مکیش امبانی کے بیٹے اننت امبانی کی مارچ سے جاری شادی کی مختلف تقاریب میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً ۲؍ ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔
EPAPER
Updated: July 15, 2024, 3:51 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
مکیش امبانی کے بیٹے اننت امبانی کی مارچ سے جاری شادی کی مختلف تقاریب میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً ۲؍ ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔
ہندوستان اور دنیا کے اہم صنعتکاروں میں شمار ہونے والے مکیش امبانی کے بیٹے اننت امبانی کو ان دنوں میڈیا کی ہیڈ لائن میں خوب جگہ مل رہی ہے۔ وہ گزشتہ چار پانچ مہینوں سےمیڈیا میں اہم موضوع رہے ہیں۔ ان کی یہ حیثیت نہ تو اسلئے ہے کہ ملک کی میڈیا کے ایک بڑے حصے پر اُن کے والد کا قبضہ ہے، نہ ہی اسلئے کہ انھوں نے بزنس میں کوئی ایسا بڑا تیر مار لیا ہے جس سے بشمول امبانی خاندان ملک کی معیشت کا گراف اوپر اٹھ سکتا ہو۔ ان کا چرچا میڈیا میں اسلئے ہو رہا ہے کہ ان کی پرشکوہ شادی کی تقریبات گزشتہ پانچ مہینوں سے جاری ہیں اور ان تقاریب میں دنیا کی ان شخصیات نے شرکت کی جو اپنے اپنے شعبے میں ممتاز تسلیم کی جاتی ہیں۔ میڈیا نے ان تقاریب اور ان میں شرکت کرنے والی شخصیات کے لباس و طعام اورقیام و خرام کی تفصیلات جس انداز میں پیش کیں اس سے اندازہ ہو گیا کہ میڈیا کا یہ طبقہ جزئیات کی پیشکش میں کس قدر مہارت رکھتا ہے۔ میڈیا کی اس مہارت کے سلسلے میں بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قومی اور عوامی مسائل کی پیشکش میں اس کی یہ مہارت کیوں کر نظر نہیں آتی؟ ہندوستانی میڈیا کے بارے میں یہ سوال راہل گاندھی اور دیگر کئی لیڈروں نے بھی اٹھایا ہے۔
دھیرو بھائی امبانی کے بزنس امپائر کو ترقی کی نئی منزلوں سے ہمکنار کرنے والے مکیش امبانی اگر اپنے بیٹے اننت امبانی کی شادی پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کریں تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ انھیں یہ حق حاصل ہے کہ اس تقریب کو جس قدر چاہیں پر شکوہ بنائیں۔ ایک اندازے کے مطابق مار چ سے جاری شادی کی مختلف تقاریب میں تقریباً ۲؍ ہزار کروڑ روپے خر چ ہوئے ہیں ۔ یہ رقم ایک عام آدمی کو تو حیرت میں ڈال سکتی ہے لیکن امبانی گھرانے کیلئے اتنی رقم خرچ کر دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ مکیش امبانی جس بیٹے کی شادی پر دولت خرچ کرنے میں ایسی فراخ دلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، میڈیا کے مطابق اس بیٹے کو ان کی زندگی میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ویسے بھی شادی بیاہ جیسے موقعوں پراکثر والدین اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کر دیتے ہیں لہٰذا یہ کہنا بھی مناسب نہیں کہ مکیش امبانی بیٹے کی شادی میں جس شاہ خرچی کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ دراصل فراوانی دولت کی بھونڈی نمائش ہے۔
مکیش امبانی کے بیٹے کی شادی کے چرچے جس طور سے میڈیا میں ہورہے ہیں اور عوام کا ایک طبقہ اس پر جس طرح کا رد عمل ظاہر کر رہا ہے وہ بھی دراصل اس شادی کو یادگار بنانے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔ ان سب کے درمیان اس شادی سےمتعلق بعض ایسے حقائق بھی سامنے آئے جن کی بنا پر شادی کی ان پرشکوہ تقریبات کو سسٹم اور عوام کا مذاق اڑانے والا جشن کہنا کچھ بیجا بھی نہیں۔ اس شادی کے سلسلے میں مارچ میں جو تقریب جام نگر میں ہوئی تھی اس کے خلاف ایک پٹیشن دہلی ہائی کورٹ میں داخل کی گئی تھی۔ کورٹ نے اس پٹیشن کو خارج کر دیا تھا اور کہا تھا کہ کسی امکانی خدشہ کی بنا پر شادی کی تقریب پر روک نہیں لگائی جا سکتی۔ پٹیشن داخل کرنے والوں کا کہنا تھا کہ تقریب جام نگر میں واقع ’ریلائنس گرین‘نامی علاقے میں ہوگی جہاں امبانی گھرانے نے ایک چڑیاگھر بھی بنا رکھا ہے، اسلئے ممکن ہے کہ تقریب کے دوران چڑیاگھر کے جانوروں کو تکلیف پہنچے یا ان کا استعمال تفریح طبع کیلئے کیا جائے۔ مارچ کی اس تقریب کے دوران اہم ٹی وی چینلوں پر اننت امبانی کی جانوروں سے مثالی محبت کو ظاہر کرنے والا جو طویل انٹرویو نشر کیا گیا اس نے بھی پٹیشن داخل کرنے والوں کو غلط ثابت کر دیا۔
یہ بھی پڑھئے: حزب اختلاف کی تحقیر، دراصل جمہوریت کی تضحیک ہے
۱۲؍ سے ۱۵؍ جولائی تک ممبئی کے بی کے سی علاقے میں شادی کی تقریب کو اس بار اعتراض کے دائرے میں لانے والا ممبئی ٹریفک پولیس کا وہ نوٹیفکیشن ہے جس میں اس شادی کو ’عوامی و سماجی تقریب‘قرار دیا گیا ہے۔ اپنے طرز کی یہ بالکل منفرد عوامی اور سماجی تقریب ہے جہاں تک نہ تو عوام کی رسائی ہے اور نہ ہی سماج کی ایسی وابستگی جو ممبئی کی ٹریفک پولیس کی منطق کو جائز ثابت کر سکے۔ اس موقع پر اگر کوئی یہ دلیل دے کہ امبانی گھرانے نے پچاس جوڑوں کی اجتماعی شادی کی جو تقریب اپنے بیٹے کی شادی کے دوران منعقد کی ہے، کیا اسے سماجی تقریب نہیں کہیں گے؟یہ دلیل اپنے آپ میں ہی اس قدر کمزور اور لچر ہے کہ اس کا کوئی جواز نہیں بنتا پھر بھی اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اجتماعی شادی کی تقریب محض کچھ گھنٹوں کی تھی اور اس میں بھی سماج کے ہر طبقہ کی نمائندگی نہیں تھی۔ اگر ممبئی شہر کی سمت و رفتار کو اپنے فرامین سے متعین کرنے والے ارباب اختیار بھی اس کو دلیل کے طور پر پیش کریں تو ان سے بھی یہ سوال ہونا چاہئے کہ کسی ایک چھوٹی ضمنی تقریب کو بنیاد بنا کر شادی کے پانچ دنوں کی تقاریب کو سماجی و عوامی تقریب کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟
امبانی کی شادی کے سلسلے میں ٹریفک پولیس کے جاری کردہ فرمان پر غور کرتے وقت یہ بھی مدنظر رہے کہ ان دنوں میں برسات کبھی بھی شدت اختیار کر سکتی ہے۔ ویسے بھی برسات کے دنوں میں ممبئی کی عوامی و سماجی زندگی کا احوال شہری انتظامیہ اور ارباب اقتدار کے ان دعووں کی قلعی اتار دیتا ہے جو ہر سال برسات سے قبل کئے جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں ٹریفک پولیس کے ارباب حل و عقد نے پانچ دنوں کیلئے عوام کو متبادل روٹ اختیار کرنے کا جو حکم نامہ جاری کیا ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کو عوامی مسائل سے کس حد تک وابستگی ہے؟
امبانی یا ان جیسے دوسرے صنعتکاروں اور تاجروں کے ذریعہ سسٹم کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق استعمال کرنے کی یہ روش صریح طور پر آئین کے خلاف ہے۔ آزادی کے بعد اس ملک میں جو آئین اختیار کیا گیا وہ سماج میں ایسی کسی بھی تفریق کا قائل نہیں ہے جو کسی فرد یا طبقہ کو مایوسی یا احساس محرومی سے دوچار کرے۔ اپنے عیش و عشرت کی خاطر دولت کی نمائش اس طور سے کرنا جس سے عوام کی روزمرہ زندگی کو مسائل سے گزرنا پڑے، جمہوری طرز حیات کے عین خلاف ہے۔ امبانی کی شادی کے سلسلے میں کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ انھوں نے ریہانہ اور جسٹن بیبر کو ناچنے گانے کیلئے بلایا، یا بالی ووڈ اور زندگی کے دیگر شعبوں میں عالمی سطح پر خاص شخصیات کو مدعو کیا لیکن ارباب اقتدار کسی فرد کی نجی تقریب کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے اگر عوام اور سماج کا سہارا لیں اور اس بیجا جواز کی بنیاد پر ایسا فرمان جاری کریں جو عوام کے معمولات حیات پر اثر انداز ہو سکتا ہو، تو اس پر بہرحال سوال کیا جا سکتا ہے۔ اس سوال کی بنیاد یہ ہے کہ ہندوستان سرمایہ دارانہ نظام کا حامل ملک نہیں ہے بلکہ یہاں جمہوریت ہے اور یہ وہ طرز حیات ہے جس میں عوام کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔
راہل گاندھی اور دیگر کئی اپوزیشن لیڈروں نے اس پرشکوہ شادی کے حوالے سے امبانی پر یہ کہہ کر تنقید کی کہ جس ملک میں عوامی مسائل رو ز بہ روز پیچیدہ صورت اختیار کرتے جا رہے ہوں جو ملک عالمی سطح پر ہنگر انڈیکس میں مسلسل گراوٹ کا شکار ہو، جہاں مہنگائی عوام کی کمر توڑ رہی ہو اور جس ملک کا نوجوان طبقہ بڑی تعداد میں بے روزگاری کے سبب محرومی اور مایوسی کا شکار ہو، اس ملک میں کسی دولت مند کے ذریعہ دولت کی ایسی نمائش مناسب نہیں۔ امبانی کی شادی کے متعلق ایسے رد عمل پر امبانی سے زیادہ اقتدار پرست میڈیا نے اپنا زور ابلاغ صرف کر کے یہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی کہ اس طرح کے اعتراضات کی حیثیت محض ’کھسیانی بلی‘ سے زیادہ کچھ نہیں لیکن ممبئی پولیس کے حالیہ فرمان نے نہ صرف راہل اور ان جیسے دوسرے لیڈروں کے اعتراضات کو جائز ٹھہرایا بلکہ اس سوال کا جواز بھی فراہم کرد یا کہ ’جیو‘ کے ذریعہ عوام کے ایک طبقہ کو ڈیٹا کی لت لگا دینے والے مکیش امبانی جیو کے ہر پلان کی قیمت میں اضافہ کر کے اپنے بیٹے کی شادی پر ہونے والے اخراجات کی وصولی ان کی جیب سے تو نہیں کر رہے؟امکان تو یہ بھی ہے کہ بیچارے وہ ’ڈیٹا خور‘ رعوام جو وزیر اعظم کے ذریعہ ڈیٹا اور آٹا میں یکسانیت قائم کرنے پر تالیاں بجاتے ہیں، امبانی کے اس اقدام پرایسی دلیلیں پیش کر سکتے ہیں جنھیں سن کر ممبئی پولیس بھی حیرت زدہ رہ جائے۔