Inquilab Logo

پرائیویٹ اسکولوں کی حرکتوں سے طلبہ اور والدین پریشان

Updated: June 16, 2024, 1:08 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

یہ سوال اکثر اُٹھتا ہے کہ یونیفارم، کتاب اور دیگر تعلیمی لوازمات کی خریداری کیلئے اسکولوں کی جانب سے مخصوص دکانوں ہی کا انتخاب کیوں کیا جاتا ہے؟

Barring Delhi, Maharashtra and some states of South India, government schools across the country are lamenting their plight. Photo: INN
دہلی ، مہاراشٹر اور جنوبی ہند کی بعض ریاستوں کو چھوڑ کر پورے ملک میں سرکاری اسکول اپنی حالت زار کا رونا رو رہے ہیں۔ تصویر : آئی این این

یہ سال کے وہ ایام ہیں جو متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے ہندوستانیوں کیلئے اضافی پریشانی کا سبب ہوتے ہیں۔ ہر سال ان دنوں میں ان لوگوں کے اخراجات کا گراف بڑھ جاتاہے جو اپنے بچوں کی معیاری تعلیم کیلئے فکر مند ہوتے ہیں۔ ہندوستانی آئین نے اگرچہ ہر شہری کو تعلیم کا حق فراہم کیا ہے لیکن اس حق کی حصول یابی میں عوام کو جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بعض دفعہ ان کیلئے انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہیں ۔ آر ٹی ای کی تعمیل میں محکمۂ تعلیم کے افسران اور اسکولی انتظامیہ کی ساز باز کے سبب اکثر مستحق طلبہ اپنا جائز حق حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہر طالب علم، اس کے والدین یا سرپرستوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ معیاری تعلیم کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔ ملک کی ایک آدھ ریاستوں کو چھوڑ کر ملک گیر سطح پر سرکاری اسکولوں کا جو حال ہے وہ اس یقین کو معتبر اور پائیدار بنانے سے قاصر ہے۔ ایسی صورت میں معیاری تعلیم کیلئےپرائیویٹ اسکول ہی واحد متبادل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان اسکولوں کے ارباب حل و عقداسی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر اکثر مختلف طریقوں سے استحصال کرتے ہیں۔ 
 ملک کے بیشتر پرائیوٹ اسکول طلبہ کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کی غرض سے جو طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں وہ نہ صرف طلبہ کے والدین یا ان کے سرپرستوں کیلئے مالی پریشانی کھڑی کرتاہے بلکہ اس طرز عمل سے طلبہ بھی اکثر پیچیدہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں معیاری تعلیم کسی طالب علم کی کریئر سازی میں معاون ہونے کے بجائے اس کیلئے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے۔ اس ضمن میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سبھی اسکولوں کے حالات یکساں نہیں ہیں۔ بعض پرائیویٹ اسکولوں میں حصول تعلیم کا ایسا معقول اور نتیجہ خیز بندوبست ہے جو طلبہ کو کسی اضافہ دباؤ میں مبتلا کئے بغیر ان کیلئے بہترین کریئر کی راہ ہموار کرتا ہے لیکن ایسے اسکولوں کی فیس اور دیگر اخراجات کی تکمیل ان کے بس کی بات نہیں جن کا تعلق متوسط اور نچلے متوسط طبقہ سے ہے۔ ایسی صورت میں ان طبقات کے طلبہ انہی پرائیوٹ اسکولوں کا رخ کرتے ہیں جو بنام معیاری تعلیم اکثر ان کے اور ان کے متعلقین کیلئے مالی و نفسیاتی پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: دنیا، مستقبل ناشناس ترقیاتی اقدامات کا خمیازہ بھگت رہی ہے

اس طرز کے اسکول مالی منفعت کی خاطر نئی نئی تدابیر کرتے ہیں ۔ یہ تدابیر بہ ظاہر طالب علم کے تعلیمی مراحل کو معیاری اور معتبر بنانے میں معاون نظر آتی ہیں لیکن در حقیقت ان تدابیر سے جس قدر طالب علم کو فائدہ ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ فائدہ اسکول انتظامیہ کو ہوتا ہے۔ ان تدابیر میں ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ ہر تعلیمی سال کے آغاز پر اسکولی نصاب میں شامل کتابوں کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اس اقدام کو جائز ٹھہرانے کیلئے یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ علوم میں بتدریج ارتقا کا عمل جاری رہتا ہے لہٰذا طالب علم کیلئے نئی دریافتوں اور تحقیقات سے واقف ہونا ضروری ہے۔ اگر اکثر یہ جواز صرف زیادہ پیسہ کمانے کا ایک حربہ ہی ہوتا ہے اور طلبہ اور ان کے والدین کے سامنے تعلیمی ارتقا کی منطق پیش کر کے انھیں مطمئن اور خاموش کر دیا جاتا ہے۔ بعض اسکول تو صرف پبلشر تبدیل کر دیتے ہیں اور طلبہ کو اسی پبلشر کی کتاب خریدنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ اس صورت میں ان والدین اور سرپرستوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اپنے بچوں کیلئے کہیں سے پرانی کتابوں کا بندوبست کرکے اپنے مالی بار کو کسی حد تک کم کرنا چاہتے ہیں۔ 
 پرائیوٹ اسکولوں کے ذریعہ نصاب میں الٹ پھیر اور کتابوں کی تبدیلی طلبہ اور والدین دونوں کیلئے پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ مختلف علوم میں جاری تدریجی ارتقا سے طالب علم کو واقف ہونا چاہئے لیکن اس جواز کو ہر سطح کی تعلیم کیلئے موزوں اور مناسب نہیں قرار دیا جا سکتالیکن معیاری تعلیم کے نام پر جن پرائیوٹ اسکولوں میں ہر سال نصاب میں تبدیلی کی جاتی ہے وہاں عموماً اس امتیاز کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ اس جواز کے نام پر تقریباً ہر سال کتابوں کو بدل جاتا ہے اور بعض اسکولوں کی جانب سے طلبہ اور ان کے والدین کو یہ ہدایت بھی جاتی ہے کہ کتابیں یا دیگر اسکولی وسائل کی خریداری مخصوص دکان ہی سے کریں۔ اسکولوں کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ پبلشر، دکاندار اور اسکول انتظامیہ کے مابین کوئی معاہدہ ہے جس سے تینوں کیلئے مالی منفعت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ایک طرف جہاں یہ عناصر اپنی جیب گرم رکھتے ہیں وہیں دوسری جانب طلبہ اور ان کے والدین اضافی مالی مشکلات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ 
 پرائیوٹ اسکول، نصابی کتابوں میں تبدیلی کے علاوہ بعض دفعہ اسکولی یونیفارم بھی تبدیل کر دیتے ہیں۔ تبدیلی کا یہ عمل ہر سال نہ سہی، لیکن دو چار سال کے بعد کبھی جزوی اور کبھی کلی تبدیلی کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ اس تبدیلی کا کوئی واضح جواز تو اسکولوں کی طرف سے نہیں پیش کیا جاتا لیکن یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ یونیفارم کا نیا رنگ اور اسٹائل نہ صرف طلبہ کے اندر تازگی اور جدت کا احساس پیدا کرے گا بلکہ اس سے ان کی اسمارٹ نیس میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس تدبیر کی تعمیل میں بھی وہی حربہ استعمال کیا جاتا ہے جو کتابوں کی خریداری کے وقت ہدایت (انتباہ) کی صورت میں طلبہ اور ان کے والدین کے سروں پر تھوپا جاتا ہے۔ 
 یونیفارم، کتاب اور دیگر تعلیمی وسائل کی خریداری کیلئےاسکولوں کی جانب سے جن دکانوں کا انتخاب کیا جاتا ہے اگر طالب علم یا اس کے متعلقین اپنی سہولت کی خاطر کسی دوسری دکان سے خریداری کر لیں تواسکول یا تو اسے قبول نہیں کرتا اور اگر مصلحتاً ایسی شقاوت کا مظاہرہ نہ کرے تو بھی اس طالب علم کے ساتھ امتیازی رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ اکثر دوسرے طلبہ کے سامنے اسے تضحیک کا ہدف بنایا جاتا ہے اور بعض دفعہ اس کا تمسخر اڑانے کیلئے اس کی مالی حیثیت کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ اس مرحلے پر اسکول کے ارباب حل و عقد اساتذہ کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیتے ہیں، چونکہ پرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ کی ملازمت اکثر انہی ارباب حل و عقد کی مرضی کے تابع ہوتی ہے لہٰذا وہ بھی ان کے رویے کی مخالفت نہیں کر پاتے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو بیشتر پرائیویٹ اسکولوں سے وابستہ ایسی سچائی ہے جو طلبہ کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے عنوان سے طلبہ اور ان کے متعلقین کیلئے مالی و نفسیاتی پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ 
 اس صورتحال کے تناظر میں جو سب سے اہم اور بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ جب پرائیویٹ اسکولوں کی جانب سے معیاری تعلیم کے نام پر اتنا کچھ کیا جاتا ہے تو ان اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کو علاحدہ طور پر ٹیوشن لینے کی ضرورت نہیں پیش آنی چاہئےلیکن اس سوال کی حقیقت اس وقت سامنے آجاتی ہے جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنے والے بیشتر طلبہ بغیر ٹیوشن کے تعلیمی مراحل کی تکمیل سے قاصر ہوتے ہیں۔ اسکول کے علاوہ ٹیوشن کرنے والے طلبہ کو دوہرے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس دباؤ کے سبب اکثر ان میں ایسی نفسیاتی کجی پید ا ہو جاتی ہے جو ان کی ذات، ان کے اہل خانہ اور ان کے سماج کیلئے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔ 
 پرائیویٹ اسکولوں کی جانب سے اکثر ایسا استحصالی رویہ اختیار کرنے کی ایک وجہ تعلیمی امور میں حکومت کی وہ سرد مہری ہے جو طلبہ اور ان کے متعلقین کو ان اسکولوں پر منحصر رہنے کو مجبور کرتی ہے۔ سرکاری بجٹ میں ہر سال عموماً تعلیمی مدوں میں تخفیف کا عمل جاری ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ میں تعلیم کے مد میں جو رقم مختص کی جاتی ہے اس کا بھی معقول اور خاطر خواہ استعمال اکثر نہیں ہو پاتا۔ یہ ایسی سچائی ہے جو ملک گیر سطح پر چل رہے سرکاری اسکولوں کے ذریعہ نمایاں ہوتی ہے۔ دہلی، مہاراشٹر اور جنوبی ہند کی بعض ریاستوں کے کچھ علاقوں کو چھوڑ کر پورے ملک میں سرکاری اسکول اپنی حالت زار کا رونا رو رہے ہیں اور اقتدار کو اس کی مطلق پروا نہیں کہ وہ اس صورتحال میں کسی مثبت تبدیلی کیلئے سنجیدہ اور آمادہ ہو۔ ایسے میں طلبہ اور ان کے والدین معیاری تعلیم کے حصول کی خاطر پرائیویٹ اسکول کا رخ کرنے کو مجبور ہوتے ہیں اور یہ اسکول اسی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر وقتاً فوقتاً ان کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK