وہ بھلے ہی دعویٰ کریں کہ وہ اپنی پارٹی کے ان لیڈروں کو پہچان چکے ہیں جن کی آر ایس ایس سے فکری ہم آہنگی ہے، لیکن ایسا لگتا نہیں ہے۔ ان کی پارٹی میں آج بھی کئی ایسے لیڈر ہیں جو سیکولر افکار و اقدار سے زیادہ دائیں بازو کے سیاسی افکار کو عزیز رکھتے ہیں اورجس کا رہ رہ کر وہ اظہار بھی کرتے ہیں۔
راہل گاندھی آج بھی نظریات کے محاذ پر پوری تندہی کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن پارٹی سطح پر اس معاملے میں انھیں جو حوصلہ اور حمایت ملنی چاہئے اس میں کمی نظر آتی ہے۔ تصویر : آئی این این
ہریانہ کے غیر متوقع انتخابی نتائج کے بعدیہ موضوع زیر بحث ہے کہ جس الیکشن میں کامیابی کیلئے نہ صرف کانگریس مطمئن تھی بلکہ بی جے پی اور میڈیا کوریج سے بھی یہی تاثر قائم ہورہا تھا کہ قومی راجدھانی سے متصل اس ریاست میں کانگریس کی حکومت بننا طے ہے، اس کے نتایج اس قدر غیر متوقع کیوں رہے ؟ سیاسی تجزیہ کار اور مبصرین اپنے اپنے طور پر اس کا جائزہ لے رہے ہیں اور جو میڈیا انتخابی نتائج سے قبل بی جے پی اور مودی کی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگا رہا تھا، اس نے دوبارہ بھگوا پارٹی اور وزیر اعظم کی قصیدہ خوانی شروع کر دی ہے۔ اقتدار کی سرپرستی سے پھل پھول رہے میڈیا اداروں نے تو یہ بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں بھی بی جے پی ایسی ہی شاندار کامیابی حاصل کرے گی۔ ان سب کے درمیان اس الیکشن کے حوالے سے اس پہلو پر بھی غور ہو رہا ہے کہ ہریانہ کی انتخابی ریلیوں میں کانگریس کو جو عوامی حمایت ملتی نظر آرہی تھی وہ پولنگ بوتھ پر ووٹ میں کیوں نہیں تبدیل ہو سکی؟اس کے علاوہ ریاستی سطح پر کانگریس کے اس داخلی انتشار کو بھی اس ہار کا ذمہ دار بتایا جا رہا ہے جس کا فائدہ بی جے پی کو ملا۔
پارلیمانی الیکشن میں قدرے اطمینان بخش کارکردگی کے بعد پارٹی میں راہل کا قد اونچا ہوا ہے اور سینئر لیڈر بھی ان کے افکار و حکمت عملی کی تائید کرتے نظر آرہے ہیں۔ راہل کی اس سیاسی قد آوری نے انھیں مزید حوصلہ عطا کیا کہ وہ فرقہ ورانہ اور دھرم آمیز سیاست پر کھل کر تنقید کر سکیں لیکن ان کی پارٹی میں اب بھی بعض ایسے عناصر ہیں جو اُن کی اس طرز سیاست سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کرتے لیکن وقت اور حالات کی مصلحت کے سبب کھل کر کچھ کہنے سے گریز بھی کرتے ہیں۔ پارٹی جب انتخابی سیاست کے میدان میں زور آزمائش کرتی ہے تو انہی عناصر کے سبب پارٹی کا پلڑا کمزور ہوتا ہے اور حریف کو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ ان عناصر کو دو زمروں میں رکھا جا سکتا ہے۔ ان میں ایک قسم ایسے کانگریسی لیڈروں کی ہے جو ریاستی سطح پر پارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس سطح پر سارے فیصلے ان کی مرضی کے مطابق ہوں۔ بعض اوقات ان لیڈروں کا یہ رویہ پارٹی کو ایسے مسائل سے دورچار کرتا ہے جو الیکشن میں ہار کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ہریانہ میں ہڈا اور شیلجا کے درمیان سیاسی برتری کی جنگ نے انتخابات کو منفی طور پر متاثر کیا۔
یہ بھی پڑھئے:امن کا درس دینے والا امریکہ بدامنی کے حصار میں قید
کانگریس لیڈروں کی وہ دوسری قسم جو تنظیمی سطح پر پارٹی میں نئے مسائل پیدا کرتی رہتی ہے، وہ نہ صرف راہل کے بڑھتے قدسے خائف ہے بلکہ راہل جس طرح کھلے بندوں آر ایس ایس اور بی جے پی کی فرقہ ورانہ سیاست کو ہدف بناتے ہیں، وہ بھی انھیں پسند نہیں ہے۔ راہل بھلے ہی یہ دعویٰ کریں کہ وہ پارٹی میں شامل ان لیڈروں کو پہچان چکے ہیں جو آر ایس ایس سے فکری ہم آہنگی رکھتے ہیں، لیکن اس معاملے میں وہ مردم شناسی کے اس مرتبے پر ابھی نہیں پہنچے ہیں جو اُن کے اس دعوے کی توثیق کر سکے۔ اب بھی پارٹی میں کئی ایسے لیڈر ہیں جو سیکولر افکار و اقدار سے زیادہ دائیں بازو کے سیاسی افکار کو عزیز رکھتے ہیں۔ ان لیڈروں کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنا اصل رنگ ظاہر کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ اس ضمن میں آسام کے موجودہ وزیر اعلیٰ کی صرف ایک مثال ہی کافی ہے۔ کانگریس سے اپنا رابطہ ختم کرنے اور بی جے پی میں شمولیت کے بعد وہ کس طرح مسلمانوں کے خلاف ہر سطح پر محاذ کھولے ہوئے ہیں اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ اگر وہ کانگریس کے سیکولر نظریات کی ذرہ برابر بھی حمایت کرتے تو حکمرانی کی غرض سے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد بھی فرقہ واریت کا ایسا مظاہرہ نہیں کرتےجو آئین اور قانون کی صریح خلاف ورزی کے مترادف ہوتا ہے۔
ہیمنت بسوا شرما جیسے کئی لیڈر اب بھی کانگریس میں موجود ہیں جن کا باطن انہی افکار کی حمایت کرتا ہے جس کی تبلیغ اور ترویج میں شدت پسند ہندوتوا کے پیروکار سرگرم ہیں ۔ ان لیڈروں کو جب بھی موقع ملتا ہے اور بھگوا پارٹی کی طرف سے اونچے عہدے کا بھروسہ دلایا جاتا ہے، یہ فوراً پارٹی چھوڑ کر زعفرانی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو اس حد تک اپنی شخصیت تبدیل کر لیتے ہیں کہ انھیں دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کل تک یہی شخص کانگریس کی سیکولر سیاست میں یقین رکھتا تھا۔ مرکز یا ملک کی ریاستوں میں بی جے پی کو جو سیاسی عروج حاصل ہوا اس میں اس قبیل کے نام نہاد کانگریسی لیڈروں کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ لیڈر اگر پارٹی سطح پر نمایاں مقام حاصل کر لیتے ہیں تو یہ پارٹی میں اپنے اعزا و اقربا کو بھی کھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر اس میں انھیں کامیابی بھی مل جاتی ہے۔ اس کے بعد جب فعال سیاست کاان کا دورختم ہونے والا ہوتا ہے تو سیاسی وراثت اپنی اولاد کو سونپ کر یہ اپنا وہ رنگ ظاہر کرتے ہیں جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
مہاراشٹر میں کانگریس کے قدآور لیڈر کے طورپر اپنی شناخت رکھنے والے سشیل کمار شندے بھی انہیں لیڈروں کی صف میں ہیں جو بطور کانگریسی عہدہ اور مرتبہ حاصل کرتے ہیں لیکن سیکولر افکار کی اہمیت و افادیت پر کامل یقین نہیں رکھتے۔ جلد ہی ان کی خود نوشت بعنوان ’سیاست میں پانچ دہائی‘شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے جس طرح ساورکر کی حمایت کی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ساورکر سے متعلق کانگریس کے موقف سے اتفاق نہیں رکھتے۔ شندے نے راہل کے حوالے سے یہ کہا بھی کہ وہ کیوں ساورکر کو ان کی ہندوتوا آئیڈیالوجی کے تناظر میں ہی دیکھتے ہیں ، وہ ساورکر کو ایک فلسفی اور سائنسداں کے طور پر کیوں نہیں دیکھتے؟ اس وقت ملک میں فرقہ ورانہ سیاست کا رجحان جس سطح پر ہے اور اس رجحان کو فروغ دینے کیلئے سیاسی عناصر جس طرح ساورکر کے افکار کی تشہیر کر رہے ہیں ، اس تناظر میں کیا شندے کا یہ درس راہل کی ان کوششوں کو زائل نہیں کرے گا جس میں وہ کانگریس اور آرا یس ایس کے درمیان نظریاتی جنگ کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں ؟
کانگریس میں شندے جیسے کئی دوسرے لیڈر ہیں جو تنظیمی سطح پر اپنا رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں راہل گاندھی، سنگھ پریوار سے جس نظریاتی لڑائی کی بات کرتے ہیں اس کی کیا معنویت رہ جاتی ہے؟گزشتہ ایک دہائی میں سیاست کا پپو ثابت کرنے کی بھگوا مہم کا مقابلہ راہل نے جس عزم کے ساتھ کیا وہ ان کے کردار اور افکار کے ثبات کا مظہر ہے۔ راہل آج بھی اس محاذ پر پوری تندہی کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن پارٹی سطح پر اس معاملے میں انھیں جو حوصلہ اور حمایت ملنی چاہئے اس میں کمی نظر آتی ہے۔ کچھ گنے چنے لیڈر ہی ہیں جو اس محاذ پر اخلاص و دیانت داری کے ساتھ راہل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ پارٹی سطح پر یہ نظریاتی انتشار عوامی سطح پر بھلے ہی نظر نہ آتا ہو لیکن اس کا اثر انتخابی سیاست پر بہر حال ظاہر ہوتا ہے۔ اس انتشار سے کانگریس تین چار دہائیوں سے جوجھ رہی ہے اور جب اس انتشار میں شدت پیدا ہوجاتی ہے تو یہ لیڈر پالا بدلنے میں دیر نہیں کرتے۔ اس وقت بی جے پی میں ایسے لیڈروں کی خاصی تعداد ہے جو کانگریس سے ناطہ توڑ کر وہاں پہنچی ہے۔
اس وقت ملک میں اگر کوئی سیاسی پارٹی نظریاتی سطح پر مستحکم نظر آتی ہے تو وہ بی جے پی ہے۔ اس استحکام کو دوام عطا کرنے کیلئے پارٹی کا ہر لیڈر آمادہ نظر آتا ہے یہی سبب ہے کہ جب الیکشن میں کسی قد آور لیڈر کو ٹکٹ نہیں ملتا تو وہ اپنی ناراضگی تو ظاہر کرتا ہے لیکن نظریاتی وابستگی سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرتا۔ کانگریس کا معاملہ اس سے برعکس ہے۔ ہریانہ کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے کئی ایسے لیڈروں نے بغاوت کا بگل بجایا جنھیں ٹکٹ نہیں ملا۔ ان لیڈروں میں سے کچھ تو بھگوا خیمے میں چلے گئے اور بعض نے آزاد امیدوار کے طور کانگریس کے ووٹ کاٹے جس کا فائدہ بی جے پی کو حاصل ہوا۔ ہر یانہ میں سیکولر پارٹیوں کا باہمی اتحاد والا فارمولا بھی ناکام ثابت ہوا اور اب اترپردیش کے ضمنی انتخابات میں ممکنہ طور پر جو صورت بنے گی وہ بھی بی جے پی کیلئے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ بی جے پی اب مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں بھی اسی کامیابی کو دہرانے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ ان ریاستوں میں سیکولر محاذ جس طرح اختلاف و انتشار سے دوچار ہے، اس سے بی جے پی کا یہ دعویٰ اگر سچ ہو جائے تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔