بہت سی انتخابی حلقوں میں یہی پتہ لگانا مشکل ہےکہ ایک اتحاد کا دوسرے اتحاد سے مقابلہ ہے، یا ایک اتحاد میں شامل دو پارٹیاں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔
EPAPER
Updated: November 10, 2024, 1:02 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
بہت سی انتخابی حلقوں میں یہی پتہ لگانا مشکل ہےکہ ایک اتحاد کا دوسرے اتحاد سے مقابلہ ہے، یا ایک اتحاد میں شامل دو پارٹیاں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔
مہاراشٹرمیں کون کس کے ساتھ ہے اور کون کس کے خلاف،یہ منظرنامہ واضح ہو تے ہوئے بھی غیر واضح ہے۔ کون کس کا حامی ہے اورکون کس کا مخالف ،یہ صورتحال قابل فہم ہوتے ہوئے بھی ناقابل فہم ہے ۔کہنے والا کیا کہتا ہے ،کس کی حمایت میںکہتا ہے ،کس کی مخالفت میں کہتا ہے، کس کی مساوات کے بننے کی طرف اشارہ کرتا ہے ،کس کے بگڑنے کی طرف اشارہ کرتا ہے،اس پران دنوں خود مساوات پیچیدہ ہوچکی ہے۔ اس سے دلچسپ بات اورکیا ہو سکتی ہےکہ این سی پی (اجیت) کے امیدوارنواب ملک جو مانخورد شیواجی نگر سے امیدوار ہیں، یہ کہہ چکے ہیںکہ انتخابات کے بعد ایکناتھ شندے اورشردپوار کے متحد ہونے کے امکانات ہیںاور اس تعلق سے دونوں رابطے میں بھی ہیں۔ یہ بیان انہوں نے کس بنیاد پردیا ،اس کا اندازہ نہیں لیکن ۲۰۱۹ء سے اب تک مہاراشٹر کی سیاست میں جو کچھ ہوتا آیا ہے ،اس کے پیش نظر اب کوئی بھی بات خارج از امکان نہیں ۔ اس وقت شیوسینا متحد تھی ، اب ٹوٹ چکی ہے، اس وقت شرد پوار اور اجیت پوار ایک تھے ، اب نہیں ہیں۔ اس و قت ادھو ٹھاکرے این ڈی اے یا مہایوتی کا حصہ تھے، اب وہ مہاوکاس اگھاڑی کے ساتھ ہیں۔ انتخابات میں جیت کے ساتھ لیکن حکومت سازی سے قبل این ڈی اے میں اختلافات سامنے آگئے تھے۔ ادھوٹھاکرے کی شیوسینا اور بی جےپی کے درمیان ڈھائی ڈھائی سال کی میعاد کیلئے وزیر اعلیٰ کے عہدے پراتفاق نہ ہونے پرشیوسینا نے بی جے پی سے حمایت واپس لے لی تھی۔ شیوسینا کے مطابق بی جےپی اور اس کے درمیان انتخابات سے قبل اس تعلق سے معاہدہ ہوا تھا ، حالانکہ امیت شاہ نے یہ معاملہ سامنے آنے پر کہا تھا کہ بی جے پی نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ریاست میں صدر راج (۱۲؍ نومبر ۲۰۱۹ء ) نافذ کرنا پڑگیاتھا۔ شیوسینا اور بی جے پی کے درمیان اس تعطل کافائدہ اٹھاتے ہوئے این سی پی کے اجیت پوار نے اپنے اراکین اسمبلی کے ساتھ بی جے پی کی حمایت کردی تھی اورراتوں رات دیویندر فرنویس نے وزیر اعلیٰ اور اجیت پوار نے نائب وزیراعلیٰ کا حلف لےلیا تھا۔ اس کے بعدشرد پوار نے داؤ کھیلاتھا اوربی جے پی کو حمایت دینے سے انکارکر دیا تھا۔ اسی کے بعد مہا وکاس اگھاڑی کی تشکیل دی گئی۔شیوسینا کے سربراہ ا دھو ٹھاکرے پہلی مرتبہ ایک سیکولر اتحادکاحصہ بنے اوروزیراعلیٰ کا حلف لیا (۲۸؍ نومبر ۲۰۱۹ء)۔اس وقت توجوکچھ بھی یہاں سے وہاں ہوا ،وہ آج جو کچھ ہورہا ہے اس کی بس ایک تمہید معلوم ہوتی ہے ۔ آج مہاراشٹرکی سیاست میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔۲۰۱۹ء کے بعد ہی شندےنے ادھوٹھاکرے کا ساتھ چھوڑا اور وزیر اعلیٰ بن گئے ۔ اجیت پوار شردپوار کو دغا دے گئے ۔اجیت پوار نے صرف شرد پوار کا ساتھ ہی نہیں چھوڑا بلکہ شندے فرنویس حکومت میں شامل ہوکر ریاست کے دوسرے نائب وزیر اعلیٰ بھی بن گئے۔ فرنویس جو ۲۰۱۴ ء سے۲۰۱۹ء تک ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے،انہیں ۲۰۱۹ء اوراس کے بعد نائب وزیراعلیٰ کے عہدے پر اکتفا کرنا پڑا ۔فی الوقت وہ اجیت پوارکے ساتھ جو بعد میں آئے ، نائب وزیراعلیٰ بھی ہیںاوروزیر داخلہ بھی۔
یہ بھی پڑھئے: مدارس سے متعلق سپریم کورٹ کا تبصرہ مثبت ہے
۲۰۲۴ء کے انتخابات سے قبل امیت شاہ نے ایک میٹنگ میں وزیر اعلیٰ شندےکو قربانی کا سبق پڑھایا تھا، یعنی بی جے پی فرنویس کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہتی ہے جبکہ شندے کے حامی انہیںفی الحال اس منصب کے علاوہ کسی دوسرے پر دیکھنا گوارا نہیںکرسکتے کیونکہ بڑے حلقے میں شندے اپنے اقدامات سے وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنی پوزیشن مضبوط کرچکے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہےکہ بی جےپی نے مہاراشٹر کیلئےوزیر اعلیٰ کے چہرے کے تعلق سے کوئی پتہ نہیںکھولاہے حالانکہ اس کی جانب سے فرنویس کو وزیر اعلیٰ بنانے کے اشارے ضرور ملتے رہے ہیں۔
مہاراشٹر میںکون جیتے گا، کس کی حکومت بنے گی، کون وزیر اعلیٰ ہوگا، اس تعلق سے عوام بھی حتمی طورپر کوئی رائے دینے سے قاصر ہیں۔اس کی وجہ یہ ہےکہ زمینی سطح پر بھی ایسے حالات ہیںکہ بہت سی انتخابی حلقوں میں یہی پتہ لگانا مشکل ہےکہ ایک اتحاد کا دوسرے اتحاد سے مقابلہ ہے، یا پھر ایک اتحاد میں شامل دوپارٹیاں ہی ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔مثال کے طورپر کولہا پور کی سیٹ جہاں ایک لمحہ میں کانگریس کے امیدوارراجیش لاٹکردوسرے لمحے میں آزاد امیدوار بن گئے۔ کانگریس نے انہیںٹکٹ دے کر ان کی امیدواری منسوخ کردی ۔پھرمدھوریما راجے کو امیدوار بنایا گیا لیکن انہوں نے عین وقت اپنا نام واپس لے لیا۔اب وہاںمہاس وکاس اگھاڑی کا کوئی نامزد امیدوار نہیںر ہ گیا۔مانخورد شیواجی نگرسے این سی پی (احیت ) کے امیدوار نواب ملک کی اجیت پوار حمایت کررہے ہیں،وہ ان کے حق میںمہم بھی چلائیں گے لیکن ان کی اتحادی بی جے پی ان کی حمایت نہیںکرےگی۔ادھر ماہم میںراج ٹھاکرے کے بیٹے امیت ٹھاکرے کے خلاف شندے گروپ کے امیدوار ہیںلیکن شندے کے اتحادی فرنویس امیت ٹھاکرے کی حمایت کررہے ہیں۔یعنی اتحاد اور اتحادکے تقاضے اپنی جگہ اورتعلقات اپنی جگہ ۔انتخابات کے بعد تواور بھی معاملات پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔کس کی جیت اورکس کی ہار پر کون کس کے خلاف اور کس کے ساتھ ہوجائے ، کچھ کہا نہیںجاسکتا ۔ بھیونڈی مغرب میں کانگریس امیدوار کے مدمقابل سماجوادی پارٹی نے بھی امیدوار اتارا ہے اور اسے ’فرینڈلی فائٹ/دوستانہ لڑائی‘ قراردیاجارہا ہے جبکہ اس سے قبل ادھوٹھاکرےکہہ چکے ہیںکہ مہاوکاس اگھاڑی میںکوئی اختلاف نہیں ہےاوراتحاد کی پارٹیاںایک دوسرے کے خلاف کوئی امیدوار کھڑا نہیں کررہی ہیں ۔ مہاراشٹر کی انتخابی سیاست میںاتنے پیچیدہ معاملات کبھی نہیںرہے۔ گروہ بننے کے بعد بھی گروہ بندیاں جاری ہیں، امیدواروں کی بھرمار ہے ، کچھ بھی ہونا خارج از امکان نہیںاور کچھ بھی کہنا اتنا آسان نہیں۔