اس وقت ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی اہم مسائل ہیں۔ اگر اپوزیشن عوام کو یہ باور کراسکے تواس کیلئے الیکشن میں کامیابی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
EPAPER
Updated: January 14, 2024, 1:59 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
اس وقت ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی اہم مسائل ہیں۔ اگر اپوزیشن عوام کو یہ باور کراسکے تواس کیلئے الیکشن میں کامیابی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
پلوامہ حادثہ اور کسانوں کے احتجاج کے متعلق حکومت کے رویے سے نالاں اور بارہا اپنی برہمی کا اظہار کرنے والے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں آئندہ پارلیمانی انتخابات کے متعلق کچھ ایسی باتیں کہی ہیں جن پر اپوزیشن کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ حکومت نے ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کو جو سیاسی رنگ دے دیا ہے وہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں یقینی طور پر اسے فائدہ پہنچائے گا۔ یہ موضوع خاص طور سے شمالی ہندوستان میں اس کے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ کر سکتا ہے۔اس حکومت کے گزشتہ دس برسوں کی کارکردگی کا اگر غیر جانب دارانہ طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ واضح نظر آئے گا کہ ارباب اقتدار نے فلاحی و ترقیاتی امور سے زیادہ مذہبی معاملات کو ترجیح دی اور اس حکمت عملی سے اسے خاطرخواہ سیاسی فائدہ بھی ہوا ہے۔ اب ایسی فضا میں آئندہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اپوزیشن اس انتخابی مقابلے میں موثر اور طاقتورپوزیشن حاصل کر پائے گا؟
اس وقت ملک گیر سطح پر خصوصاً شمالی ہندوستان میں جو سیاسی ماحول ہے اس کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنی مضبوط دعویداری پیش کرنے کیلئے اپوزیشن کو بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے اور اس وقت ‘انڈیا‘ اتحاد میں جس طرح کی سیاسی سرگرمیاں جاری ہیں ان سے جو اشارے مل رہے ہیں وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اتحاد کے لیڈرمحنت تو کر رہے ہیں لیکن محنت جس سمت میں ہونی چاہئے اس پر ان کی توجہ ذرا کم ہی ہے۔ستیہ پال ملک نے اپنے انٹرویو میں اپوزیشن کی سیاسی حکمت عملی کے اس سطحی پن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن میں ایک نکما پن سرایت کئے ہوئے ہے اور جب تک اپوزیشن اس سے باہر نہیں نکلے گا تب تک فسطائی عناصر کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ اس نکمے پن کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اپوزیشن کو سڑکوں پر نکلنا چاہئے اور عوام کو مہنگائی ، بے روزگاری اور بدعنوانی جیسے مسائل پر لام بند کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ وہ سال بھر سے اس کوشش میں مصروف ہیں کہ اپوزیشن کو اس مرکز اتحاد پر لا سکیں جس سے بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں پر شکنجہ کسا جا سکے۔
اپنی اس کوشش میں انھوں نے ایک تجویز یہ بھی رکھی تھی کہ الیکشن میں اپوزیشن ایک کے خلاف ایک کا فارمولہ استعمال کرے۔ اس فارمولے کے مطابق اپوزیشن اتحاد میں شامل پارٹیاں یہ طے کر لیں کہ جس حلقے میں جس پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کی امید زیادہ ہو وہاں بی جے پی یا اس کی اتحادی پارٹیوں کے خلاف اسے ہی میدان میں اتارا جائے۔ آئندہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں سیٹوں کی تقسیم کے معاملے میں ’انڈیا‘ اتحاد داخلی طور پر جن مسائل سے دوچار ہے اس سے یہ نہیں لگتا کہ اتحاد ستیہ پال ملک کے اس مشورے پر اس طور سے عمل کرے گا کہ وہ بھگوا گروپ کو زور دار ٹکر دے سکے۔اب ایسے میں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھروہ کون سے راستے ہو سکتے ہیں جن پر چل کر اپوزیشن کو نمایاں کامیابی حاصل ہو سکے؟ اس کا جواب ستیہ پال ملک کے اس مشورے میں پوشیدہ ہے جو انھوں نے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا کے ایک چینل سے گفتگو کے دوران دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ملک میں دھرم آمیز سیاست کا بڑھتا رجحان خطرناک
اگر اپوزیشن اس مشورے پر عمل کرے اور عوام سے اپنے رابطے میں ان موضوعات کو مرکزی جگہ دے جو اس وقت ملک گیر سطح پر عوام کیلئے بنیادی مسائل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ، تو اپوزیشن کی کامیابی کا امکان قوی ہو سکتا ہے۔اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھگوا گروہ نے ایودھیا کے معاملے کو اس طور سے سیاسی گفت و شنید کا ایک اہم حصہ بنا دیا ہے کہ اسے سرسری طور پر نہیں دیکھا جا سکتا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی سچائی ہے کہ اس وقت عوام کی زندگی جن بڑے مسائل سے دوچار ہے ان میں مہنگائی ، بے روزگاری اور بدعنوانی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اگر اپوزیشن ان مسائل کو اپنی ساسی سرگرمیوں میں اس طور سے نمایاں کر سکے کہ عوام کو یہ باور ہو جائے کہ اقتدار انھیں جن عارضی اور جذباتی معاملات میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے ان معاملات سے ان کے معیار زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئے گی،تو عوام کا یہ طرز احساس اپوزیشن کیلئے انتخابی سیاست میں کامیابی کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو فی الوقت اپوزیشن بھی عوام سے اپنے رابطہ میں بیشتر انہی موضوعات کا سہارا لے رہا ہے جن کا زندگی کے بنیادی مسائل سے تعلق برائے نام ہے ۔ اپوزیشن اتحاد میں شامل بیشتر سیاسی پارٹیاں اپنا بیشتر وقت سیٹوں کی تقسیم کے معاملے پر صرف کر رہی ہیں جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ سب کو متحد ہو کر عوام کے درمیان اپنی موجودگی کو ایسے پرزور اور موثر انداز میں درج کرانا چاہئے کہ گودی میڈیا کے ذریعہ استعمال کئے جانے والے تمام حربوں کے باوجود عوام اپوزیشن کی بات کو سنجیدگی سے سننے پر آمادہ ہو جائیں۔
عوام کو بیداری کی اس سطح پر لانے کیلئے ضروری ہے کہ اپوزیشن سڑکوں پر نکلے اور ملک کے طول و عرض پر مہنگائی ، بے روزگاری اور بدعنوانی کے سبب پیدا ہونے والے ان مسائل کو نمایاں کرے جن کے سبب ایک عام آدمی بہ یک وقت کئی طرح کی دشواریوں کا سامنا کر رہا ہے۔اس ضمن میں جو کچھ بھی کوشش ہورہی ہیں وہ بیشتر کانگریس پارٹی اور اس میں خصوصی طور سے راہل گاندھی کے ذریعہ ہورہی ہیں ۔راہل گاندھی کی یہ کوششیں قومی سطح پر پارٹی کی امیج کو بہتر بنانے میں بھلے ہی معاون ثابت ہوں لیکن ریاستی سطح پر پارٹی میں جو داخلی انتشار پایا جاتا ہے وہ انتخابی سیاست میں اس کی شکست کا اہم سبب بنتا ہے۔ گزشتہ دنوں جن ریاستوں میں انتخابات ہوئے وہاں یہ انتشار واضح طور پر نظر آیا۔ دوسرے یہ کہ اپوزیشن اتحاد میں شامل دیگر سیاسی پارٹیوں کا رویہ اب تک بیشتر دفاعی ہی رہا ہے۔ ان پارٹیوں کے لیڈروں کو اپنے اندر یہ حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اقتدار کی ناقص معاشی اور سماجی پالیسیوں پر بے لاگ تبصرہ کر سکیں ۔ ایک آدھ لیڈروں کو چھوڑدیا جائے تو بیشتر حکمراں جماعت کی ’بی‘ پارٹی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں بہ آسانی یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ صرف اکیلے راہل کے دم پر چناوی نیّاکنارے نہیں لگ سکتی۔
ایوزیشن اتحاد میں شامل بیشتر پارٹیوں کے بڑے چہرے عوامی سطح پر ایسی کوئی کوشش کرتے نظر نہیں آتے جو آئندہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ان کی کامیابی کی راہ ہموار کر سکے۔ اقتدار کی ناقص پالیسیوں کے سبب سماجی اور معاشی سطح پر عوام کو جن مسائل کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے وہ مسائل طویل مدت تک عوام کی پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں ۔ اپوزیشن کے لیڈر اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ان مسائل پر ٹویٹ کرنے کی بجائے اگر عوام کے درمیان جاکر ان کے اثرات و نتائج کے بارے میں گفتگو کریں تو ہی وہ اقتدار کی مذہب آمیز سیاست کے دام سے عوام کو باہر نکال سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اپوزیشن لیڈروں کو ایسے متنازع بیانات دینے سے بھی گریز کرنا چاہئے جوبلاسبب تنازع کا سبب بنیں جن سے بھگوا پارٹی کو فائدہ پہنچے۔ گزشتہ دنوں جنوبی ہندوستان کے بعض لیڈروں کے ذریعہ ایسے ہی بیانات دیئے گئے جو شمالی ہندوستان میں فرقہ ورانہ سیاسی عناصر کیلئے مفید ثابت ہوئے۔
آئندہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے متعلق یہ وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ اقتدار اور اس کی حلیف پارٹیاں مذہب کو ایک اہم موضوع کے طور پر استعمال کریں گی۔ اگر اپوزیشن اس معاملے میں دفاعی رویہ اختیار کرے گا اور اس کے لیڈر عوامی سطح پر خود کو مذہبی ثابت کرنے میں ہی اپنی توانائی صرف کرتے رہیں گے توان کیلئے ایوان میں کسی معزز پوزیشن کو حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔جمہوری طرز سیاست میں عوام کے مفاد کو یقینی بنانے میں مضبوط اپوزیشن کو اہم مقام حاصل ہوتا ہے۔ یہ وہ سچائی ہے جسے ملک نے دس برسوں میں شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے۔اپوزیشن اتحاد کو بھی اس سچائی کو اس طور سے محسوس کرنے کی ضرورت ہے جو ملکی سیاست میں ان کیلئے معتبر حیثیت کے امکان کو قوی کر سکے۔ اس کیلئے اپوزیشن کو عوام سے اپنے رابطہ کی نوعیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اس تبدیلی کا محور ان مسائل اورمعاملات کو بنایا جائے جو سماجی اور معاشی سطح پر ان کی بے بسی اور محرومی سے انھیں آگاہ کر سکے۔