• Wed, 05 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

آزادی کے بعد بتایا کہ دینی مدارس مین اسٹریم سے کٹے ہیں اور ہم نے اُس پر یقین

Updated: February 04, 2025, 11:28 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

چار د ہائی پُرانا آرکے لکشمن کا ایک کارٹون یاد آرہا ہے۔ اس میں ایک باپ اپنے لگ بھگ۵۔۴؍سالہ بچّے کوڈانٹ کر کہتا ہے کہ کوئی بھی مہمان یہ پوچھے کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے تو اتنا کہنا کافی ہے کہ تم انجینئربنوگے،ہر بار یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تم انجینئر بنوگے اور امریکہ یا کینیڈا جائو گے۔

We have done a great harm by differentiating between religious and contemporary education. Photo: INN
دینی اور عصری تعلیم میں تفریق کرکے ہم نے بڑا نقصان کیاْ۔ تصویر: آئی این این

چار د ہائی پُرانا آرکے لکشمن کا ایک کارٹون یاد آرہا ہے۔ اس میں ایک باپ اپنے لگ بھگ۵۔ ۴؍سالہ بچّے کوڈانٹ کر کہتا ہے کہ کوئی بھی مہمان یہ پوچھے کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے تو اتنا کہنا کافی ہے کہ تم انجینئربنوگے، ہر بار یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تم انجینئر بنوگے اور امریکہ یا کینیڈا جائو گے۔ آج اس کارٹون کے جیسے نظارے اس ملک میں ہر سُو نظر آرہے ہیں[ ابتدائی یا ثانوی تعلیم حاصل کرنے کا منصوبہ یہاں بن رہا ہے اور جس کی مالی حیثیت تھوڑی بہت ٹھیک ٹھاک ہے وہ کسی غیر ملکی یونیورسٹی میں پڑھنے کی تیاری کر رہا ہے۔ بیرونی خصوصاً یورپی مماملک پر اس کے تعلیمی نظام کی ساری ناکامیاں عیاں ہوچکی ہیں[ اسلئے یہاں کے طلبہ کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے وہاں کے ہر ملک نے پالیسیاں مرتّب کی ہیں[ ہمارے ملک میں طلبہ کے ذہنوں پر نفرت کی کاشتکاری سے بھی تعلیمی و سماجی حلقوں میں بے یقینی اور مایوسی کا ماحول غالب ہوچکا ہے، اسلئے بھی آج ساری فارین یونیورسٹیوں کیلئے ہندوستان ایک زرخیز ملک ثابت ہورہا ہے۔ ان تمام ممالک کو یہ اندازہ ہوچلا ہے کہ وہ ہندوستانی تعلیمی نظام کے زوال کے ساتھ اب یہاں کے طلبہ کو سُرخ قالین بچھانے کی ضرورت بھی نہیں[ بہت زیادہ محنت بھی درکار نہیں ، وہ جوق درجوق سبھی آجائیں گے۔ 

یہ بھی پڑھئے: سول سروسیز کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے میں رُکاوٹیں ہماری اپنی ہوتی ہیں

 ہندوستانی تعلیمی نظام کا معاملہ اس قدر پیچیدہ کیسے ہوگیا؟اس کے معیار کا زوال شروع کب ہوا[ بظاہر تو اعداد و شمار کی روشنی میں نظر یہ آتا ہے کہ اس ملک کا تعلیمی نظام جسامت کے لحاظ سے امریکہ اور چین کے بعد یعنی تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ یہاں ۱۱۴۰؍یونیورسٹیاں ہیں اور۵۰؍ ہزار کالج، یہ پھیلائو دیکھ کر اور سوچ کر ہم سبھی خوشی سے پھولے نہیں سماتےمگر یہ کیا ؟عالمی سطح پر ریٹنگ یہ سامنے آئی ہے کہ اس ملک کے صرف۱۹؍فیصد انجینئرنگ گریجویٹس قابلِ ملازمت ہیں یعنی ۸۱؍فیصد انجینئرنگ گریجویٹس نااہل ہیں ؟ اس ملک کے آئی ٹی ٹی، آئی آئی ایم، ایمس اور این آئی ٹی کا بڑا چرچہ ہے مگر جب بڑی باریکی سے مطالعہ کیا گیا تب یہ راز کھُلا کہ وہ اِدارے واقعی قابلِ تعریف ہیں ، مگر وہاں کے طلبہ کی وجہ سے نہ کہ اساتذہ یا اُن اِداروں کے انتظامیہ کی وجہ سے! جی ہاں !ہمارے یہ لائق طلبہ سرمایہ ثابت ہورہے ہیں البتہ طلبہ کا سرمایہ دوسرے ملکوں کی زینت بنا ہوا ہے یا بننے جارہا ہے اور ہر سال جارہا ہے، ہر مہینے بلکہ ہر دِن جارہا ہے۔ 
  ملک کے تعلیمی نظام کی تنزلی کی داستان بڑی طویل ہے البتہ آج ہم اس کا مختصر جائزہ لیں گے۔ کئی صدیوں تک اس ملک کا تعلیمی نظام مدرسہ اورگُروکُل پر مشتمل تھا۔ پھر انگریزی دَور شروع ہوا۔ اُس دَور میں نظامِ تعلیم میں نمایاں تبدیلی کیلئے سب سے پہلے مشورے پیش کئے تھامس میکالے نے، وہ ملک میں ۱۸۳۴ء سے ۱۸۳۸ء تک رہا اوریہاں کے نظامِ تعلیم پر یورپی چھاپ چھوڑنے کیلئے اس نے ایک منظّم منصوبہ تیار کیا۔ جس میں سرِ فہرست مشورہ یہ بتایا کہ فارسی زبان کوختم کرکے انگریزی زبان کو تعلیم کا میڈیم بنایاجائے۔ اس نے اپنی تحریروں سے پورے برِّصغیر کو یقین دلایا کہ فارسی، عربی اور سنسکرت زبانیں زمانے سے ہم آہنگ نہیں ہیں[ یہاں تک کہ انگریزی شاعری و ادب کو دنیا کی ساری زبانوں میں سب سے اعلیٰ وارفع ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میکالے جیسی سوچ رکھنے والوں کی فرنگی حکومت میں کوئی کمی نہیں تھی۔ اُن دو صدیوں میں عربوں کی تحقیق کا بھی طوطی بولتا تھا مگر انگریزوں نے ان سبھی تحقیقی مقالات اور کتب کو انگریزی زبان میں اپنانے کی دُور اندیشی کا مظاہرہ کیا۔ اس طرح انگریزی زبان کو آبِ حیات مل گئی[ 
 ۱۸۵۴ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹروں کے صدر چارلس اوڈے نے ہندوستانی تعلیمی اصلاحات کیلئے جو مُر اسلہ بھیجا تھا۔ (جسے وڈس ڈسپاچ کہتے ہیں ) اس میں اپنی تعلیمی پالیسی کو بالکل واضح کر دیا تھا۔ اوڈ ےنے لکھا تھا کہ ہندوستانیوں کی تعلیم ایسی ہونی چاہئے جو برطانوی تجارت کیلئے منافع بخش ثابت ہو اور جس سے کمپنی کو قابلِ اعتبار ملازمین فراہم ہوسکیں[ جی ہاں انگریزوں نے تعلیمی نظام نہیں بلکہ ملازمتیں فراہم کرنے والی فیکٹریاں قائم کرنے کا ایک سسٹم رائج کیا لہٰذا ۱۸۵۷ء میں مدر اس، ممبئی اور کلکتہ میں جو یو نیورسٹیاں انگریزوں نے قائم کیں ، اس وقت انگریزوں نے ہندوستانیوں کو خواب یہی دِکھایا تھا کہ اُن یونیورسٹیوں سے جب اُنھیں سند ملے گی، اس سے انھیں برطانوی حکومت کی ملازمتیں ملیں گی۔ یعنی انگریزوں نے اس ملک کو تعلیمی نظام کے نا م پر جو مساوات دی وہ ہے :علم = جاب۔ ظاہر ہے اس مساوات کا نتیجہ ہے کہ یہاں کا تعلیمی نظام صرف روزی روٹی یا ملازمت کے اِرد گرد گھوم رہا ہے۔ اور اسی بنا پر آج معلومات عام ہورہی ہے مگر علم عام نہیں ہورہا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: سو ِل سروسیز میں بہترکارکردگی کیلئے وسائل کی فراہمی کیلئے مثبت فکر کی ضرورت ہے

 اِسی دوران ہماری قوم کی تعلیمی پیش رفت کا مطالعہ دگر گوں ہوتا گیا۔ ہمارے یہاں دو متوازی تعلیمی نظام وجود میں آگئے، ایک جدید اسکول، کالج اور یونیورسٹی کا نظام اور دوسرا دینی مدارس و دارُالعلوم کا نظام۔ یہ دونوں نظام ایک عرصے تک اقلیدس کی دو متوازی لکیروں کی طرح چلتے رہے جو کبھی نہیں ملتے۔ اس سے افسوس ناک بات یہ تھی کہ ان دونوں متوازی چلنے والی ٹرینوں کے مسافر ایک دوسرے پر ہنستے رہے اور تمسخر اُڑاتے رہے۔ ہماری قوم اسرائیل اور سنگھ پریوار کے مسلسل عتاب کے بعد اس شدّت میں کچھ کمی آئی البتہ لگ بھگ دو صدیوں تک اِن دونوں نظاموں میں ایک دوسرے کی مخالفت بھی جاری رہی۔ 
 اپنا تعلیمی نظام احسن طریقے سے قائم نہ کرپانے کی بناء پر ہمارے سارے ممالک سامراج کے کس قدر غلام بن گئے اس کا ثبوت لیبیا کی درسی کتب میں درج اس دعا سے ملتے ہیں[ ’’اے خدا مجھے اٹلی سے محبت کرنے میں مدد دے جو میرا مادروطن ثانی ہے۔ ‘‘ دوسری نو آبادیوں میں اٹلی کی جگہ امریکہ، کینیڈایا برطانیہ کا نام شامل کیا جاسکتا ہے۔ 
 تعلیمی نظام کی تنزلی کا دَور اُس وقت شروع ہوا جب’ تعلیم، تعلیم‘ کا شور و غُل برپا ہوا مگر نظامِ تربیت کو اس میں سے خارج کردیا گیا۔ سائنس کو اسلئے رائج کیا گیا کہ طلبہ ایٹم سے لے کر خلائی کہکشائوں کے سحر میں گرفتار رہیں اور کبھی اس کا خیال تک دل میں نہ لائیں کہ اس انتہائی وسیع و عریض کائناتی نظام کا کوئی خالق بھی ہے۔ اس کے برعکس مدارس و دارُالعلوم کے نظام کو کوسنے کا کام مسلسل جاری رہا۔ اُن نام نہاد دانشوروں میں سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ اُنہی دارُالعلوم سے آخر اُستاد احمد لاہوری کیسے پیدا ہوئے جو تاج محل اور جامع مسجد دہلی کے چیف آرکیٹیکٹ تھے؟مدرسے کے ہی ایک فارغ اُستاد رومی خان نے مغلیہ سلطنت کو توپوں کا دفاعی نظام کیوں کر دیا؟ انہی دینی مدارس نے صدیوں تک نسلوں کو حساب، ہندسہ، طب، فارسی، عربی، منطق، عمرانیات اور فلسفہ سکھایا۔ آزادی کے بعد کی حکومتوں نے خصوصی طورپر ہمیں ’سمجھایا‘ کہ دینی مدارس موجودہ دھارے سے کٹے ہوئے ہیں اور ہم نے یقین بھی کرلیا۔ 
 انگریز جب اس ملک سے چلے گئے تب اپنے ہر نظام پر اپنی ایسی دہشت چھوڑ گئے کہ ان کے قائم کردہ نام نہا د اُصولوں سے انحراف کی کسی میں ہمّت دِکھائی نہیں دی۔ حتّٰی کہ دستورِ ہند کی تیاری میں سارے سر کر دہ اراکین قانون ساز نے انگریزی دستور ہی کو آخری اور نا قابل تسخیرو تنسیخ سمجھا۔ سارے قوانین، ضوابط ، نظم ، اُصولِ انتظامیہ یا دستورِ تعلیم سبھی لگ بھگ نقل ہیں[ انگریزوں کے اکابر ینِ ملک نے انگریزی اور یورپی فکر کو حرفِ آخر سمجھ لیا۔ اس وقت تعلیم اس دور کے سب سے بڑے مفکّر مولانا آزاد کو سونپی گئی تھی جو تقسیمِ ہند کے سانحے سے مکمل ٹوٹ چکے تھے البتہ تعلیمی نظام میں اپنی فکر کی چھاپ چھوڑی اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ، نیز چند اعلیٰ تکنیکی ادارے ، مدارس وغیرہ بھی قائم کئے۔ یہ اور بات ہے کہ اسی دور سے حکمراں کانگریس پارٹی میں زعفرانی عناصر اپنی جگہ بناتے گئے۔ یہ وہ عناصر تھے جویہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ملک صدیوں سے غلام تھا اور آزاد ہوچکا ہے جس میں مسلمانوں کو اُن کا حصّہ مل چکا ہے۔ اب اُن کا یہ زعفرانی راشٹر ہے جس میں کسی اقلیت کو کوئی جگہ حاصل نہیں ہے۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK