Inquilab Logo Happiest Places to Work

رام راج کے حقیقی تقاضے اور زعفرانی عناصر کے دعوے

Updated: February 04, 2024, 4:09 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

انتخابات میں رام کا حوالہ دینے والی پارٹی اقتدار کے لالچ میں ان تمام اصولوں کو درکنار کردیتی ہے جن کے بغیر ایک صحتمند سیاسی ماحول نہیں بن سکتا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ان دنوں ملک میں چاروں طرف رام راج کا چرچا ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ۲۲؍ جنوری سے ملک میں رام راج کا قیام عمل میں آچکا ہے اور کچھ یہ مانتے ہیں کہ آئندہ پارلیمانی الیکشن کے بعد بی جے پی کی حکومت سے ملک گیر سطح پر رام راج کے قیام کا تصور عملی شکل اختیار کر لے گا۔ ملک میں دھرم آمیز سیاست کی سمت و رفتار کے تناظر میں رام راج کی حمایت کرنے والوں کے علاوہ عوام کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو رام راج کے قیام کو اس وسیع تناظر میں دیکھتا ہے جو اعلیٰ و ارفع انسانی قدروں کو عام کرنے سے عبارت ہے ۔ عوام کا جو یہ تیسرا طبقہ ہے دراصل یہی صحیح معنوں میں رام راج کے اس مفہوم سے واقفیت رکھتا ہے جس میں سیاسی سرگرمیوں اور سماجی امور کا دارومدار صالح اقدار حیات پر ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اعداد و شمار کی سطح پر یہ طبقہ پہلے دو کے مقابلے اقلیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ فی الوقت تو انہی دو طبقات کی باتیں بیشتر ملک کی فضاؤں میں گردش کر رہی ہیں جن کا رام راج کا تصور صرف مذہبی افکار پر مبنی ہے۔ یہ لوگ رام راج کے قیام کا سہرا بی جے پی اور مودی جی کے سرباندھتے ہیں۔ حالانکہ اگر تاریخی حقائق پر نظر ڈالی جائے تو قومی سیاست میں رام راج کا تصور سب سے پہلے مہاتما گاندھی نے دیا تھا۔ ان کی آزادی کی جد و جہد اور مابعد آزادی قومی حکومت کے قیام میں رام راج کے اس تصور کو نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس ضمن میں بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ملکی سیاست میں دھرم کی آمیزش کی جو حکمت عملی گاندھی جی نے اختیار کی تھی، دایاں محاذ نے اپنے موقف کی حمایت میں اس حکمت عملی کو سیاسی فرقہ واریت کے رنگ میں ڈھال دیا۔ مورخین اور سیاسی مبصرین کا یہ تجزیہ مکمل طور پر مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن گاندھی جی کی حکمت عملی اور دائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں کی حکمت عملی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ دایاں محاذ اپنے پسندیدہ مذہبی اور سیاسی نظریہ کو حتمی صداقت قرار دیتا ہے جبکہ گاندھی جی کے نظریات میں شدت پسندی کا یہ انداز نظر نہیں آتا۔ 
بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گاندھی جی کے رام راج کے تصور کو ہتھیارکر اس پر شدت پسند ہندوتوا کا رنگ چڑھا دینے والی بھگوا پارٹی جس زور و شور سے رام راج کے قیام کی حمایت اور وکالت کرتی ہے اس کا فطری تقاضا یہ ہے کہ اس کے طرز عمل کو رام جی کے آدرشوں کے تناظر میں دیکھا جائے۔ اگر اس مرحلے پر یہ بھگوا گروہ اور اس کے سیاسی موقف سے اتفاق کرنے والی دیگر سیاسی اور سماجی تنظیمیں اپنے کردار و عمل میں رام جی کی تاسی کو ثابت کر سکیں تو بجا طور پر انھیں رام راج کا حامی کہا جا سکتا ہے لیکن اگر اس مرحلے پر وہ پوری طرح کامیاب نظر نہ آئیں تو بہ آسانی یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ شور و غوغا محض چھلاوا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: دیہی علاقوں میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات درکار

’رام جی‘ کی عظمت کا صرف یہی ایک حوالہ نہیں ہے کہ انھوں نے راون کو شکست دی تھی ۔ محاذ جنگ پر انتہائی ’بل شالی‘ اور فہم و فراست میں اپنے ہمسر حریف کو شکست دینے کے علاوہ انہوں نے اپنی زندگی میں جن انسانی قدروں کو حرز جاں بنائے رکھا انھیں یکسر نظر انداز کر کے صرف ان کی بہادری کو ہی پیش نظر رکھنا مناسب نہیں ہوگا۔ لیکن شدت پسند ہندوتوا کے حامی عناصر صرف اسی ایک پہلو پر ہی زور دیتے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بھگوا گروہ نے بڑی چالاکی سے شجاعت میں تشددکا عنصر شامل کر دیا ہے۔ جبکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ انسانی وجود کے طبعی اوصاف میں شجاعت اور تشدد ایک دوسرے سے بالکل علاحدہ ہیں۔ ملک و معاشرہ کی فضا کو سازگار بنائے رکھنے کیلئے اس علاحدگی کو برقرار رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ رام راج کے حامیوں نے جس طرح سے ہردو کو خلط ملط کر دیا ہے وہ تو ایک بڑا مسئلہ ہے ہی، اس سے بھی بڑا مسئلہ ان کی شخصیت کے دیگر روشن پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کرنے کا بھی ہے۔ 
ان کی کتاب حیات کے اگر صرف انہی ابواب کو پیش نظر رکھا جائے جن سے کم و بیش ہر کوئی واقف ہے تو ان سے ہی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ ان کی شخصیت سے یہ درس حیات سیاسی اور سماجی ہر دو طرح کی زندگی کیلئے لیا جا سکتا ہے۔ بھگوا گروہ کو رام جی کے ایثار اور قربانی کے اس جذبہ کو بھی نمونہ ٔ عمل بنانا چاہئے جس جذبے نے حکومت کو ٹھوکر مار دینے کا حوصلہ انھیں عطا کیا تھا لیکن یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ ہر سطح کے انتخابات میں رام کا حوالہ دینے والی سیاسی پارٹی اقتدار کی لالچ میں ان تمام اصولوں کو بھی درکنار کردیتی ہے جن کی پیروی کے بغیر ایک صحتمند سیاسی ماحول کو تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران مختلف ریاستوں میں حکومت سازی کیلئے اس پارٹی نے جو ہتھکنڈے اپنائے وہ صریح طور پراُن کے ان اصولوں سے میل نہیں کھاتے جن کی بنا پر انھیں انتہائی اہم مقام حاصل ہوا۔ 
اب پارلیمانی الیکشن سے محض چند ماہ قبل ان کی نام لیوا پارٹی نے بہار اور جھارکھنڈ میں جو سیاسی ڈراما رچا وہ واضح طور پر جمہوریت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ بہار میں نویں مرتبہ وزیر اعلیٰ کا حلف لینے والے نتیش کمار اور موجودہ حکومت میں ان کی حلیف بی جے پی کے لیڈروں نے حکومت سازی کے بعد رام راج کے قیام کا جو بلند بانگ دعویٰ کیا وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک رام راج سے مراد صرف اپنی اقتدار کی ہوس کو پورا کرنا ہے۔ ایک طرف رام کا کردار ہے جو اعلیٰ آدرشوں کے تحفظ کی خاطر حکومت کو ٹھوکر مار کر بن باس قبول کر لیتا ہے اور دوسری طرف انہیں کی تاسی کرنے کا دم بھرنے والے یہ سیاسی عیار ہیں جواپنے مفادکی خاطر ہر طرح کے اصول اور اقدار کو پامال کرنے میں نہیں ہچکتے۔ 
 رام جی کی سیاسی زندگی میں انصاف کو یقینی بنائے رکھنے کا جو عزم نظر آتا ہے وہ بھی ان کے ان نام نہاد پیروکاروں میں نہیں دکھائی دیتا۔ ان کے نزدیک انصاف کے تقدس کو برقرار رکھنے کا جذبہ اس قدر قوی تھا کہ انھوں نے اس مرحلے پر اپنی شریک حیات کے ساتھ بھی کسی طرح کی جانب داری کو روا نہیں رکھا۔ اور یہ وہی شریک حیات تھی جس نے ان کے ساتھ چودہ برس کے بن باس کی اذیتیں برداشت کی تھیں ۔ اس تناظر میں دیکھیں تو ان کے نام نہاد حامیوں نے جس طرح بلڈوزر کی یکطرفہ کارروائی کو انصاف کے متبادل کے طور پر اختیار کر لیا ہے وہ واضح طور پر رام جی کی انصاف پسندی کو منہ چڑھانے کے مترادف ہے۔ اس گروہ نے عموماً یہ روش اختیار کر رکھی ہے کہ کسی بھی تنازع میں کارروائی کی زد پر وہی آتے ہیں جو غیر ہندو ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر معاملہ ہندو، مسلمان کا ہے تو ہدف صرف مسلمانوں ہی کو بنایا جاتا ہے خواہ حقیقی طور پروہ بے قصور ہی کیوں نہ ہوں ۔ انصاف کے اس جارحانہ تصور کو سماج میں عام کرنے والے لوگ دھڑلے سے رام جی کے حامی ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ۔ یہ متضاد رویہ موجودہ ہندوستانی سماج کیلئے ایک پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے اور جب تک یہ تضاد ختم نہیں ہوگا تب تک رام راج کے قیام کا دعویٰ صرف زبانی ہوگا۔ 
بلاشبہ رام کی مذہبی شخصیت لائق صداحترام ہے لیکن اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی شخصیت کے سیاسی اور سماجی پہلوؤں کو بھی اس طور سے نمایاں کیا جائے کہ ان کی تاسی کرنے والوں کو حقیقی معنوں میں ان کا پیروکارکہا جا سکے۔ اس طرز کی کوشش کو اسی وقت بروئے کار لایا جا سکتا ہے جب سماجی سطح پر عوام اپنے اذہان کو اس سیاسی جبر سے آزاد رکھیں جس جبر نے صحیح و غلط کی تفریق کو بہت حد تک منہا کر دیا ہے۔ عوام کو سیاسی بازی گروں کی چالوں کو سمجھنا چاہئے اور ساتھ ہی یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اس ملک کی انفرادیت کا سب سے بڑا حوالہ اس کا وہ مذہبی تنوع ہے جو مختلف عقائد کے پیروکاروں کو ایک سماج کے طور پر رہنے کی سازگار فضا فراہم کرتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت ان عناصر کی تعداد روز افزوں ہے جو اس سازگار فضا کو اپنے خام اور ناقص مذہبی تصورات کے ذریعہ آلودہ بنانے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ عوام کو ان عناصر سے ہوشیار رہنے اور مذہب کی انسانیت نواز تعلیمات کا درک حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر اس مرحلے پرمزید غفلت برتی گئی توایک ترقی یافتہ اور خوشحال سماج کی تشکیل کا خواب پورا نہیں ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK