• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دینی مدارس ہمارے لئے بیش قیمت اثاثہ ہیں

Updated: February 15, 2025, 7:16 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumabi

دینی تعلیمی مدارس کے فارغین کو عصری تعلیم سے جوڑنا ناممکن تو ہرگز نہیں، مشکل بھی نہیں، صرف محنت طلب کام ہے۔ ہر نیک اور فلاحی منصوبے کیلئے نیک نیتی اور اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اس سلسلے میں پیش رفت کریں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

آج ہم جائزہ لیں گے کہ ہمارے  دینی مدارس جو ہمارا بہترین اثاثہ تھے اور وہاں کے فارغین نے بے شمار کارنامے انجام دئیے البتہ آج اُسی قیمتی مدارس کے نظام کی کیفیت اور اُس کے تئیں ہمارے سماج کا رویہ کیا ہے؟ 
 کوئی بھی بچّہ اپنی مرضی سے کسی اسکول یا مدرسہ میںداخلہ نہیںلیتا، والدین ہی اُسے اُنگلی پکڑ کر وہاں لے جاتے ہیں لہٰذا دینی تعلیم یا عصری تعلیم کاانتخاب والدین ہی کرتے ہیں۔ اُن کے چوائس کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔ یقیناً اوّل تو یہ ہے کہ کچھ والدین چاہتے ہیںکہ اُن کے بچّے عالم، فاضل یا حافظ بن جائیں اور دینی تعلیم سے بہرہ ور ہوجائیں البتہ یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ کچھ کو یہاںداخلہ اسلئے دلایا جاتا ہے کہ تین وقت کا کھانااور کپڑا لتہ ملے، اسکول کی طرح ہزاروں کی فیس نہ ادا کرنی پڑے ، ٹیوشن دلانا نہ پڑے، کتابیں، بیاض، بستہ، چپل اور چھتری سب کچھ بلا قیمت مل جائے۔ خیر آج ہمارے ہزاروں دینی مدارس میں لاکھوں طلبہ و طالبات دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔اب ہمیں اِن مدارس کے ضمن میں نئے سِرے سے سوچنا ہے کہ مدارس سے فارغ ہونے کے بعد روزی روٹی سے جڑنے کیلئے ان کے اہداف کیا ہوتے ہیں؟ امامت کریں، موذّن یا خادم بن جائیں گے، دینی مدارس ہی سے دینیات کے اُستاد بن جائیں گے یا  تراویح پڑھائیں گے۔ یقیناً یہ سارے انتہائی نیک اور باعثِ ثواب کام ہیں اور اسی سے ہماری مساجد آباد بھی ہیں مگر ہم سبھی جانتے ہیں اور اس  حقیقت کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں کہ ہمارے محلوں میں سنگِ مرمر کی بنی ہوئی دو تین کروڑ روپے کی مساجد بھی تعمیر ہورہی ہیں ، البتہ اس مسجد کے امام کی تنخواہ ماہانہ پانچ ہزار اور موذّن اور خادم کی تنخواہ ڈھائی ہزار روپے ہوتی ہے۔ اسی طرح  تراویح پڑھانے کیلئے مقرر کئے جانے والے حفّاظ کرام کو ۲۷؍ویںشب میں کچھ نذرانے دیئے جاتے ہیں۔
 اگر ہم  اپنی سنگ مر مر کی مساجد کواپنا جا وجلال سمجھ رہے ہیں  اور ائمہ کرام اور خادمین مساجد کوخاطر میں نہیں لارہے ہیں توہم اپنی قوم کے مستقبل کا بخوبی تصوّر کرسکتے ہیں۔ آج ہمارے یہاں ان ائمہ کرام کے روزگار، اُن کے علاج ، اُن کے بچّوں کی تعلیم کیلئے کوئی سبیل نہیں ہے۔ کوئی فنڈ نہیں ہے، اسپتالوں میں اُن کیلئے کوئی بیڈ محفوظ نہیں ہے۔ یہ حضرات گائوں میں اپنے آبائی گھر وں میں رہتے ہیں اور شہروں میں یا تو کرائے کے یا مسجد کے زینے کے نیچےان کیلئے ایک کمرہ بنادیا جاتا ہے۔ آخر یہ ہمیں اور ہمارے ضمیر کو کیسے گوارا ہوتا ہے کہ جن ائمہ کی اقتدا میں ہم نماز ادا کرتے ہیں، جس موذّن کی آواز پر ہم مسجد کی جانب لپکتے ہیں اور جب کوئی خادم مسجد کی صفائی کرتا ہے ، تب وہاں سجدہ کرنے میں ہمیں فرحت ملتی ہے۔ وہ سارے قیمتی افراد اس درجہ کسمپری اور بے بسی کی زندگی گزاریں۔

یہ بھی پڑھئے: آزادی کے بعد بتایا کہ دینی مدارس مین اسٹریم سے کٹے ہیں اور ہم نے اُس پر یقین

اگر ہم اس ضمن میں ایک خوشگوار تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے دینی مدارس کے فارغین کو زندگی کی دھارا سے جوڑنے کی سبیلیں تلاش کرنی ہوں گی۔ہم میں سے ہر فکر مند اور درد مند انسان کو یہ سوچنا ہے کہ دینی مدارس میں زیرِ تعلیم طلبہ قوم کا اثاثہ ہیں ، اسلئے کہ اِن طلبہ کا:

(۱) حافظہ سولہ آنے کھرا ہوتا ہے۔
(۲)ان کی یادداشت ۲۴؍کیریٹ کی ہوتی ہے تبھی تو وہ اس روئے زمین کی سب سے بڑی اور ضخیم کتاب کو زیرو زبر کی صحت کے ساتھ اپنے ذہن میں محفوظ کرلیتے ہیں۔
(۳)اُن طلبہ میںلگن بلا کی ہوتی ہے۔
ّ(۴)یکسوئی مثالی ہوتی ہے، کمٹمنٹ زبردست ہوتی ہے۔
(۵)اور اُن کی بھاری اکثریت ہر قسم کے ذہنی کرپشن سے پاک ہوتی ہے۔
 ہمارے یہاں اِن قیمتی طلبہ کو زندگی و روزگار سے جوڑنے کا خیال بعد از خرابی بسیار گزشتہ صدی میں آگیا اور پھر سارے مدارس کے طلبہ کو روزگار سے جوڑنے کیلئے کارپینٹر (سُتار) کا کام سکھایا جانے لگا یا  سلائی مشین خرید کر اُنہیں ٹیلر بنانے کی کوشش ہونے لگی۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں جب کمپیوٹر کا چلن عام ہوا تب اُن مدارس میں سلائی مشین کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی ، آٹھ دس کمپیوٹر خرید کر بتایا جانے لگا کہ اب ان حفّاظ ، عالم و فاضل صاحبان کو کمپیوٹر کی تعلیم دی جارہی ہے حالانکہ وہاں تعلیم صرف ڈیٹا اِنٹری آپریٹر کی دی جانے لگی۔ یعنی کمپیوٹر شناسی کو کمپیوٹر کی مہارت کہا جانے لگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دینی مدارس کے یہ انتہائی ذہین اور سنجیدہ فارغین صرف اسی لائق ہیں کہ وہ:
 (الف) مدرسے سے فارغ ہونے کے بعد رومال اور ٹوپی بیچیں؟ 
(ب) مسجد کے باہر عطر اور سرمہ کا ٹھیلا لگائیں ؟
(ج) اُن کے کارپینٹر ، الیکٹریشین یا ٹیلر بننے کو ہم ہُنر مندی قرار دیں؟ 
(د) کمپیوٹر کی معمولی تعلیم دے کر اُن کو جدید ٹیکنالوجی سے جوڑنے کا دعویٰ کیا جائے؟ 
(ہ) یا پھر پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے جادو ٹونا کرنے پر آمادہ ہونے دیں؟
 ہمارے اِن دینی تعلیمی مدارس کے فارغین کو عصری تعلیم سے جوڑنا ناممکن تو ہرگز نہیں، مشکل بھی نہیں، صرف محنت طلب کام ہے۔ ہر نیک اور فلاحی منصوبے کیلئے ہمیشہ نیک نیتی اور اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ فارغین مدارس کو عصری تعلیم اور روزگار کی دھارا سے جوڑنے کیلئے  ایک ہی سہی، دوسالہ بریج کورس تشکیل دیں۔ ایک ایسا کورس جو اِن طلبہ میں وسیع النظری، وسیع القلبی اور وسیع المشربی کا باعث بنے۔ ایک ایسا کورس جو بین المسالک اور بین المذاہب مفاہمت کیلئے نمایاں کردار ادا کرے۔ آج ہمارے مسلکی فروعی اور فقہی اختلافات جگ ظاہر ہیں۔ مسلمانوں میںمعمولی معمولی مسلکی اختلافات آگے چل کر کس قدر بھیانک شکل اختیار کر رہے ہیں اس کا مشاہدہ ہم بخوبی کر رہے ہیں کہ صرف عقائد کی بناء پر چند مسلم ممالک دوسرے مسلم ممالک میں صرف خون ریزی نہیں کررہے ہیںبلکہ ڈرون حملے تک ہو رہے ہیں۔ عالمی طاقتیں خوش ہیں کہ اِن عقائد و مسلکی اختلافات کی بناء پر یہ مسلم ممالک اُن کی ہتھیاروں کی فیکٹری کے سب سے بڑے خریدار بن گئے ہیں۔
 اس انتہائی افسوس ناک اور دردناک صورتِ حال کا ایک ہی علاج ہے کہ اب ہم ہمارے یہاں ایک مہذب اور صحت مند افہام و تفہیم کی فضا قائم کریں کیوں کہ آج مسلکی نظریاتی اختلافات ہی کی بناء پر ہمارے طلبہ میں بھی ایک دوسرے کے تئیں صرف کراہت نہیں بلکہ نفرت کے جذبات تک پیدا ہورہے ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ہم دینی وعصری تعلیم کو جوڑنے والے پُل کو تعمیر کرنے سے پہلے اتحاد بین المسلمین کیلئے ایک مضبوط پُل  تعمیر کریں لہٰذا ہمارے اس بریج کورس کے پہلے مضمون کا نام ہو ’اتحاد باوجود اختلافات‘۔ اس مضمون کا نصاب کیا ہو؟ اور اُس میں کیا پڑھایا جائے؟ 
(۱) تمام مسالک کے عقائد کا ایک مختصر جائزہ لیا جائے ۔
(۲) دوسروں کے عقائد کو سمجھنا اور اُن کا احترام کرنا۔ 
(۳) حجّت ، تکرار اور مناظرے کی کیفیت سے بچنا۔
(۴) مختلف عقائد کے طلبہ ایک بینچ پر بیٹھیں۔ مثلاً دیوبندی مدرسے کا فارغ بریلوی عقیدے کے طالب علم کے ساتھ بیٹھے یا حنفی عقیدے کا طالب علم اہلِ حدیث عقیدے کے طالب علم کے ساتھ بینچ شیئر کرے۔
 دوران کورس عملی کام کے پریڈ میںوہ ایک دوسرے سے بڑے ہی خوشگوار ماحول میں یہ کلام کریں :’’میں نماز میں رفع الیدین کرتاہوں، آپ نہیں کرتے، پھر بھی آپ میرے دوست بن جائیں‘‘ یا ’’میں آمین باآواز بلند پڑھتا ہوں، آپ نہیں۔ کیاآپ مجھے قبول کریں گے؟ ‘‘ ہمیں اللہ کی ذات سے اُمّید ہے کہ یہ جملے سُننے کے بعد وہ نہ صرف قبول کریں گے بلکہ نم آنکھوں کے ساتھ ایک دوسرے کے گلے بھی ملیںگے۔ عالمی سطح پر بھائی چارگی کی باتیںکرنے سے پہلے ہمیںہمارے گھر درست کرنے ہوں گے۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہوگئے تو یقین جانئے ہم اپنے وسائل، قوت اور وقت کا بہترین استعمال کر پائیں گے کیوں کہ اُس وقت ہمارا نصب العین صرف ایک ہی ہوگا ’تعمیر قوم‘۔اس بریج کورس کے دیگر مضامین کی تفصیل آئندہ کبھی پیش کی جائے گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK