نہیں تھے۔ وہ طالب علم بھنڈی بازار میں بس میں چڑھتا البتہ اپنے پریل کے کالج کے بس اسٹاپ کے بجائے ایک دو اِسٹاپ پہلے یعنی لال باغ کے اسٹاپ پر اُتر جاتا اور وہاں سے پریل تک پیدل چل کر جاتا۔ وہ بچہّ آگے چل کر شہر کا نامور کارڈیالوجسٹ کہلاتا ہے۔ 
 (۶) ایک بچہّ اتر پردیش سے ممبئی شہر آتا ہے، انگریزی سے بالکل نابلد، انگریزی سیکھنے کی خواہش تھی لہٰذا ایک انگلش اسپیکنگ انسٹی ٹیوٹ پہنچا۔ اس کورس کی ماہانا فیس تھی دس روپے۔ اس نے اپنی جیب ٹٹولی اس میں موجود تھے ساڑھے سات روپے۔ وہ انسٹی ٹیوٹ سے باہر آتا ہے اور فٹ پاتھ سے انگلش اسپیکنگ کی ایک کتاب خرید لیتا ہے۔ آگے چل کر وہ بچّہ ممبئی شہر کا اسسٹنٹ انکم ٹیکس کمشنر بن جاتا ہے۔ 
(۷)سمستی پور بہارسے ایک لڑکا ممبئی آتا ہے۔ ڈونگری کے ایک ڈاکٹر کی کفالت سے جعفر سلیمان ہوسٹل میں کھانے کا انتظام حاصل کرلیتا ہے۔ ممبئی کے جونیئر کالج سے انٹر سائنس میں نمایاں نمبرات سے پاس کرلیتا ہے جس کی بناء پر اُسے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی فارم کی میرٹ کی سیٖٹ مل جاتی ہے پھر وہیں سے وہ ایم فارم کرلیتا ہے۔ آج وہ ایک فارماسیٹیکل کمپنی کا مالک ہے۔ 
نو جوانو! یہ ہیں چند مثالیں اُن افراد کی جنہوں نے مکمل بے سروسامانی کی حالت میں زندگی کی اندھیری راہوں میں اپنے لئے اُجالے پیدا کئے، بے بسی وکسمپرسی کی تصویر بنے رہنا منظور نہیں کیا اور انتہائی سنگین حالات میں بھی انہیں یہ یقین کامل تھا کہ ہر رات کی بہر حال صبح ہوتی ہی ہے۔ 
آج ہمارے نوجوانوں کا معاملہ کیا ہے اور کیسا ہے؟ 
جن گھروں میں کریئر، زندگی و زمانے کا رُخ پر کھنے کی کم از کم باتیں ہوتی ہیں، وہاں بچّے پڑھ رہے ہیں، مقابلہ جاتی امتحانات میں حصہّ بھی لے رہے ہیں لیکن جہاں ایسا نہیں ہے، وہاں کے نوجوانوں کی سوچ، فکر و عمل نا گفتہ بہ ہے : 
(۱) ہمارا نوجوان جلد بازی کا شکار ہے۔ اُسے بڑی جلدی ہے وہ انتظار نہیں کر سکتا۔ اُسے فوراً نتائج چاہئے اور وہ بھی ہمیشہ صرف مثبت نتائج ! 
(۲) وہ سہل پسند ہے۔ زندگی میں فتح و کامیابی وہ بالکل ویسے ہی چاہتا ہے جیسی وہ والٹ ڈزنی کے کارٹونوں میں دیکھتا آیا ہے۔ وہ اُن کارٹون سیریز کے ہیرو کی طرح جیتنا چاہتا ہے، اس جیت کی قیمت ادا کرنے کو البتہ وہ تیار نہیں ہے۔ 
(۳) زندگی کے حقائق کی اُسے نشاندہی ہوتی بھی ہے مگر وہ آنکھیں موندے رکھنا پسند کرتا ہے کیوں کہ اُسے علم ہے کہ اُسے جد و جہد کرنی ہوگی اور اُسی سے وہ فرار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ 
(۴) وہ بڑی عجلت میں ہے، اسلئے اپنی صلاحیت کا اُسے اندازہ نہیں۔ اپنے اوصاف کا جائزہ لینے کا اس کے پاس وقت بھی نہیں ہے۔ اسلئے بالآخر وہ نقلچی بن جاتا ہے اور بھیڑ چال کا شکار ہوجاتا ہے۔ 
(۵)وہ بے یقینی کا شکار ہے اُسے اپنی صلاحیتوں پر یقین ہے، نہ کامیاب افراد کی کامیابی کی حقیقی روداد پر۔ وہ تذبذب کا شکار ہے۔ کنفیوژن میں مبتلا ہے۔ 
(۶) وہ بہت جلد فرسٹریشن کا شکار بھی ہوجاتا ہے۔ 
(۷)اسمارٹ فون کی اسکرین کی رفتار کا وہ دیوانگی کی حد تک عادی ہوچکا ہے۔ وہ اُس کی ساری باتوں کا یقین نہیں کرتا البتہ اکثر پر ایمان لے آتا ہے۔ خصوصاً جو بھی اُسے جھٹ پٹ کامیاب یا بڑا بننے کی ترکیبیں بتاتا ہے، اُس کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگتا ہے۔ بڑے بزرگ اُسے اسلئے پسند نہیں ہیں کہ وہ اُسے ہمیشہ کہتے رہتے ہیں :’’رنگ لاتی ہے حِنا، پتھر پہ پس جانے کے بعد‘‘ کیوں کہ اس کا اسمارٹ (بلکہ چالاک) فون اُسے نسخے بتاتے رہتے ہیں کہ کس طرح ’’ہیٖنگ لگے نہ پھٹکری، رنگ چوکھا آئے۔ ‘‘ ..... اور یہ ایک بڑا المیہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK