میرا روڈ میں جو کچھ ہوا اس میں مقامی مسلمانوں کا طرزعمل قابل تعریف ہےکیونکہ امن متاثر ہونے کے بعد انہوں نے حالات کو مزید بگڑنے نہیں دیا، انہوں نے پولیس کاتعاون کیا، بے خوف رہے ،متحد رہے اورپُرامن رہ کر نتیش رانے، گیتا جین اور نریندر مہتا جیسے لیڈروں کی نقض امن کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
میرا روڈ کے متاثرہ علاقےمیں بیریکیڈنگ کوجب مہاراشٹراسمبلی کی رکن گیتا جین نے غیرجمہوری بتایا تھا تواس وقت کانگریس کے مقامی لیڈر اور سابق ایم ایل سی مظفر حسین نے پولیس کارروائی کی تائید کی تھی۔ تصویر : آئی این این
رام مندر کی پران پرتشٹھا سے قبل اور ا س کے بعدجو حالات ملک میں نظر آئے ان میں اکثریتی طبقے کیلئے جشن کا سماں تھا۔ ۲۲؍ جنوری کا دن اس طبقے نے ایک تہوار کے طورپر منایا۔ اس سے پہلے کی رات جیسے دیوالی کی رات تھی۔ حالانکہ ہندو کیلنڈر کے اعتبار سےیہ ’پوس‘ کا مہینہ جاری ہے جس میں ہندوؤں کا کوئی تہوار نہیں ہوتا اورنہ کوئی مذہبی تقریب۔ الٰہ آبادہائی کورٹ میں گوپال داس نامی شخص نے پران پرتشٹھا کی تقریب روکنے کیلئے جومفاد عامہ کی عرضی داخل کی تھی اس میں یہی بات کہی گئی تھی کہ اس مہینے ایسی کسی تقریب کا انعقاد نہیں کیاجاسکتا۔ اس عرضداشت پرتادم تحریرکسی سماعت کی خبر نہیں ہے۔
ایودھیا میں مندر تعمیر کردیاگیا اوروہاں مورتی کی پران پرتشٹھا بھی ہو گئی۔ اس دوران وہ عناصر شہروں میں دندناتے پھر رہے تھے جو ایسے کسی موقع پراس بات کے اظہار میں دریغ نہیں کرتے کہ یہاں قانون ان کے ہاتھ میں ہے، ملک میں ان کا سکہ چلتا ہے اورحکومت اور پولیس ان کے آگے جھکتی ہے۔ مندر کے افتتاح کی مناسبت سے تیار کئے گئے رام کی علامت والے پرچم لے کرانہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب ملک میں ان اقتدار آچکا ہے، اسی لئے انہوں نےشرانگیزی بھی کی، وہ جب مسلم علاقوں سے گزرے تو نعرے بھی لگائے اورمسلم نوجوانوں کو مشتعل کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔
یہ تو ۲۲؍ جنوری کی مناسبت سے ان کی خصوصی ریلیوں کا عالم تھا۔ مہاراشٹر، یو پی اور دیگر ریاستوں میں اس سے قبل شر انگیزیوں کا ایک طویل سلسلہ چلتا آیا ہے جہاں ’جن آکروش ‘ ریلیوں میں بھگوا لیڈروں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف کھل کر زہر ا فشانی کی گئی ہے۔ مہاراشٹر میں یہ موقع ۲۲؍ جنوری سے پہلے پھر آیا۔ ۲۱؍ جنوری کی رات جو کچھ میرا روڈ میں ہوا وہ انہی سازشوں کا حصہ تھا کہ کس طرح کسی مسلم اکثریتی علاقے میں ہنگامہ کرکے وہاں ماحول خراب کیاجائےبلکہ ماحول خراب کرنے سے بھی بڑھ کر ان شر انگیزوں کا مقصد یہ تھا کہ انہیں (مسلمانوں کو) یہ بتایا جائے کہ رام مندرکی تعمیر اورپران پرتشٹھا کے بعد اب انہیں ملک میں زیر دست رہنا ہوگا لیکن اس شرانگیزی کاکچھ مقامی نوجوانوں نےجواب دیاجس کے بعد حالات بگڑ گئے۔ پھر حسب دستور پولیس کارروائی ہوئی، فلیگ مارچ ہوا اور یکطرفہ گرفتاریاں انجام دی گئیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسپیکرراہل نارویکر کا فیصلہ ،جب کوئی نا اہل ہی نہیں ٹھہرا تو مقدمہ کو یہاں تک لایا ہی کیوں گیا ؟
اس پوری صورتحال میں مسلمانوں کا رد عمل صرف یہ تھا کہ ایک موقع پرانہوں نے جہاں ضروری سمجھی وہیں مزاحمت کی۔ نیا نگر علاقے میں گھسے شرپسندعناصر کی گاڑیوں کوانہوں نے ضرور کچھ نقصان پہنچایاجس کا ویڈیو وائرل ہوا ہے، لیکن یہ قدم انہوں نے اشتعال انگیزی کے انتہا پر پہنچنے کے بعد اٹھایا۔ یہاں پولیس کی کیا یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ جو کام اس نے حالات بگڑنےکے بعد کیا، وہ پہلے کرتی۔ پولیس اپنی اس شبیہ کو درست کرنے کیلئے کب قدم اٹھائے گی کہ وہ سب کچھ ہوجانےکے بعد ہی آتی ہے۔ ۲۲؍ جنوری اوراس سے پہلے کے دن بہت اہم تھے۔ پولیس کوعلم تھا کہ حالات نازک ہیں۔ ریلیوں کی تیاریاں تھیں، جگہ جگہ جھنڈے لگادئیے گئے تھے، ایسے میں مسلم اکثریتی علاقوں پر کیا خصوصی توجہ ضروری نہیں تھی ؟
حالات جب خراب ہوئے اور اس کے بعد جو ہونا تھا ہوا، پولیس نے کارروائی شروع کی اورصورتحال پر قابو رکھنے میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہی توبی جےپی اراکین اسمبلی نتیش رانے اور گیتا جین علی الاعلان شرانگیزی پر اترآئے۔ نتیش رانے کا اسی موقع پر یہ ٹویٹ کہ’ چن چن کر ماریں گے‘، توجہ طلب ہے اور پوری طرح اشتعال انگیزی پر مبنی ہے۔ اس کے بعدان کا میرا روڈ آنے کا اعلان بھی نقض امن کا باعث بنتے بنتے رہ گیا جبکہ پولیس نے نیا نگر اور اطراف کے علاقوں میں زبر دست سیکوریٹی کے انتظامات کئے تھے۔ ایم ایل اے گیتا جین نے بھی اس دوران یہی رویہ اپنایا اور ان کا بس پانچ منٹ کیلئے پولیس کو ہٹا دینے کا ویڈیو وائرل ہوا۔ خیال رہےکہ یہ دونوں اراکین اسمبلی یہ شرانگیزی ایسے وقت میں کررہے تھے جبکہ پولیس حالات پر قابو پانے کی کوشش کررہی تھی، علاقے کی بیریکیڈنگ کردی گئی تھی۔ کسی بھی نا گہانی واقعہ کوٹالنے کیلئے میرا روڈ میں آدھار کارڈ دیکھ کر داخلہ دیاجارہا تھا۔ یہ پولیس کی کارروائیوں کا حصہ تھاجس میں تعاون بھی مقامی مسلمانوں کی جانب سے کیا جا رہا تھا۔ علاقےمیں بیریکیڈنگ کوجب گیتا جین نے غیرجمہوری بتایا تھا، اس وقت کانگریس کے مقامی لیڈر مظفر حسین نے پولیس کارروائی کی تائید کی تھی اور اسے ضروری قراردیا تھا۔ یہ سب کچھ ہورہا تھا اور اس دوران پولیس اقلیتی نوجوانوں کو گرفتار کرنے میں مصروف رہی۔
اس دوران سابق ایم ایل اے نریندر مہتانمودار ہوگئے اورمیرا روڈ میں ’رام ترنگا یاترا‘ نکالنے کی اپیل کردی اورتعجب خیز طورپر اس کا مقصد امن بتایاجبکہ ان کا ارادہ یہ محسوس نہیں ہورہا تھاکیونکہ اس ریلی میں جوشریک ہوتے وہ ہنومان چالیسا پڑھتے ہوئے میراروڈ کے متاثرہ علاقے سے گز ر تے۔ اس دوران ایک ہی طبقہ یعنی مقامی مسلمان مسلسل امن پسند رہے اور ان کی جانب سے ایک ہی بار مزاحمت دیکھی گئی۔ اس کے بعد انہوں نےلگاتار حالات پر نظر رکھی، پولیس کا تعاون کیا، متحد رہے، بے خوف رہے اور پُر امن رہ کرپولیس حکام پر دباؤ ڈالا اور ان کی مقامی لیڈر شپ نے بھی تنازع کو شدید ہونے نہیں دیا۔ اس کے باوجود قیمت ابھی بھی وہاں مسلمانوں کو ہی چکانی پڑرہی ہے۔
دوسری جانب اس حساس موقع پرانتظامیہ کی جانب سے میرا روڈ کے ایک علاقے میں تجاوزات ہٹانے کیلئے بلڈوزر کارروائی نے بھی کئی سوالات کوجنم دیا۔ بھلے یہ کارروائی متاثرہ مسلم اکثریتی علاقے میں نہ کی گئی ہو لیکن کارروائی کاوقت بتاتاہے اس کے ذریعے انتظامیہ کیا پیغام دینا چاہتا ہے، کیا یہ شر انگیزوں کی پشت پناہی نہیں ہے اور کیا اس سے شرپسندوں کو حوصلہ نہیں ملتا ؟
نتیش رانے کے معاملے میں یہ بات اہم ہے کہ وہ شرپسندی کی علامت بن چکے ہیں۔ چند مہینوں قبل انہوں نے مالیگاؤں میں زمینوں کی خرید و فروخت میں بدعنوانیوں کے معاملے میں بھی مسلمانو ں کو بدنام کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ بیوروکریسی کی لا پروائی کے ایک معاملے کو انہو ں نے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی تھی اوراسے نام نہاد’لینڈ جہاد‘ کا نام دیا تھا۔ اس معاملے میں بھی تحقیقات جاری ہے۔ یہاں میرا رووڈ میں حالانکہ انہیں ریلی نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی اور پولیس اسٹیشن میں طلب کرکے واپس بھیج دیاگیا لیکن پولیس اسٹیشن میں ہی انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےجو شر انگیزیاں کیں اور مسلمانوں کیلئے دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا وہ معمولی نہیں تھا۔ یہ سوال یہاں لازمی ہے کہ آخر اس وقت پولیس کی جانب سے انہیں کیوں نہیں روکا گیا، کیونکہ حسب مزاج یہی باتیں تو وہ ریلی میں بھی کرتے جس کی انہیں اجازت نہیں دی گئی!انہیں جو کچھ کہنا تھاوہ پولیس اسٹیشن میں کہہ دیا۔
یہ ایک طبقہ اور اس کی حامی لیڈرشپ ریاست وملک میں امن وامان کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے۔ انہیں بھگوا پارٹی کی اعلیٰ کمان کی خاموش حمایت حاصل ہےاور یہی خاموش حمایت اس تشویشناک پولرائزیشن کی ذمہ دار ہےجس کے آئندہ انتخابات تک شدید ہونے کاہی اندیشہ ہے۔ میرا روڈ میں حالات بگڑتے بگڑتے رہ گئے لیکن آئندہ دیگر علاقوں کی ضمانت کون دے گا، کیونکہ حکومت کوامن کی پروا نہیں ہے،اسے بس اپنے کسی سیاسی ہدف کو فیسٹیول میں تبدیل کرنے سے مطلب رہ گیا ہے۔