ہنگامہ آرائی کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعلیٰ نے یاتریوں کو ’ضبط نفس‘کا مشفقانہ درس دیا، اس کے باوجود شرانگیزی کا سلسلہ جاری ہے۔
EPAPER
Updated: August 04, 2024, 5:14 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
ہنگامہ آرائی کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعلیٰ نے یاتریوں کو ’ضبط نفس‘کا مشفقانہ درس دیا، اس کے باوجود شرانگیزی کا سلسلہ جاری ہے۔
قانون کی حکمرانی کا بلند بانگ دعویٰ کرنے والی یوگی حکومت کانوڑیوں کی شرانگیزی کے خلاف اب تک کوئی ایسی کارروائی نہیں کر سکی ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ ریاست میں قانون کی حکمرانی ہے۔ میرٹھ، غازی آباد، بجنور، مظفر نگر اور سہارنپور میں کانوڑ یاتریوں کی شرانگیزی کے سبب جان و مال کے نقصان کی کئی خبریں اب تک منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ہنگامہ آرائی کی ان وارداتوں سے نہ صرف عام آدمی کو نقصان پہنچا بلکہ سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ غازی آباد میں ایسی ہی ایک واردات میں پولیس کی گاڑی کا جو حشر ہوا، اس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ ان وارداتوں میں کانوڑ یاتریوں نے جس جارحیت کا مظاہرہ کیا، اس کا مذہب کی حقیقی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب اپنے پیروکاروں کو یہ ترغیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے جیسے ان دوسرے انسانوں کیلئے اذیت کا سبب بنیں جو عقائد کی رو سے ان سے مختلف ہیں۔ نوع انسانی کے مابین محبت اور امن کا قیام، ہر مذہب کی بنیادی تعلیم کا لازمی جزو ہے۔ کسی بھی مذہبی عقیدے پر یقین رکھنے والا انسان اگر اس بنیادی تعلیم کے برعکس قول و عمل کا مظاہرہ کرے تو یہ سمجھ جانا چاہئے کہ مذہب سے اس کی وابستگی میں انسانیت نوازی کا وہ عنصر معدوم ہے جس میں مذہب کی حقیقی روح بستی ہے۔ کانوڑ یاتریوں کی ہنگامہ آرائی کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔
اس ضمن میں حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ قانون کی بالادستی کو تمام امور پر فوقیت دینے کا دعویٰ کرنے والی یوپی حکومت ان ہنگامہ آرائیوں پر جو نرم رویہ اختیار کئے ہوئے ہے، وہ اس کی نیت کو مشکوک بناتا ہے۔ ہنگامہ آرائی کی یہ خبریں جب منظر عام پر آئیں تو وزیر اعلیٰ نے ان یاتریوں کو ’ضبط نفس‘کا مشفقانہ درس دیتے ہوئے اپنے فرض کی تکمیل اپنے طور پر کر دی۔ ریاست سے مافیا راج ختم کرنے اور شرپسند عناصر کا ناطقہ بند کر دینے کا دعویٰ کرنے والے وزیر اعلیٰ کا یہ درس بھی بہت کارگر ثابت نہیں ہوا، اسلئے بعد میں بھی ہنگامہ آرائی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس شر انگیزی نے ذہنی طور سے معذور افراد اور خواتین کو بھی نہیں بخشا۔ اس کے باوجود محض مذہبی یگانگت کی بنا پر ریاستی حکومت ان کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کرنے سے دامن بچا رہی ہے۔ ہندوستان جیسی سیکولر جمہوریت میں کسی ریاست کے سربراہ کا یہ رویہ قانون کی حکمرانی کے منافی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:شادیوں میں کھانا پکانے کی ذمہ داری ’نائی‘ کی ہوتی تھی، وہ کھانا اچھا پکاتے تھے
ان وارداتوں کو صرف اس بنا پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ انھیں انجام دینے والوں نے بنام مذہب یہ سب کچھ کیا۔ کسی مذہبی رسم کو انجام دینے والوں کی ایسی لاقانونیت سماج میں انتشار کی کیفیت پیدا کر سکتی ہے۔ ریاست میں نظم و نسق کو پائیدار بنائے رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ اقتدار قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی میں مذہبی امتیازات پر مبنی طرز عمل کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ اس کی نظر صرف اور صرف قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے رکھنے پر ہونی چاہئے۔ صرف زبانی طور پر دعویٰ کرنے سے اس ہدف کو سر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اقتدار مذہبی بنیاد پر عوام کے ساتھ ایسا امتیازی رویہ روا رکھتا ہے تو وہ خود قانون کی حکمرانی کے تصور کو مجروح کرتا ہے۔ کسی بھی مذہبی جلسے، جلوس یا دیگر رسومات کی ادائیگی میں بعض عناصر کے ذریعہ اگر قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش ہو تو اس کے خلاف سخت کارروائی حکومت کا مطمح نظر ہونا چاہئے۔ کانوڑ یاتریوں کی ہنگامہ آرائی پر برائے نام کارروائی بالواسطہ طور پر ایسی سیاسی پشت پناہی ہے جو شر پسند عناصر کو مزید ہنگامہ آرائی کا حوصلہ عطا کر سکتی ہے۔ غازی آباد میں پولیس اہلکاروں اور پولیس کی گاڑی کو انتہائی دیدہ دلیری سے تہس نہس کرنے والی واردات اس کا واضح ثبوت ہے۔
گزشتہ دنوں یوپی کے وزیر اعلیٰ کا ایک بیان بہت وائرل ہوا تھا جس میں انھوں نے محرم کے جلوسوں کے حوالے سے یہ واضح انتباہ دیا تھا کہ کسی بھی طرح کی ہنگامہ آرائی کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان جلوسوں میں شرکت کرنے والوں کو لازمی طور پرقانون کی پاسداری کرنا ہوگی۔ اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے یہ لاحقہ بھی جوڑ دیا تھا کہ حکومت کسی بھی ہنگامہ آرائی کو برداشت نہیں کرے گی خواہ اس میں ملوث افراد کسی بھی دھرم سے تعلق رکھتے ہوں۔ کانوڑ یاتریوں کے ذریعہ ہنگامہ آرائی کی متواتر وارداتوں کے تناظر میں بجا طور پر ان سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے انتباہ کو عملی شکل دینے سے قاصر کیوں نظر آتے ہیں ؟انھوں نے شرپسندوں کا سد باب کرنے اور فوری انصاف فراہمی کے نام پرایسا نیا طرز بھی ایجاد کر لیا ہے جو قانون کی رو سے اگر چہ غیر مناسب ہے لیکن مذہبی منافرت پر مبنی سیاست اسے معیوب نہیں سمجھتی۔ اس کے علاوہ یوگی حکومت سرکاری یا عوامی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف بہت سخت رہی ہے۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ کانوڑ یاترا کے دوران ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے ذریعہ پولیس کی گاڑی کو نقصان پہنچانا، ریستوراں اور پیٹرول پمپ پر توڑ پھوڑ کرنا، کیا سرکاری یا عوامی املاک کو نقصان پہنچانا نہیں ہے۔
ان معاملات کو مذہبی تعصب سے بالاتر ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جب وزیر اعلیٰ ریاست کے ایک ذمہ دار اور غیر جانبدار سربراہ کے طور پر ان وارداتوں کا جائزہ لیں گے تو پھر انصاف کا تقاضا یہی ہوگا کہ وہ ان شر پسندوں کے خلاف بھی ویسی ہی سخت کارروائی کریں جس طرز کی کارروائی کیلئے وہ اپنی شہرت چاہتے ہیں۔ ریاست میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ ان شر پسندوں کے خلاف بھی بلڈوزر کارروائی کریں جو فخریہ انداز میں پولیس کی گاڑی کا ستیاناس اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ بدتمیزی کر رہے ہیں۔ کیا وہ اس موقع پر اپنی منصبی ذمہ داری کو آئین کے ان تقاضوں کے تحت پورا کریں گے جو قانون کی پاسداری میں کسی بھی طرح کے تعصب کا روا دار نہیں ہے؟ ظاہر ہے کہ یوپی حکومت سے ایسی توقع کرنا محض خیال خام ہے۔ ایسی صورت میں قانون کی حکمرانی کا دعویٰ خود بخود ناقص ہو جاتا ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سماج میں عوام کے درمیان مذہبی بنیاد پر خلیج پیدا کرنے والی سیاست کی عمر بہت زیادہ نہیں ہوتی۔ یہ سیاست کا وہ عارضی طرز ہے جو تھوڑے عرصے کیلئے عوام میں مقبول ہوتا ہے لیکن جب عوام کو اس سچائی کا احساس ہوتا ہے کہ ایسی سیاست ملک و معاشرہ کیلئے کسی طور بھی مفید نہیں ہے تو رفتہ رفتہ اس سیاست سے ان کا موہ بھنگ ہونے لگتا ہے۔ پارلیمانی الیکشن کے نتائج نے بھی واضح کر دیا ہے کہ ملک گیر سطح پر عوام کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ایسی سیاست انھیں جذباتی قسم کے مذہبی معاملات میں الجھا کراپنا الو سیدھا کرنے میں یقین رکھتی ہے۔ اس طرز سیاست میں عوام کے بنیادی مسائل پر مذہب کا ایسا پردہ ڈال دیا جاتا ہے کہ انھیں اپنی حقیقت حال سے زیادہ ان باتوں میں دلچسپی ہو جاتی ہے جن کا عوام کے معیار زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ کانوڑ یاتریوں کی ہنگامہ آرائی پر یوپی حکومت کا رویہ اس طرز سیاست کی ایک مثال ہے۔
ملکی یا صوبائی سطح پر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے اور معاشرہ میں امن و آشتی کی فضا کو برقرار رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ان تمام عناصر کے خلاف حکومت سخت کارروائی کرے جو کسی بھی مذہبی رسوم کی ادائیگی میں عام شہری اور عوامی یا سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس معاملے میں اقتدار کو مذہبی امتیاز پر مبنی رویہ نہیں اختیار کرنا چاہئے۔ اقتدار کی نظر میں مختلف مذاہب کے پیروکار صرف ـ’عوام‘ کی حیثیت رکھتے ہیں اور آئین کی رو سے اس کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ عوام کو ایسا پر امن ماحول فراہم کرے جس میں وہ اپنی انفرادی اور معاشرہ کی مجموعی ترقی کی تدابیر کر سکیں۔ اگر اقتدار مذہبی بنیاد پر عوام کے درمیان ایسی تفریق کرے کہ اپنے ہم عقیدہ افراد کی تمام شر انگیزیوں کو نظرانداز کرتا رہے تو اس سے نہ صرف سماجی امن کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ قانون کی حکمرانی کا تصور بھی مجروح ہوتا ہے۔