• Sun, 06 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

دنیا، مستقبل ناشناس ترقیاتی اقدامات کا خمیازہ بھگت رہی ہے

Updated: June 12, 2024, 2:57 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

انسان کے ترقیاتی اقدام اور فطرت کےساتھ کھلواڑ کا نتیجہ ہے کہ کہیں گرمی تو کہیں سردی کی شدت سے وہ پریشان ہے تو کہیں سیلاب کی تباہی اسے رُلا رہی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ماحولیات سے وابستہ مسائل عالمی سطح پر روز بہ روز سنگین شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ان مسائل کو اس تشویش ناک اور بعض اوقات خوفناک صورت عطا کرنے میں ان ترقیاتی اقدامات کا بھی بڑا رول ہے جن کا مقصد انسانی سماج کیلئے آرام و آسائش کے اسباب مہیا کرنا ہے۔ انسان نے سائنس اور تکنیک کی ترقی سے فیض اٹھاتے ہوئے زندگی کے ہر مرحلے کو پر آسائش اور سہولت بخش تو بنا لیا ہے لیکن اس کے عوض میں جو قیمت اسے چکانی پڑ رہی ہے وہ اس کے آرام و آسائش کو اکثر کرب میں بدل دیتی ہے۔ زندگی کو سہولت بخش اور پر آسائش بنانے کی دھن میں انسان نے مادی ترقی پر اس قدر انحصار کر لیا کہ فطرت کے معاملات اس کے نزدیک کوئی حیثیت اور اہمیت ہی نہیں رکھتے۔ فطرت کو انداز کر دینے اور تکنیکی وسائل و مشینی آلات کو جزو حیات بنا لینے والا انسان آج فطرت کے غیر متوقع مظاہر سے افتاں و خیزاں نظر آتا ہے۔ انسان کے ترقیاتی اقدام اور فطرت کے مابین عدم توازن کا نتیجہ ہے کہ کہیں گرمی کی شدت انسان کو حواس باختہ کئے ہوئے ہے، کہیں سیلاب کی طغیانی اس کی جان و مال کے نقصان کا سبب بن رہی ہے اور کہیں سردی کی شدت اس کے وجود کو شل کئے دے رہی ہے۔ 
 انسان نے اپنی ریاضت اور مشقت سے ترقی کے جن مراحل کو عبور کر لیا ہے وہ بلا شبہ اس کیلئے نشان فخر کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان مراحل کو عبور کرنے کے عمل میں اکثر فطرت کے ان تقاضوں کو اَن دیکھا کیا گیا جو مظاہر کائنات میں اعتدال و توازن کو برقرار رکھنے کیلئے ناگزیر ہیں۔ اس وقت ملک کے بیشتر حصوں میں گرمی کا جو روپ نظر آرہا ہے اس نے گزشتہ کئی دہائیوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ بعض علاقوں میں درجہ ٔ حرارت اس نشان تک پہنچ گیا جس کے سبب دل و دماغ پر انجماد کی کیفیت طاری ہو گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر انسان نے فطری وسائل کے استعمال میں غیر متوازی اور خود غرضانہ رویہ جاری رکھا تو آئندہ برسوں میں گرمی کا وہ روپ نظر آسکتا ہے جو دماغ کی چولیں ہلا دے گا۔ یہ صورت صرف گرمی کے موسم ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ موسم باراں اور موسم سرما کا بھی یہی حال ہو گیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: نتیجہ جو بھی، الیکشن میں وزیر اعظم کو سخت امتحان سے گزرنا پڑا

موسم کا یہ غیر متوازی انداز انسان کو کئی طرح سے متاثر کر رہا ہے۔ دن کے معمولات، رات کی نیند، جسمانی توانانی اور ذہنی کارکردگی، ان سب پر موسم کا اثر ایک فطری امر کی حیثیت رکھتا ہے اور انسان اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی کا خاکہ ترتیب دیتا ہے لیکن جب موسم کے مزاج میں غیر متوقع تبدیلی واقع ہونے لگے تو اس کا اثر بھی انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی پر غیر متوقع صورتوں میں ظاہر ہونے لگتا ہے۔ یہ صورتحال انسانوں کوصحت کے مختلف مسائل سے دوچار کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مادی اسباب آسائش کی حصول یابی کے بعد بھی انسان اور اس کا سماج اطمینان و سکون سے محروم ہوتے ہیں۔ اس وقت عالمی سطح پر انسانی معاشرہ کی یہی صورت بیشتر نظر آتی ہے۔ انسانی سماج کی اس صورت کے کئی اسباب ہیں اور ان میں ایک بڑا سبب ترقی کا وہ تصور بھی ہے جو امور حیات میں فوری اور عارضی مفاد و سہولت کو ہی کو بیشتر پیش نظر رکھتا ہے۔ اس تصور میں دور اندیشی اور مستقبل شناسی کا فقدان ہوتا ہے اور دنیا اس وقت ماحولیات کے حوالے سے جن مسائل کا سامنا کر رہی ہے وہ مسائل اس سچائی کو از خود بیان کر رہے ہیں۔ 
 سائنسدانوں کی تحقیق اور ماہرین کے اعداد وشمار بھی انسان کے اس غیر متوازی رویہ کی تائید کرتے ہیں جس کے سبب فطرت نے ایسا غیر معتدل رنگ اختیار کر لیا ہے جو بعض دفعہ ہلاکت کا سبب بن جایا کرتا ہے۔ دنیا کا تقریباً ہر ملک قدرتی وسائل کے استعمال میں غیر منظم اور غیر منصوبہ بند رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ مختلف ملکوں میں منصوبہ بندی اور مستقبل سازی پر مامور اداروں اور تنظیموں کی موجودگی میں یہ بات کچھ عجیب لگ سکتی ہے، لیکن سچائی یہی ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جن پر ترقی یافتہ کا ٹیگ لگ چکا ہے وہ اپنے اس عالمی رتبہ کے دم پر قدرتی وسائل پر اپنے ہی تصرف کو یقینی بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ رویہ اس خاص ملک یا سماج کیلئے کسی حد تک سہولت بخش اور فائدہ مند تو ہو سکتا ہے لیکن اس کے جو اثرات فطرت پر مرتب ہوتے ہیں وہ مجموعی طور پر عالمی انسانی آبادی کو متاثر کرتے ہیں۔ کاربن اور نائٹروجن جیسی مہلک گیسوں کے اخراج کے معاملے میں بعض ترقی یافتہ ممالک کا رویہ واضح کرتا ہے کہ ایسے نام نہاد ترقی یافتہ ملک جو ہر بات میں انسانیت کے دفاع اور دوام کی وکالت کرتے ہیں، اپنی ہٹ دھرمی کے سبب پوری انسانی برادری کیلئے سنگین ماحولیاتی مسائل کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ 
 فطرت کے غیر متوقع مظاہرکا ایک سبب نباتات اور جمادات کے تئیں وہ انسانی رویہ بھی ہے جو اپنی مادی ترقی کی رو میں ان کے وجود کیلئے خطرہ بن گیا ہے۔ جنگلات کو جس تیز رفتاری سے کاٹا جا رہا ہے وہ نہ صرف جانوروں بلکہ انسانوں کے وجود کیلئے بھی خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ درختوں اور سبزہ زاروں میں کمی ماحول کو تازہ ہوا سے محروم کر رہی ہے۔ اب تو شہروں اور شہروں سے متصل گاؤں میں فضائی آلودگی کو جاننے کیلئے اے کیو آئی چیک کرتے رہنا زندگی کا لازمہ ہو گیا ہے۔ درختوں کی کمی کے سبب فضا میں آکسیجن کی مقدار گھٹتی جا رہی ہے اور یہ تمام ذی روح کیلئے پریشانی کا موجب ہے۔ جنگلات کی کٹائی کے علاوہ پہاڑوں کو ہموار کرنے میں بھی انسان نا ہموار رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ پہاڑوں اور جنگلوں کا دائرہ مختصر اور سیمنٹ اور کنکریٹ کا رقبہ بڑھا دینے والا انسان بعض مادی سہولتوں سے بہرہ ور تو ہو جاتا ہے لیکن جب قدرتی وسائل کے ساتھ اس غیر متوازن رویہ کے اثرا ت ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں تو اس کے اوسان خطا ہونے لگتے ہیں۔ 
 عالمی سطح پر شہرکاری کی رفتار میں روز بہ روز جو اضافہ ہو رہا ہے اس کے سبب بھی فطرت کے مزاج میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ شہروں کی حدود میں وہ گاؤں بہت تیزی سے سماتے جا رہے ہیں جن گاؤں میں زندگی کا دار و مدار بیشتر زراعت اور باغبانی پر ہوا کرتا تھا۔ شہر کاری کی زد میں آنے سے کھیتوں اور باغوں کا وجود محدود تر ہوتا جا رہا ہے اور ان کی جگہ کثیر منزلہ رہائشی عمارتیں، تجارتی و صنعتی مراکز، بڑے شاپنگ مال اور دیگر تفریحی مقامات اپنا وجود ظاہر کرنے لگے ہیں۔ انسان کی زندگی نے جو طرز اختیار کر لیا ہے اس میں یہ اسباب و وسائل کسی حد تک ناگزیر ہو گئے ہیں لیکن ان کی تعمیر کے عوض جو نقصانات ہو رہے ہیں وہ اس ناگزیریت کو غیر اہم بنا دیتے ہیں۔ زرعی اراضی میں کمی اور انسانی آبادی میں اضافہ کے تناسب کو معتدل بنائے رکھنے کیلئے پیداوارکو بڑھانے کی نئی نئی تدابیر کی جا رہی ہیں۔ ان تدابیر میں ایک تدبیر ان کیمیکلز اور ادویات کا استعمال ہے جو پیداوار تو بڑھا رہی ہیں لیکن ساتھ ہی انسانوں کو کئی طرح کے امراض میں بھی مبتلا کر رہی ہیں۔ 
 اس عہد کا انسان بہ یک وقت کئی طرح کی ماحولیاتی آلودگی میں گھرا ہوا ہے۔ ان میں کچھ تو فطری حیثیت رکھتی ہیں اور کچھ خود اس کی زائیدہ ہیں۔ اس نے جنگلات کی تاراجی، پہاڑوں کی ہمواری اور دریاؤں کو صنعتی اخراج و دیگر قسم کی غلاظتوں کو جمع کرنے کے مراکز میں تبدیل کرنے کے عمل میں اس پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیا کہ اس عمل سے جو فائدہ ہوگا، اس کے عوض میں ہونے والا نقصان کئی نسلوں کو متاثر کرسکتا ہے۔ 
 ان سطور کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ ترقی کے عمل کو روک دیا جائے۔ دنیا کے مختلف ممالک اپنی استطاعت اور وسائل کی بنیاد پر ترقی کے جس عمل میں مصروف ہیں اسے مکمل طور پر روک دینا ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ معاشرہ کی خوشحالی کا بڑا دارو مدار انہی ترقیاتی اقدامات پر ہوتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس عمل سے گزرتے وقت انسان کیلئے لازم ہے کہ وہ قدرتی وسائل کے استعمال میں اس توازن کو برقرار رکھے جو نہ صرف اس کے بلکہ آئندہ کئی نسلوں کیلئے پرسکون اور آسودہ حال زندگی کے اسباب مہیاکر سکتا ہے۔ اس وقت ماحولیات کو سب سے بڑا خطرہ انسان کے اسی خود غرضانہ رویہ سے ہے جو صرف اپنے مفاد کو مقدم سمجھتا اور بیشتر اپنے حال کو پر آسائش بنائے رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ماحولیات کا تحفظ اور موسموں کے بگڑتے تیور کو درست کرنے کی سعی کرنا ایک آفاقی معاملہ ہے، اس کیلئے سبھی کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ضروری ہے ورنہ قدرت کے قہرکا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK