• Thu, 13 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مسلمانوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، ہر رات کے بعد صبح ضرور ہوتی ہے

Updated: February 13, 2025, 5:32 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumabi

دہلی اسمبلی کے انتخابی نتائج ظاہر ہوگئے اور یہ حسب توقع ہی رہے۔ حسب توقع اسلئے نہیں کہ رائے دہندگان بی جے پی کو پسند کرتے ہیں بلکہ اسلئے کہ ملک کے موجودہ حالات میں بی جے پی ہی الیکشن جیت سکتی ہے۔

BJP won in Delhi but can this victory be called a victory with the help of public support. Photo: INN
دہلی میں بی جے پی جیت گئی لیکن کیا اس جیت کو عوامی حمایت کی مدد سے حاصل ہونے والی جیت قرار دیا جاسکتا ہے۔ تصویر: آئی این این

دہلی اسمبلی کے انتخابی نتائج ظاہر ہوگئے اور یہ حسب توقع ہی رہے۔  حسب توقع اسلئے نہیں کہ رائے دہندگان بی جے پی کو پسند کرتے ہیں بلکہ اسلئے کہ ملک کے موجودہ حالات میں بی جے پی ہی الیکشن جیت سکتی ہے۔ اِس وقت بی جے پی کے پاس ’سام دام دنڈ بھید‘کی طاقت ہے جس کی مدد سے وہ کوئی بھی الیکشن جیت سکتی ہے۔ لوگ مذاقاً  اور طنزاً اب یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ بی جےپی اگر امریکہ، چین ، روس اور ترکی میں بھی قسمت آزمائی کرے تو الیکشن جیت سکتی ہے۔ لیکن یہ بات بی جے پی  کے ساتھ ہی اس کے حامی اور مخالفین کو بھی معلوم ہونی چاہئے کہ یہ طاقت ہمیشہ نہیں رہنےوالی ہے۔ بی جے پی جس راہ پر چل پڑی ہے، یہاں سے اس کا زوال یقینی ہے۔ بس دیکھنا یہ ہے کہ اس میں کتنا وقت لگتا ہے۔
۱) اترپردیش میں ملک کی آزادی کے بعد سے ۵؍ دسمبر ۱۹۸۹ء تک ۴۲؍ برسوں کے دوران ۴؍ سال ۶۲؍ دنوں کی   غیر کانگریسی حکومتوں کو چھوڑ دیں تو ۳۸؍ سال تک کانگریس ہی ریاست کی بلا شرکت غیرے مالک رہی .... لیکن اس کے بعد سے اس کے نیچے سے زمین کچھ اس طرح کھسکی کہ وہ آج بھی ہاتھ پاؤں مارتی ہوئی نظر آرہی ہے۔۲۰۲۲ء میں یوپی کے  اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو ۲ء۳۳؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ریاست کی ۴۰۳؍ نشستوں میں صرف ۲؍ سیٹیں ہی مل سکیں۔

۲) مغربی بنگال میں ۱۹۴۷ء سے ۳۰؍ اپریل ۱۹۷۷ء تک یعنی ۳۰؍  برسوں میں صرف ۲؍ سال ۱۳؍ دنوں تک اجوئے مکھرجی اور پرفل چندر گھوش کی صورت میں غیر کانگریسی وزیراعلیٰ رہے، ورنہ باقی عرصے تک ریاست میں کانگریس کی حکمرانی رہی... لیکن آج ریاست کی ۲۹۴؍ رکنی اسمبلی  میں کانگریس کی ایک بھی سیٹ نہیں ہے۔
۳) اسی مغربی بنگال میں ۱۹۷۷ء سے ۲۰۱۱ء تک مسلسل ۳۴؍ برسوں  تک بائیں محاذ کی حکومت رہی ..... لیکن آج اسمبلی میں سی پی ایم، سی پی آئی، فارورڈ بلاک اور آر ایس پی کا ایک بھی نمائندہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ایک سے زائد شعبوں میں مہارت رکھنے والی بھیونڈی کی ۵؍ اہم شخصیات سے ملاقات

۴) ۴؍ جون ۲۰۲۴ء کو اُدیشہ کے انتخابی نتائج ظاہر ہوئے تو پتہ چلا کہ نوین پٹنائک ہار گئے۔ وہ مسلسل۲۴؍ سال تک وہاں کے وزیراعلیٰ رہے۔ انتخابی نتائج کے سامنے آنے تک وہ خود کواُدیشہ میں ناقابل تسخیر سمجھتے رہے لیکن آج وہاں واضح اکثریت کے ساتھ بی جےپی کی حکومت ہے۔
۵) چلئے ! اب ہم اپنا   دائرہ تھوڑا وسیع کرتے ہیں۔پڑوسی ملک  بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ  نے ۲۰؍ سال تک ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور اپنےملک کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک حکمرانی کا ریکارڈ بنایا لیکن آج وہ دَر دَر بھٹکنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کبھی خواب و خیال میں بھی اِس دن کا تصور نہیں کیا ہوگا۔ 
 ۶) ایک اور پڑوسی ریاست سری لنکا  میں وہاں کے سابق سربراہ مہندرا راجا  پکشے کا ۲۰۰۴ء سے۲۰۲۲ء تک طوطی  بولتا رہا۔ اس دوران وہ ملک کے صدر بھی رہے اوروزیراعظم بھی لیکن ۹؍ مئی ۲۰۲۲ء کو انہیں استعفیٰ دے کر ملک سے بھاگنا پڑا۔آج وہ سری لنکا میں ضرور ہیں، لیکن ایک ملزم کی طرح بہت سارے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔
۶) ملک شام کا معاملہ بالکل تازہ ہے۔ وہاں ۸؍ دسمبر۲۰۲۴ء کو ۵۳؍ سال بعد اسد حکومت کا خاتمہ ہوا۔۲۴؍ سال تک بشارالاسد اور  ۲۹؍ سال تک ان کے والد حافظ الاسد کی حکمرانی رہی۔ کل تک بشارالاسد کی منشاء کے بغیر شام  کے حدود میں ایک پرندے کو بھی  پر مارنے کی اجازت نہیں تھی لیکن آج  وہ روس کے رحم و کرم پر جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
۸) موضوع کی وضاحت کیلئے یہ چند مثالیں کافی ہیں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ ہر رات کے بعد ایک صبح ضرور ہوتی ہے۔ آج وطن عزیز میں بھی کچھ اسی طرح کے حالات پیدا کئے جارہے ہیں۔ملک میں اندھیرے کا راج   پھیلتا جارہاہے، سیاہی اپنا دائرہ بڑھا رہی ہے۔ ملک کے سیاسی اور سماجی حالات بہت نازک ہیں۔ مسلمانوں کو کھل کر احتجاج کی اور حکومت سے اختلاف کی اجازت نہیں ہے۔انہیں اپنی بات کہنے اور اپنے تشخص کے اظہار سے بھی روکنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔  اگر کسی نے جرأت کی تو اسے سلاخوں کے پیچھے بھیجنے، پورے خاندان کو نقصان پہنچانے اور اس کے گھروں پر بلڈوزر چلانے کا فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔ کھلی جگہ پر انہیں  عبادت کرنے  اوراپنی پسند کا کھانا کھانے سے بھلے ہی کسی کو کوئی پریشانی نہ ہو، لیکن مسلمانوں کا یہ عمل بھی حکمراں طبقے کو راس نہیں آرہا ہے۔ قصداً، جبراً اور سازشاًہر سطح پر  اُن کی نمائندگی کم کی جارہی ہے۔ ان کےساتھ ہی ان کے بہی خواہوں کا بھی قافیہ تنگ کیا جارہا ہے اوراگر کسی نے ان کی طرفداری کی تو اسے بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود ملک کے حالات اتنے نازک نہیں ہیں کہ مسلمان ہمت ہار جائیں اور ایک نئی صبح کی امید کا انتظار  چھوڑ دیں۔  بقول فیض احمد فیض ’’لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔‘‘ کسی بھی حکمراں کے پاس ’سام دام دنڈ بھید‘ کی طاقت بہت دنوں تک نہیں رہتی۔ ایک وقت آتا ہے جب یہی طاقت اس کے زوال کا راستہ ہموار کرتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK