• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مدارس سے متعلق سپریم کورٹ کا تبصرہ مثبت ہے

Updated: October 28, 2024, 4:54 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

مدارس کے تعلیمی نظام پر کچھ لکھنا اورتبصرہ کرنا بنیادی طورپر علمائے کرام کاکام ہےلیکن بحیثیت ملت عامۃ المسلمین کی بھی یہ ذمہ داری کچھ کم نہیںہےکہ وہ اس معاملے پر غور کریں۔

Under the law, Muslim organizations and institutions have been given full authority to establish madrasas and manage them. Photo: INN
قانون کے تحت مسلم تنظیموں اور اداروں کو مدارس کے قیام اور ان کے انتظام وانصرام کا پورا اختیاردیا گیا ہے۔ تصویر: آئی این این

مدارس ملت اسلامیہ کی شناخت ہیں۔ان لاکھوںغریب مسلم طلبہ کیلئےان مدارس کی حیثیت گھر کی ہے جہاں نہ صرف  وہ بنیادی تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ وہاں ان کی رہائش وطعام کا بھی بھرپور بندوبست ہوتا ہے ۔ ہندوستان میںمدارس کی تاریخ کم وبیش ۷۰۰؍ سال پرانی ہے ۔ اپنے حالیہ تبصرہ میں چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا کی بینچ نےقومی حقوق اطفال کمیشن کی مدارس کو بند کرنے کی سفارش کے خلاف جمعیۃ علمائے ہندکی اپیل پر یہی بات کہی تھی اورمسلم تنظیموںکے اس موقف کی حمایت کی تھی مدارس کو بند نہیںکیاجاسکتا ۔ قومی حقوق اطفال کمیشن (این سی پی سی آر) نے ملک کی تمام ریاستوں اور مرکز کے  زیر انتظام صوبوں کو خط لکھ کر مدارس کو بند کروا کر وہاں زیر تعلیم طلبہ کو اسکولوں میں داخل کرانے کی سفارش کی ہے۔ جمعیۃ کی یہ اپیل اسی کے خلاف تھی جس پر سپریم کورٹ نے مثبت تبصرہ کیا ہے ۔ اس مقدمہ پر حتمی فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔
 یہ مقدمہ یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ ۲۰۰۴ء پرالٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے متعلق بھی تھا جس میںعدالت نے اس پورے قانون کو ہی غیر آئینی اور سیکولرازم کے خلاف قرار دے دیاتھا حالانکہ اس قانون کے تحت مسلم تنظیموںاور اداروں کو مدارس  کے قیام  اور ان  کے انتظام وانصرام کا پورا اختیاردیاگیا ہے، انہیں یہ بھی آزادی دی گئی ہےکہ وہ آئینی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے مدارس میںمعیاری تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ 
 مدارس کے تعلیمی نظام پر کچھ لکھنا اورتبصرہ کرنا بنیادی طورپر علمائے کرام کاکام ہےلیکن بحیثیت ملت عامۃ المسلمین کی بھی یہ ذمہ داری کچھ کم نہیںہےکہ وہ اس معاملے پر غور کریں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ مدارس کونشانے بنانے کے پیچھے اسباب و محرکات کیا ہیں اور یہ مسئلہ کتنا سنگین ہے ؟ بات اگرتاریخی حوالے سے کی جائے گی تو پھر جنگ آزادی میں مدارس اور علماء کا کردار اور قربانیاں بھی زیر بحث آئیں گی لیکن آج کیا وجہ ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کیلئے یہی مدارس نرم چارہ ثابت ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہی ایک انتخابی ریلی میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسواشرم نے دریدہ دہنی کےساتھ کہا تھا کہ انہوں نے آسام میں ۶۰۰؍ مدرسے بند کروائے ہیںاو ر باقی بھی بند کرائیں گے ۔ تازہ اعدادوشمارکے مطابق آسام میں کم  وبیش ایک ہزارمدارس بند کرائے جا چکے ہیں۔الہ آباد ہائی کورٹ کا یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ ۲۰۰۴ء کو غیر قانونی قراردینا اوراین سی پی سی آر کابھی مدارس کو بند کرنے کی سفارش کرنا،یہ سب انہی محرکات کی کڑی ہےجوملک  میں مسلم مخالف ذہنیت کے نتیجے میںپروان چڑھ رہے ہیںاور ان کی جڑیں مضبوط ہورہی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: رتن ٹاٹا، وہ شخصیت جو اپنے پیچھےمعاشرہ اور انسانیت کی خدمت کی تابندہ روایات چھوڑ گئی

ان اسباب پر کوئی بہت زیادہ غور کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مسلم دشمنی اورمسلمانوں کے خلاف تعصب کارونا روکر اب کچھ حاصل نہیںہونے والا ۔ اب اس بات کی فکر ضروری ہےکہ جو کچھ بگڑچکا ہے،اس کی اصلاح کیسے کی جائے ، جو نقصان ہوچکا ہے،اس کی تلافی کیسے کی جائے۔اب اگر خدانخواستہ عدالت سے مدارس بند کرنےکافیصلہ صادر ہوجائے ، تو ملت کے ذمہ داران کیا کریں گے؟کیا مسئلےکا رونا رویاجائے گا، کیا قانونی  چارہ جوئی جاری رکھی جائیگی ؟یا کچھ اور راستہ نکالا جائےگا؟بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوںکاکا مزاج یہ ہےکہ وہاںبس احکامات صادر کئے جاتے ہیںاوران پرعمل کیاجاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: یوپی اور ہماچل، دومختلف حکومتوں کا ایک طرز کا حکم ؟ کس کیلئے اور کس کیخلاف؟

اترپردیش میںمذابح کی بندشوںسے لے کر آسام میںمدارس پرپابندی تک یہی کچھ دیکھنے میں آیا ہے ۔یہ (بی جے پی) حکومتیں جو چاہتی ہیںکرجاتی ہیںاوردوسرے قانون اور قانونی راستوں پربحث کرتے رہ جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے مذکورہ آرڈر کے بعد گزشتہ دنوں اترپردیش کے وزیر مملکت برائے اقلیتی امور دانش آزاد انصاری نے وزیراعلیٰ یوگی سےملاقات کی تھی اور مدرسوں نیز مسلم خواتین کیلئےخصوصی اسکیم شروع کرنے پرگفتگو کی تھی۔دانش آزاد انصاری نے وزیراعلیٰ سے مطالبہ کیا کہ ’مدرسہ ماڈرنائزیشن اسکیم‘ جو مرکزی حکومت ختم کرچکی ہے   اسے یوپی حکومت اپنی سطح  پر جاری رکھے ۔سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعدیہ ایک اہم پیش رفت ہے اوریوپی حکومت کا سپریم کورٹ میںیہ جواب بھی معنی رکھتا ہےکہ وہ یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ ۲۰۰۴ء کوالہ آباد ہائی کورٹ کی طرح یکسر غیر آئینی نہیں سمجھتی۔

یہ بھی پڑھئے: یوپی اور ہماچل، دومختلف حکومتوں کا ایک طرز کا حکم ؟ کس کیلئے اور کس کیخلاف؟

عدالتوں کے تبصرے بالعموم بالکل راست ہوتے ہیں۔یعنی ایک چیز آئینی ہے یا غیر آئینی ،یا ایک چیز قابل عمل ہےیا ناقابل عمل، لیکن ، اس کے پیچھے ایک پورا پس منظر ہوتا ہے۔سپریم کورٹ میںبھی جب مدارس کے تعلق سے مقدمہ زیر سماعت آیا توسماعت کرنے والی بینچ کے سامنےمدارس کی تاریخ وروایت کا وہی پس منظر تھا جو اس کے مثبت تبصرے کی بنیاد بنا ۔ یہ بھی معاملہ ہےکہ عدالت تعلیم کے معیار سے سمجھوتہ نہیںکرے گی ۔  اس معاملے میںاس کا حتمی فیصلہ جب بھی اور جو بھی ہوگا ،اس میں مدارس کے تعلیمی نظام میں،اگر ضروری ہو،تبدیلیوںکی سفارش کرے گی ،مدارس کو بند کرنے کے احکامات نہیںدےگی ،کیونکہ کسی مذہبی فرقے کے تعلیمی نظام کویکسر ختم کرنا کسی عدالت کا مزاج نہیںہوسکتا ۔ مدارس کو ایک مکمل اور مربوط جدید تعلیمی نظام سے جوڑنا ،  اسے روزگار سے جوڑنے کی سعی ، اس کی اسناد کوڈگریوں کے ہم پلہ کرنے کی کوشش اوراسے عصری لحاظ سے قابل قبول بنانے کے اقدامات کی ضرورت آج پہلے سے کہیںزیادہ ہے۔اس پر غور کئے بغیر آگے نہیںبڑھا جاسکتا ،ملت کے ذمہ داروںکو حکومت کے سامنے بھی یہی بات رکھنی ہے اورخود کو بھی اسی کیلئے تیار کرنا ہے۔ ملت  کے ہر فرد کو ’مدرسہ ماڈرنائزیشن اسکیم ‘ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، بلکہ اسے  سب سے پہلے مدارس کے  اساتذہ  اور طلبہ کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔مدارس میں معیاری تعلیم  اورمضبوط انفراسٹرکچر کو یقینی بنانے کیلئے شروع کی گئی   اس  اسکیم اگر روک دیاگیا ہے تو کیوں؟اس اسکیم کے تعلق سے آخری معلومات وزارت اقلیتی امور  کے ذریعے پریس انفارمیشن بیورو کی ویب سائٹ پر نومبر ۲۰۲۱ء میں دی گئی تھی ۔یہ تحریری معلومات تھی جسے اس وقت کے وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی نےراجیہ سبھا میں پیش کیا تھا ۔اس میںیہ بھی تفصیل تھی کہ  اسکولی تعلیم اور خواندگی کے محکمہ  نے اسو قت مدارس کی جدید کاری کیلئے ۲۱۴۲۸ء۲۸۵؍ لاکھ روپے کا فنڈ جاری بھی کیا تھا ۔ اب اقلیتی امور کے موجودہ وزیر کرن رجیجوکے پاس کیا تازہ اعدادوشمار ہیں،اس کی کوئی تفصیل نہیںہے ۔ موجودہ حکومت کی مدارس پرتوجہ نہیںہے ، مدارس کی جدید کاری اس کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے لیکن عدالت کے توسط سے مدارس کا ایک بار پھر موضوع بحث بننا اور اس میںبھی عدالت کامثبت تبصرہ اطمینان کا باعث ہےکہ اس جانب دیر سویر کچھ تو توجہ دی جائیگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK