پہلا فیصلہ کوچنگ کلاسیز میں ۱۶؍ سال سے کم عمر کے بچوں کے داخلوں پر پابندی ہے جبکہ دوسرا فیصلہ ملازمتوں میں بھرتی کے عمل کو شفاف بنانا ہے۔
EPAPER
Updated: February 11, 2024, 3:08 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
پہلا فیصلہ کوچنگ کلاسیز میں ۱۶؍ سال سے کم عمر کے بچوں کے داخلوں پر پابندی ہے جبکہ دوسرا فیصلہ ملازمتوں میں بھرتی کے عمل کو شفاف بنانا ہے۔
قانون سازی کے معاملے میں اکثر اپنے متنازع طرز عمل کی وجہ سے میڈیا اور عوام کے درمیان تنقید کا ہدف بننے والی مرکزی حکومت نے گزشتہ دنوں تعلیم اور کریئر کے سلسلے میں ۲؍ اچھے فیصلے کئے ہیں۔ اگر عملی سطح پر حکومت کے ان فیصلوں کا نفاذ کامیابی کے ساتھ ہوتا ہے تو اس سے نوجوان نسل کو خاطر خواہ فائدہ ملنے کی امید ہے۔ ملک کو ترقی یافتہ بنانے کی غرض سے وزیر اعظم نے ۲۰۴۷ء کی جو میعاد مقرر کی ہے اس کے سیاسی اغراض و مفادات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر اعظم، مرکزی کابینہ، بی جے پی کی ریاستی حکومتوں سمیت اس پارٹی کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی کے ذریعہ جس انداز میں ’وکست بھارت ۲۰۴۷ء‘کی تشہیرکی جارہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پارٹی نے ’اچھے دنوں ‘ کی جگہ اب ’اچھے برسوں ‘ کا خواب عوام کو دکھانے کی حکمت عملی اختیار کر لی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح عوام نے اچھے دنوں پر بھروسہ جتا کر خود کو محرومی اور بے بسی بھری زندگی کا عادی بنالیا ہے اسی طرح’اچھے برسوں ‘ کا یہ خواب ایک بار پھر ان کے استحصال کا ذریعہ بن جائے۔ عوام کو وعدوں اور دعوؤں کے سبز باغ دکھانے والے ان سیاسی حربوں کا متواترکرنے والی حکومت کے ان دو فیصلوں کا بہرحال خیر مقدم کیا جا نا چاہئے جو تعلیم اور کریئر سازی کے مراحل پر مثبت اثرات ڈال سکتے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کے عمل کو مزید شفاف بنانے کی غرض سے مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے ایک بل پیش کیا جسے ایوان نے منگل کو منظور کر لیا۔ اس بل کی رو سے سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کیلئے ہونے والے امتحانات میں بدعنوانی کے مختلف معاملات کو تعزیزی جرم مانا جائے گا۔ بدعنوانی کے معاملات کی نوعیت کے اعتبار سے سزا کا بھی التزام کیا گیا ہے جس میں ۳؍ سال کی قید سے لے کر ۱۰؍دس لاکھ اور بعض معاملات ایک کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن نے بھی اس بل کی تائید کی ہے اور مختلف سیاسی پارٹیوں سےمتعلق لیڈروں نے اسے حکومت کا ایک اچھا قدم قرار دیا ہے۔ حالانکہ ایوان میں اس بل پر بحث کے دوران ارباب اقتدار نےخصوصی طور سے انہی ریاستوں کو نشانہ بنایا جہاں غیر بی جے پی حکومت ہے یا اب سے کچھ ماہ قبل تک رہ چکی ہے۔ اقتدار کی اس سیاسی بددیانتی کے باوصف یہ بل نوجوانوں کی اس مایوسی میں امید کی رمق پیدا کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: رام راج کے حقیقی تقاضے اور زعفرانی عناصر کے دعوے
گزشتہ دس برسوں کے دوران ملک میں بے روزگاری کا گراف جس تیزی سے بڑھا ہے اس کا بنیادی سبب اقتدار کا وہ غیر سنجیدہ رویہ ہے جو ایسے موضوعات کو در خور اعتنا نہیں سمجھتا۔ اس بنیادی سبب کے علاوہ کئی ضمنی اسباب ایسے بھی ہیں جو زورگار کی فراہمی کے عمل کو پیچیدہ بنائے ہوئے ہیں۔ ان پیچیدگیوں میں ایک بڑی پیچیدگی سرکاری ملازمتوں کے لیے ہونے والے امتحانات میں ہونے والی وہ بدعنوانی ہے جو نوجوان نسل کو ذہنی، جسمانی اور جذباتی سطح پر کئی طرح کی اذیتوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ مختلف سطح کی سرکاری ملازمتوں کے لیے ہر سال منعقد ہونے والے امتحانات میں سوالیہ پرچہ لیک ہونے، پرچے کا حل عام ہونے اور نقل میں اضافہ کے واقعات صرف ان امتخانات کی شفافیت کو ہی داغدار نہیں بناتے بلکہ ان خرابیوں کی وجہ سے نوجوانوں کا مستقبل غیر یقینی کی ایک ایسی کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے جو ان کی پوری شخصیت کو مسخ کر دیتی ہے۔ ایک تو سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے فارم پر کرنے سے لے کر منتخب ہونے کا عمل اتنے پیچیدہ مراحل سے ہو کر گزرتا ہے کہ اسے ہی عبور کرنے میں خاصا وقت صرف ہوجاتا ہے اور اگر ان میں سے کوئی بھی مرحلہ بدعنوانی کے جال میں الجھ جائے تو پھر ایک ملازمت کا یہ امتحان امیدوار کی پوری زندگی کو مختلف طرح کے امتحانات کی آماجگاہ بنا دیتا ہے۔
گزشتہ کچھ برسوں کے دوران سرکاری ملازمتوں کیلئے ہونے والے امتحانات میں بدعنوانی کے معاملات اس تواتر کے ساتھ سامنے آئے ہیں جو پوری سرکاری مشنری کو مشکوک بناتے ہیں۔ ان بدعنوانیوں کا خمیازہ بھگتنے والے امیدوار عموماً متوسط یا غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور بدعنوانی کا یہ بڑھتا رجحان نہ صرف ان کے مستقبل کو تاریک کردیتا ہے بلکہ اس سے ان کی اور ان کے اہل خانہ کی زندگی کو معاشی اور سماجی سطح پر متعددمسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مرکزی حکومت کا یہ بل بدعنوانیوں کو روکنے کیلئے ایک فیصلہ کن رول ادا کر سکتا ہے لیکن اس کیلئے ضروری یہ ہے کہ اس بل کے غیر جانب دارانہ نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ کوئی بھی سرکاری بل اس وقت تک موثر قانون کے طور پر نافذنہیں ہو پاتا جب تک کہ اسے سیاسی تحفظات اور مختلف قسم کے تعصبات سے محفوظ نہ رکھا جائے۔ اگر یہ بل ان خدشات سے بالاتر رہا تو اس سے ان نوجوانوں کو بڑی راحت مل سکتی ہے جو سرکاری ملازمت کے حصول کیلئے محنت کرتے ہیں۔
کریئر سازی کے عمل میں در آئی ان خرابیوں کا براہ راست اثر نوجوانون پر ظاہر ہوتا ہے۔ فکر و عمل کی سطح پر پیدا ہو جانے والی اس انتشار آمیزکیفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی اور مذہبی عیار نوجوانوں کو اس راہ پر لگا دیتے ہیں جس کی منزل کا کوئی نشان نہیں ہوتا۔ اس وقت ملک کے نوجوانوں کی ترجیحات میں جو امور شامل ہیں وہ اس حقیقت کا واضح ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت کا یہ بل تحریری طور پر جس قدر کا رآمد نظر آتا ہے اس کو اسی قدر مفید اور کار آمد بنانے کیلئے ان عناصر پر گرفت بنانا ہوگی جو ملازمتوں کے حصول کا خواب دکھا کر نوجوانوں کا معاشی اور نفسیاتی استحصال کرتے ہیں۔ اگر اس مرحلے پر اقتدار اور انتظامیہ نے اپنی ذمہ داری پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کی تبھی یہ بل کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔
اسی طرح حکومت نے تعلیم کے سلسلے میں بھی گزشتہ ماہ ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ ملک گیر سطح پر چلنے والے اس کوچنگ بزنس پر لگام لگانے میں معاون ثابت ہوگا جس کی زد میں آنے کے بعد طلبہ چھوٹی عمروں میں ہی مختلف طرح کے جسمانی اور نفسیاتی امراض کا شکار ہوجایا کرتے ہیں۔ کوچنگ کلاسیز کے نظام کو بہتر اور طلبہ مرکوز بنانے کی غرض سے گزشتہ ۱۸؍ جنوری کو مرکزی حکومت نے جو رہنما اصول جاری کئے ہیں ان میں مختلف اصلاحات کا التزام کیا گیا ہے۔ ان اصلاحات میں سب سے اہم یہ ہے کہ ۱۶؍ برس کے کم عمر کے طلبہ کے کوچنگ میں داخلے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ کم عمر طلبہ کو ان اذیتوں سے نجات دلانے میں معاون ہوگا جو ان کے تعلیمی عمل کو متاثر کرنے کے ساتھ ہی ان کی پوری شخصیت کو مجروح کر دیتی ہیں۔ ان اذیتوں کے دام میں الجھنے کے بعد طلبہ ان اقدار کو برتنے کے بھی متحمل نہیں رہ جاتے ہیں جن قدروں کی بنیاد پر ایک پرامن اور خوشحال معاشرہ کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔ چھوٹی عمر میں کوچنگ کلاسیز پر انحصار کی خو طلبہ کی ذہانت کو متاثر کرتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے یا موضوع پر غور و فکر کرنے کے بجائے ان وسائل کے استعمال کو ترجیح دینے لگتے ہیں جو مسئلے کا فوری حل تو فراہم کر دیتے ہیں لیکن اس سے ان کی ذہنی صلاحیتیں محدود اور مفلوج ہوجاتی ہیں۔ کوچنگ کلاسیز پر انحصار کا دوسرا پہلو طلبہ کی گھریلو زندگی میں بھی مختلف طرح کے مسائل کے پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے۔
کوچنگ کلاسیز پر انحصار طلبہ کو ان اضافی جبر سے بھی دوچار کرتا ہے جو اپنی انتہائی شکل میں اکثر ان کی خودکشی کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ جن شہروں کو کوچنگ کلاسز کے نمایاں مراکز کی حیثیت حاصل ہے وہاں سے اکثر ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جن میں طلبہ کی خودکشی کی دردناک روداد ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوچنگ کلاسیز کے ذریعہ طلبہ کو کوئی سہولت ملنے کی بجائے ان کی تعلیمی زندگی میں مختلف طرح کی مشکلات کے پیدا ہونے کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ نہ صرف طلبہ کو اضافی تعلیمی مسائل سے نجات دلا سکتا ہے بلکہ ان کی شخصیت پر اثرانداز ہونے والے ان منفی عناصر سے محفوظ رکھ سکتا ہے جو ان کی پوری زندگی پر اثرا نداز ہوتے ہیں۔ تعلیم اور کریئر کے سلسلے میں حکومت کے یہ دونوں فیصلے خوش آئند ہیں اگر ان کے نفاذ کو اس دھرم آمیز سیاست سے محفوظ رکھا جائے جو عوامی فلاح کے عمومی معاملات کو بھی تعصب کی عینک سے دیکھتی ہے۔