اگر نتیش اور نائیڈو کی پارٹیوں کی بیساکھی کے بغیر بی جے پی اقتدار میں آ گئی ہوتی تو ممکن ہےکہ اب تک ان ترمیمات کو قانونی حیثیت بھی حاصل ہوگئی ہوتی۔
EPAPER
Updated: September 30, 2024, 3:17 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
اگر نتیش اور نائیڈو کی پارٹیوں کی بیساکھی کے بغیر بی جے پی اقتدار میں آ گئی ہوتی تو ممکن ہےکہ اب تک ان ترمیمات کو قانونی حیثیت بھی حاصل ہوگئی ہوتی۔
پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں وقف ترمیمی بل کو اگر ایکٹ کی شکل مل جائے تو اس پر بہت زیادہ حیرت نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بل فی الوقت مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں زیر غور ہے۔ یہ کمیٹی ترمیمی بل کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر اور وقف بورڈوں کے اراکین نیز دیگر فریقین سے بتادلہ ٔ خیال کرنے کی غرض سے ان دنوں ملک کی پانچ ریاستوں مہاراشٹر، گجرات، تلنگانہ، تمل ناڈو اور کرناٹک کے دورے پر ہے۔ حکومت کی مجوزہ ترمیمات کو قانونی شکل عطا کرنے کیلئے اقتدار سمیت وہ تمام عناصر سرگرم ہیں جو اوقاف کے موجودہ ضابطوں میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ وزیر داخلہ حسب عادت یہ دعویٰ مسلسل کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت اس بل کو سرمائی اجلاس میں پاس کروا لے گی۔ اگر نتیش اور نائیڈو کی پارٹیوں کی بیساکھی کے بغیر بی جے پی حکومت بنانے میں کامیابی ہو گئی ہوتی تو ممکن ہے کہ اب تک ان ترمیمات کو قانونی حیثیت بھی حاصل ہوگئی ہوتی۔
اس بل کی مخالفت میں قوم کی بیداری وقف املاک کے تحفظ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ۹۰؍ لاکھ سے زیادہ ای میل کے ذریعہ افراد قوم نے اس بل کی مخالفت حکومتی پورٹل پر درج کرائی ہے لیکن اب بھی وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اقتدار اس بل کو پاس کروانے کے دیگر ہتھکنڈے استعمال نہیں کرے گا۔ بلکہ سچائی یہ ہے کہ اس طرز کی کوششیں مسلسل جاری ہیں اور اس کیلئے میڈیا، سوشل میڈیا اور دیگر وسائل کااستعمال کیا جا رہا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے ایک طبقے کو سبز باغ دکھا کراس بل کی حمایت کی تشہیر خوب زور و شور سے کی جارہی ہے۔ اس تشہیر کے ذریعہ یہ باور کرانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ حکومت جن ترمیمات پر زور دے رہی ہے وہ وقف املاک کے تحفظ کیلئے ناگزیر ہیں اسی لئے آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ، آل انڈیا صوفی سجادہ نشین کونسل اور مسلم راشٹریہ منچ جیسی تنظیمیں اس بل کی حمایت کر رہی ہیں ۔ ان تنظیموں کے علاوہ ایک غیر سرکاری تنظیم ’بھارت فرسٹ‘ اور بعض نام نہاد دانشور قسم کے مسلمانوں نے بھی اس کی حمایت کی ہے اور اپنا موقف جے پی سی کے روبرو رکھا ہے۔
ملک کی موجودہ سیاست اور سماجی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والا ہر فرد یہ جانتا ہے کہ قوم کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی ان تنظیموں کو عوامی سطح پر وہ اعتبار حاصل نہیں ہے کہ ان کے موقف کو قوم آمنّا صدقنا تسلیم کر لے لیکن بل کو پاس کروانے کی جی توڑ کوششوں میں مصروف ارباب اقتدار ان تنظیموں کو سر آنکھوں پر بٹھائے ہوئے ہیں اور ان کے توسط سے قوم کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء میں ترمیم حکومت کی نیک نیتی کا ثبوت ہے۔ مسلمانوں کے متعلق حکومت کی نیک نیتی کو جاننے کیلئے گزشتہ دس برسوں کے دوران ملک گیر سطح پر مسلمانوں کی بہبود اور ترقی کے عنوان سے کئے گئے حکومتی اقدامات کا منصفانہ تجزیہ ہی کافی ہے۔ اب ایسے میں اگر اس ترمیمی بل کو قانونی شکل مل گئی تو بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک گیر سطح پر پھیلی ۹؍لاکھ ایکڑ سے زیادہ وقف املاک کا استعمال مسلمانوں کی بہبود اور ترقی کیلئے کس طور سے کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھئے:فسطائی عناصر نے قانون کی حکمرانی کو سبوتاژ کر دیا ہے
جن مسلم تنظیموں اور نام نہاد دانشوروں نے بل کی حمایت کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ان ترمیما ت کے ذریعہ وقف بورڈوں میں ہورہی بدعنوانی اور بد نظمی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ سینٹرل وقف کونسل اور مختلف ریاستوں کے وقف بورڈوں میں بدعنوانی اور بد نظمی سے یکسر انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرز کی بدعنوانی اور بدنظمی سے متعلق ۲۴؍ ہزار سے زیادہ مقدمات مختلف ریاستوں کی عدالتوں میں درج ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وقف املاک کی نگہداشت اور جائز مستحقین کو فیض پہنچانے کی غرض سے قائم کئے گئے وقف بورڈوں میں شفافیت اور ایمانداری کی کمی ہے۔ ان بورڈوں کے ارباب حل و عقدکے ذریعہ مالی خرد برد اور اقربا پروری کی غرض سے وقف املاک کا ناجائز استعمال اکثر کیا جاتا رہا ہے۔ یہ معاملات جب تنازع کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو پولیس اور عدلیہ سے وابستہ افراد بھی بنام انصاف اپنے مفاد کی گجائش نکا ل لیتے ہیں ۔ اس صورتحال کے سبب وہ مقصد بھی پیچیدہ شکل اختیار کر لیتا ہے جس مقصد کیلئے املاک وقف کی جاتی ہیں۔ وقف بورڈوں میں ان کمیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن صرف اسی بنا پر ایسی ترمیمات کی حمایت بھی نہیں کی جا سکتی جو اوقاف سے وابستہ قومی مفاد کی راہ کو مسدود کرتی ہوں۔
ان مجوزہ ترمیمات میں دونکات ایسے ہیں جو واضح طور پر حکومت کی نیت پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ ان میں پہلا یہ کہ وقف املاک کے تعین میں سرکاری افسران کی مداخلت کا التزام اور دوسرا یہ کہ وقف بورڈ میں غیر مسلم افراد کی شمولیت پر اصرار۔ یہ دونوں نکات نہ صرف غیر منطقی ہیں بلکہ ان سے وقف بورڈ کے کام کاج میں ایسی پیچیدگی بھی پیدا ہو سکتی ہے جو سماجی سطح پر فرقہ واریت کو ہوا دینے کا موجب بنے۔ ملک اس وقت یوں بھی فرقہ واریت کی زائیدہ مختلف مشکلات سے دوچار ہے اور ایسے میں اگران ترمیمات کو قانونی شکل مل گئی تو یہ مشکلات مزید دوچند ہو سکتی ہیں۔ وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء کے تحت اب تک جو اختیار وقف ٹربیونل کو حاصل ہے وہ مجوزہ ترمیمات کے بعد ضلع مجسٹریٹ کو منتقل ہو جائے گا۔ ممکن ہے کہ اس مرحلے پر ضلع مجسٹریٹ دیانت داری اور شفافیت کا مظاہرہ کرے لیکن ایسا ہی ہوگا اس کا حتمی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا نہ ہونے کا خدشہ اسلئے بھی بڑھ جاتا ہے کہ ان دنوں بیوروکریسی میں دائیں بازو کے افکار کی تائید کرنے والے سرکاری افسران کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ ان پر اقتدار کی نظر عنایت خصوصی طور سے رہتی ہے۔
اسی طرح وقف سے متعلق امور میں غیر مسلم افراد کی شمولیت بھی حکومت کی نیت کو مشکوک بناتی ہے۔ اوقاف کا نظم محض ایک سماجی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس نظم کی بنیاد شریعت پر ہے۔ ایسی صورت میں کوئی غیر مسلم شخص جو شرعی امور سے نابلد ہو، وہ کن بنیادوں پر وقف امور کی درستگی یا عدم درستگی کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ ترمیمی بل کی یہ تجویز صرف اسلئے ہے کہ وقف املاک کے تصرف میں ان اقتدار پرست عناصر کو بھی شامل کیا جائے جو موجودہ ایکٹ کے سبب ان املاک سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح وقف امور کو شفاف اورکارآمد بنانے کے نام پر ان میں خواتین کی شمولیت کی تجویز بھی نا قابل عمل ہے۔ خواتین کو قومی دھارے سے جوڑنا لائق تحسین ہے لیکن اس طرح کے معاملات میں ایسے اقدام سے نئے مسائل سر اٹھا سکتے ہیں جو وقف امور کی انجام دہی میں مزید پیچیدگی کا باعث ہوں گے۔
وقف ترمیمی بل کو اقتدار نے ناک کا مسئلہ اسلئے بھی بنا رکھا ہے کہ اس کے ذریعہ مبینہ طور پر امبانی کے انٹیلیا کو محفوظ کرنا ہے۔ دنیا کے مہنگے گھروں میں سر فہرست امبانی کا یہ عالیشان محل جس زمین پر بنا ہے اسے کریم بھائی ابراہیم نے مذہبی درس گاہ اور یتیم خانہ بنانے کیلئے وقف کیا تھا۔ یہ زمین امبانی نے ۲۰۰۲ء میں ساڑھے۲۱؍ کروڑ روپے میں خریدی تھی۔ یہ خریداری جب تنازع کی شکل اختیار کر گئی تو ریٹائرڈ جج اے ٹی اے کے شیخ کو اس کی تفتیش کی ذمہ داری سونپی گئی اور انھوں نے بھی اپنی رپورٹ میں یہ اعتراف کیا کہ اس خریداری میں وقف ایکٹ ۱۹۹۵کی دفعہ (۲) ۳۲؍ کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ اگر حکومت کی مجوزہ ترمیمات وقف ایکٹ کا حصہ بن جاتی ہیں تو اس طرح کی خلاف ورزیوں کی راہ مزید آسان ہو سکتی ہے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران مسلمانوں کو زندگی کے ہر محاذ پر کمزور کرنے کی زعفرانی پالیسی کا عکس واضح طور پر وقف ترمیمی بل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ دو سال قبل مکل وکرم نے ’آخر پلائن (ہجرت) کب تک‘نام سے ایک فلم بنائی تھی جس میں وقف بورڈ کے ذریعہ کشمیری پنڈتوں کی املاک پر ناجائز قبضہ بتایا گیا تھا۔ دیکھا جائے تو وقف کے خلاف ماحول سازی کا عمل دو تین برس قبل ہی شروع کر دیا گیا تھا اور اب یہ ترمیمی بل بھی اسی شاطرانہ رویہ کا ایک جزو ہے۔ وقف ترمیمی بل کی حمایت کرنے والی تنظیموں اور نام نہاد قسم کے دانشوروں کو ان حقائق پر غور کرنا چاہئے کیونکہ اگر یہ بل پاس ہو گیا تو ہندوستانی مسلمان معاشی بہبودکے معاملے میں ان عناصر کا دست نگر ہو جائیں گے جو اس قوم کی سماجی اور معاشی ترقی کے معاملے میں ہمیشہ سے اس کے بدخواہ رہے ہیں۔