• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مودی کومضبوط ہی نہیں مربوط اور منظم اپوزیشن کا سامنا ہے

Updated: July 10, 2024, 5:07 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

حزب اختلاف کے تیوروں نے واضح کردیا ہے کہ پارلیمنٹ میں سرکاری بالادستی کا دور اب ختم ہوچکا ہے، اسپیکر اور چیئرمین کے رویےپر بھی نگاہ رہے گی۔

Rahul Gandhi giving his first speech as the Leader of the Opposition in the Lok Sabha.Photo: INN
راہل گاندھی لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کے طورپر اپنی پہلی تقریر کرتے ہوئے۔ تصویر : آئی این این

 ۱۸؍ ویں  لوک سبھا کے انتخاب کے بعد منعقد ہونےوالے پہلے ہی پارلیمانی اجلاس میں اپوزیشن نے وزیراعظم مودی، ان کے دست ِراست وزیرداخلہ امیت شاہ اور حکومت کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ پارلیمنٹ پر سرکاری بالادستی کا وہ دور ختم ہوگیا جو گزشتہ ۱۰؍ برسوں  سے جاری تھا۔ نیا اپوزیشن نہ صرف مضبوط ہے بلکہ مربوط اور منظم بھی ہے۔ اس نے تلخ اورطویل جدوجہد کے دوران بڑی کامیابی کے ساتھ آپس میں باہمی ربط اور حکومت کے آمرانہ طرز عمل کے خلاف زبردست ہم آہنگی پیدا کرلی ہے۔ اس کا مظاہرہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں  اور اپوزیشن لیڈروں  کی تقاریر کے دوران واضح طور پر نظر آیا۔ الگ الگ پارٹیوں سے وابستہ ہونے کے باجود پورا اپوزیشن کے تمام لیڈر ایوان میں ایک اکائی کی طرح نظر آئے۔ اس مضبوط، مربوط اور منظم اپوزیشن نے  وزیر اعظم مودی اوران کی حکومت کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ انہوں  نے بھلے ہی اہم وزارتوں اور اسپیکر کے عہدے پر پرانے چہروں کو برقرار رکھ کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہوکہ یہ حکومت سابقہ مودی سرکار کی ہی توسیع ہے مگر اپوزیشن ایسا ہونےنہیں دےگا۔ اس کی سب سے پہلی مثال تو یہی ہے کہ اس بار وزیراعظم کسی رکن پارلیمان کی تقریر کے دوران نہ صرف بے چین اور پہلو بدلتے نظر آئے بلکہ تقریر کے دوران پہلی بارایک نہیں  دوبار بطوراحتجاج اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کی تقریر کے دوران اُن کا یوں ۲؍ بار کھڑے ہوکر صدائے احتجاج بلند کرنا پارلیمنٹ کی بدلی ہوئی صورتحال کو واضح  کرتا ہے۔ یہ صاف ہوگیا ہے کہ جس شخص کو ایک منظم مہم کے ذریعہ ملک کے عوام کے سامنے’’پپو‘‘ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی وہ نہ صرف وزیراعظم مودی کو چیلنج کررہاہے بلکہ خود وزیراعظم بھی اس کی حیثیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ 
پارلیمانی اجلاس کے دوران ایوان بالا ہو کہ ایوان ِ زیریں، اپوزیشن نے وزیراعظم مودی اور این ڈی اے حکومت کو چیلنج کرنے کا کوئی موقع نہیں گنوایا۔ راہل گاندھی، ملکارجن کھرگے، مہوا موئترا، منوج جھا، جان بریٹاس، کلیان بنرجی اور اکھلیش یادوکی تقریریں قابل ذکر ہیں جن میں نیٹ، پیپر لیک، بے روزگاری، اگنی ویر، مہنگائی، تشدد اور نفرت انگیزی کے سلگتے ہوئے مسائل کے ساتھ ہی اقلیتوں پر مظالم کا حوالہ دیکر اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ ہندوتوا کے نام پر کس طرح ملک کے ماحول کو زہر آلود کیا جارہاہے۔

یہ بھی پڑھئے: نئے تعزیری قوانین پراُٹھنے والی آوازوں پر توجہ کی ضرورت

اپوزیشن لیڈرکی حیثیت سے اپنی پہلی تقریر میں راہل گاندھی نے اس محاذ پر قائدانہ رول ادا کیا۔ انہوں نے بھلے ہی چھتیس گڑھ، یوپی اور دیگر ریاستوں میں ہجومی تشدد میں  مسلم نوجوانوں کے قتل کا نام لے کر ذکر نہیں کیا مگر اقلیتوں کے خلاف تشدد کی پوری قوت سے مذمت کی اور حزب اقتدار کی صفوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہاکہ جو لوگ خود کو ہندو کہتے نہیں تھکتے وہی نفرت اور تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس موقع پر حزب اقتدار کی صفوں سے اٹھنے والی صدائے احتجاج پر راہل گاندھی کا یہ جواب کہ’’مودی پورا ہندو سماج نہیں  ہیں، بی جےپی پورا ہندو سماج نہیں  ہے، آر ایس ایس پورا ہندو سماج نہیں ہے‘‘، اس بات کا اشارہ ہے کہ اپوزیشن نے انتخابی نتائج کے بعد اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ ہندوؤں  کی اکثریت اُن کے نام پر ہونےوالے تشدد کی تائید نہیں  کرتی۔ اس طرح اپوزیشن نے اُن ووٹروں  کے ناراض  ہو جانے کے خوف سے بھی چھٹکارا حاصل کرلیا ہے جو ہندوتوا شدت پسندی پر نکیر کی صورت میں ناراض ہوسکتے ہیں۔ یہ خوش آئندہے جس پر اپوزیشن کا قائم رہنا ضروری ہے۔ لوک سبھا میں  راہل ہوں  کہ راجیہ سبھا میں  کھرگے، دونوں  نے وزیر اعظم کو ان ہی کے بیانات کا حوالہ دیکر جس طرح نشانہ بنایا وہ اپوزیشن کی تیاری کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ ٹی ایم سی کی شعلہ بیان ایم پی مہوا موئترا جنہیں  سابقہ لوک سبھا میں  اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، دوبارہ جیت کر ایوان زیریں میں پہنچیں تو کسی زخمی شیرنی کی طرح وزیراعظم کو نشانہ بنایا۔ وہ جیسے ہی تقریر کیلئے کھڑی ہوئیں، مودی ایوان سے نکل کر جانے لگے۔ مہوا نے انہیں  للکارتے ہوئے کہا کہ ڈریئے مت سن کر جایئے، آپ انتخابی مہم میں میرے حلقے میں ۲؍ بار آئے تھے۔ 
ایوان میں اپوزیشن لیڈروں کی تقاریر کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف آپس میں مربوط تھیں  بلکہ اپوزیشن نے ہر محاذ پر حکومت کی قلعی کھول دینے کا تہیہ کرلیا ہے اور اس کیلئے شاید یہ طے کرلیا گیاتھا کہ کون کس موضوع پر زیادہ گہرائی وگیرائی سے بات کریگا اور کون سے وہ موضوعات ہیں  جن پر ہر لیڈر کو اپنی تقریر میں آواز بلند کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ جس طرح  نیٹ تنازع ہر لیڈر کی تقریر کا حصہ تھا اسی طرح  پارلیمانی الیکشن میں الیکشن کمیشن کا متنازع رویہ بھی کم وبیش اپوزیشن کے ہر ایم پی کی تقریر میں  موجود تھا۔ کلیان بنرجی کی تقریر کے دوران حزب اقتدار کی جانب سے اس اعتراض پر کہ الیکشن کمیشن ایوان میں  اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے موجود نہیں  ہے اس لئے ایوان کے ضوابط کے لحاظ سے اسے تنقید کانشانہ نہیں  بنایا جاسکتا، ٹی ایم سی لیڈر نے جواب دیا کہ صدر جمہوریہ نے الیکشن کمیشن کو الیکشن کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد دی ہے اور وہ صدر کے خطبہ کے اسی حصہ کا جواب دے رہے ہیں۔ اسپیکرنے بھلے ہی اسے بعد میں لوک سبھا کی  کارروائی سے حذف کردیا مگر کلیان بنرجی کا یہ جواب اس بات کا مظہر ہے کہ اپوزیشن پوری تیاری اور دلائل کے ساتھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہاہے۔ اپوزیشن کے اعتماد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسپیکر اوم برلا کو بھی نہیں  بخشا گیا۔ راہل گاندھی نے یہ نشاندہی کرکے کہ وہ مودی سے ہاتھ ملاتے وقت ’’جھک جاتے ہیں ‘‘ واضح  کر دیا کہ ان پر بھی اپوزیشن کی نظر ہے۔ یہی پیغام راجیہ سبھا میں ملکارجن کھرگے نے چیئرمین دھنکڑ کو دے دیا ہے۔ مودی کو اب کی بار مضبوط ہی نہیں مربوط اور منظم اپوزیشن کا سامنا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK