آج ہمیں آرکے لکشمن کا چار دہائی پُرانا ایک کارٹون یاد آرہا ہے جس میں ایک سائنسی و منطقی کانفرنس کا افتتاح کسی جیوتشی کی ہدایت پر ۱۱؍بج کر ۱۳؍منٹ پر کرنے کیلئے ایک گھنٹے تک انتظار کیا جاتا ہے۔
EPAPER
Updated: November 10, 2024, 12:35 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
آج ہمیں آرکے لکشمن کا چار دہائی پُرانا ایک کارٹون یاد آرہا ہے جس میں ایک سائنسی و منطقی کانفرنس کا افتتاح کسی جیوتشی کی ہدایت پر ۱۱؍بج کر ۱۳؍منٹ پر کرنے کیلئے ایک گھنٹے تک انتظار کیا جاتا ہے۔
آج ہر جگہ یہی ہورہا ہے کیوں ؟ اسلئے کہ موجودہ حکمرانوں کو ملک سے زیادہ حکومت عزیز ہے اور حکومت بچانے یا بنانے کا ایک نکاتی فارمولہ اُن کے پاس موجود ہے اور وہ ہے:علائو الدین خلجی سے لے کر اورنگ زیب تک اور افضل خان سے لے کر افضل گرو تک سب کو یاد کرو،یاددلائو اورہر الیکشن بھاری اکثریت سے جیت جائو۔ اسی ماحول میں آج اِن دو اصطلاحات نے جنم لیا، جن کو آج تک کسی نے سُنا بھی نہیں تھا اور وہ ہیں:(۱)لنچنگ اور(۲) ٹرولنگ۔ یہ اصطلاحات ایک نام نہاد یونیورسٹی کے ذریعے رائج ہوئیں اور وہ ہے’ واٹس ایپ یونیورسٹی‘۔ جس میں بے روزگار نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر اپنے سیاسی مخالفین کو گھیرنے اور اُن کی کردار کشی پر مامور کیا جاتا ہے۔ ہر گالی کے ٹویٹ یا میسیج پر دو روپے دیئے جاتے ہیں۔اذیت ناک گالیاں دینے والوں کو ترقی ملتی ہے، اُنھیں اس شعبے کا منیجر اور جنرل منیجر تک بنادیا جاتا ہے۔موجودہ حکمران ہاروَرڈ سے لے کر آکسفورڈ تک ہر یونیورسٹی کا مذاق اُڑاتے ہیں اور کیمسٹری سے لے کر ریاضی تک کے ضابطوں کی مضحکہ خیز حد تک تشریح کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: فلمی پردے کا ہیرو سیاسی اسٹیج پر ویلن کی زبان بولنے لگا
نوجوانو! ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ جہالت برقرار رہے تاکہ اُن کی گدّی قائم رہے۔ اس طرح معاشرے اور ملک میں جو انتشار پھیلتا ہے اُس ضمن میں ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ کوئی بھی چھوٹا بڑا انتشار ہمیشہ فرقہ وارانہ فساد پر ختم ہوتا ہے۔ اس میں شرپسندوں کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ اقلیتی طبقے کے طلبہ و نوجوانان اپنی منزلوں سے بھٹک جائیںاور صرف تعلیمی ہی نہیں بلکہ زندگی کی دھارا ہی سے کٹ جائیں۔ اِن حالات میں ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ (الف) وہ اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو پہچانیں۔ (ب) آپ کو ورغلاکر جو لوگ اپنا سیاسی کریئر بنانا چاہتے ہیں، اُن سے دُور رہیں۔(ج) جذباتی و جوشیلے ایشوز پر آپ کو دھرنا دینے، مورچے میں شامل ہونے یا سوشل میڈیا میں بیان بازی کیلئے اُکسانے والے افراد کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہ دیں۔ سائنس و دیگر جدید علوم کے حصول کے سفر میں پیش قدمی کرتے وقت ہماری قوم کے طلبہ کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہے۔ اس کیلئےکسی لیڈرشپ کا انتظار مت کیجئے۔ اپنے شعور اور سوجھ بوجھ کو استعمال کیجئے اور اُس سے مکمل صبر اور بھرپور حکمت سے کام لیجئے۔ اپنے حسنِ اخلاق سے آپ اس اندھیارے میں بھی اُجالوں کی جانب پیش قدمی کرسکتے ہیں۔
آئیے ہم سائنس کو سمجھیں:
(۱) خالقِ کائنات کے عطا کردہ فہم و ادراک ہی کی بناء پر انسان پر سائنس کے علم سے قدرت کے سارے راز عیاں ہوتے گئے۔
(۲) سائنس اِنسانی ذہن کی انتہائی جدّو جہد کا نتیجہ ہے۔
(۳) سائنسی تحقیقات قیمتی ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی سے بے حد قریب بھی ہیں۔
(۴) گزشتہ دو صدیوں میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ایک فیصلہ کُن قوت کی شکل میں اُبھر کر سامنے آئی ہے۔
(۵) محد سے لحد تک ہماری زندگی و کائنات کی ساری سرگرمیوں میں سائنسی علوم کا عمل دخل ہوچکا ہے لہٰذا جہاں کہیں ہمارے دین سے اُس کا ٹکرائو نہیں ہے وہاں ہمیں سائنس سے فوراً دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہئے۔ ہمیں یاد یہ رکھنا ہے کہ ڈاروِن کی تھیوری ہی کل سائنس نہیں ہے۔ ایک ڈاروِن پر لاحول پڑھنے کیلئے سائنس کی دوسری سیکڑوں بلکہ ہزاروں تھیوریز ’تھیورم‘ نظریوں اور ضابطوں سے ہم آنکھیں نہیں چرا سکتے۔
(۶)سائنسی ترقی کی جب جب بات ہوتی ہے، تب تب اسی سائنس کی پیداوار خطرناک و مہلک ہتھیار، میزائل اور ڈرون وغیرہ کی یاددلائی جاتی ہے کہ اِسی سائنس سے اب انسانی زندگی کے وجود ہی پر ایک سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ کسی ظلم کے اسکڈ میزائل سے دفاع کیلئے پیٹرائیٹ میزائل ایجاد کئے جائیں تاکہ سامراجی ممالک کسی بھی ملک یا قوم کو نوالہ تر نہ سمجھیں۔
(۷) ہمیں اس بات کو بھی یاد رکھنا ہے کہ جب ہم سائنس اور سائنسی علوم پر لعنت بھیج رہے تھے، اُسی دوران وہ ابتدائی جماعتوں سے لے کر ثانوی جماعتوں تک ایک لازمی مضمون بن گیاتھا۔ جب تعلیمی حلقوں میں اس مضمون پر مخالفت ہونے لگی تب سائنسی علوم کے مضمون کو ایک نیا نام ’ماحولیاتی مطالعہ‘ دیا گیا اور پری پرائمری اور پرائمری سطح پر بھی یہ مضمون پڑھایا جانے لگا۔
(۸) سائنس کے علوم میں بے حد وسعت ہے جیسے یہ انسان کے سارے حواس یعنی دیکھنا ، سننا، چکھنا، چھونااور سونگھنا کو متحرک اور واضح کرتی ہے۔ یہ علم سماجی سائنس بھی کہلایا۔
(۹) آج سائنس ترقی کرتے کرتے فزکس اور کیمسٹری سے آگے بڑھ گئی ہے۔ اِن نئی آفاق کے نام ہیں مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس۔ اب یہاں ایک بات ہم مزید واضح کرناچاہیں گے کہ مصنوعی ذہانت یعنی قدرت کو چیلنج کرنا اور نیا دماغ تخلیق کرنا نہیں ہے بلکہ جو طبعی دماغ ہے اُس کو پالش کرنا ہے، اس کے استطاعت اور ذخیرہ اندوزی کی صلاحیتوں کو سمجھنااور اُنھیں بڑھانا ہے۔یہاں ہم مصنوعی ذہانت پر مزید روشنی ڈالنا چاہیں گے کہ سائنس کی اس نئی شکل کو قبول کرنا ہوگا تب وہ کوئی چیلنج نہیںہے ورنہ اس سے جوہری توانائی جیسے خطرات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے ڈیجیٹل ہیرا پھیری، دھوکہ دہی اورغلط مبہم اور جھوٹی معلومات کی مہمّات کا خطرہ ہے البتہ وہ تعلیم و تحقیق میں بے مثال وسائل بھی فراہم کرسکتا ہے۔ نوجوانو! ہمیں اس ضمن میں یہ بھی سوچنا ہے کہ مصنوعی ذہانت یعنی مشینوں کے ذریعے فراہم کی جانے والی معلومات کا ذخیرہ ہے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ مشینوں کے بجائے انسان کا دماغ جو سارے سپر کمپیوٹرس پر بھاری ہے وہ بھی معلومات فراہم کرسکتا ہے اگر اُسے غیبت، حسد، جلن، انتقام اور سازشوں سے مہلت ملے۔
(۱۰) سائنس کے ضمن میں ہمارے اسکولوں اور مدرسوں میں کوتاہی یہ ہورہی ہے کہ ہم سوال پوچھنے والے طلبہ تو پیدا کرتے ہیں مگر جواب پر سوال پوچھنے والے طلبہ سائنس ہی کی مرہون منت ہیں۔
(۱۱) ہمارے محلّوں میں، گلیوں میں اور بستیوں میں رائج ’علوم‘ کی بناء پر نکتہ چینی کرنے والی نسلیں تیار کرلیتے ہیں جبکہ ہمیں تنقید کرنے والے اذہان پیدا کرنے ہیں کیوں کہ تنقید کسی بھی تہذیب اور ترقی پذیر معاشرے کا سرمایہ ہوتی ہے اور اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے ہمیں سائنسی ذہن تشکیل دینے ہی ہیں۔