• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

وہ دن یقیناً آئے گا جب لڑکے بھی تعلیم کے تئیں سنجیدہ ہوں گے اور سماج کا بگڑا توازن سنبھل جائے گا

Updated: July 10, 2024, 4:17 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

ہمارے معاشرے میں کیا وہ صبح کبھی نمودار ہوگی جو یہ نوید لے آئے کہ لڑکے بھی پڑھ رہے ہیں ؟ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ضمن میں اُن میں سنجیدگی بھی آجائے اور اُس کی کمی کی بناء پر حصول تعلیم کے ضمن میں ہمارے یہاں جو سماجی توازن بگڑ چکا ہے وہ سنبھل جائے گا ؟

Students do not lack talent, they just need to be recognized and nurtured. Photo: INN
طلباء میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہوتی، بس انہیں پہچاننے اور نکھارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تصویر : آئی این این

ہمارے معاشرے میں کیا وہ صبح کبھی نمودار ہوگی جو یہ نوید لے آئے کہ لڑکے بھی پڑھ رہے ہیں ؟ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ضمن میں اُن میں سنجیدگی بھی آجائے اور اُس کی کمی کی بناء پر حصول تعلیم کے ضمن میں ہمارے یہاں جو سماجی توازن بگڑ چکا ہے وہ سنبھل جائے گا ؟ ہم قطعی مایوس نہیں ہیں مگر اس صبح کا سورج دیکھنے کیلئے ہمیں ہمارا نظریہ اور اس سے زیادہ اپنا طریقہ کار تبدیل کرنا ضروری ہے۔ آئیے اس کیلئے ضروری اقدامات پر سر جوڑیں :
 (۱) سب سے پہلے ہم مایوسی کے اندھیروں سے نکلیں اور یہ نہ سمجھیں کہ ہم لڑکوں کو تعلیم و اعلیٰ تعلیم کی جانب آمادہ کر ہی نہیں سکتے یا یہ کہ اس ضمن میں کچھ اس قدر بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ اب یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ لڑکے اعلیٰ تعلیم کی دھارا سے جُڑ جائیں بلکہ اس آیتِ ربّانی پر یقین رکھیں کہ’’ انسان کو وہی ملتا ہے جس کیلئے وہ کوشش کرتا ہے۔ ‘‘
(۲) کسی بھی تحریک کا آغاز ہمیشہ اصلاحِ معاشرہ ہی سے ہوگا کیوں کہ معاشرے کے بگاڑ کے برقرار رہتے ترقی کا کوئی بھی خواب پورا نہیں ہو سکتا لہٰذا لڑکوں کے دل و دماغ میں اُٹھنے والے بغاوت کے شعلے ٹھنڈے پڑ سکتے ہیں اگر ہمارے گھروں کا ماحول درست ہو جائے۔ 
(۳) ہمیں اس کی فکر کرنی ہے کہ آخر ہمارے ہر گھر میں ایسا کیوں دکھائی دے رہا ہے کہ باپ اور بیٹے بالکل متوازی خطوط کی طرح ساتھ ساتھ چلتے تو ہیں مگر کبھی ملتے نہیں، آخر یہ متوازی خطوط بنے ہی کیوں ؟ یہ دونوں کسی نقطے پر ملتے کیوں نہیں ؟
(۴) ہمارے گھروں میں ’انا‘ نام کی کینسر سے زیادہ مہلک بیماری اس قدر کیوں پھیلی ہوئی ہے۔ باپ اور بیٹے میں جو سرد جنگ چلتی ہے اُس میں دونوں جس ہتھیار کا استعمال کرتے ہیں وہ ہے’ انا‘۔ اس معاملے میں باپ یہ سمجھتا ہے کہ انا صرف اُس کی ہے، جذبات مجروح صرف اُسی کے ہوتے ہیں۔ بیٹا صرف بیٹا ہے اُسے سرجھکائے صرف سننا ہے۔ وہ سنتا ہے مگر ہر بے عزتی پر وہ اپنے باپ سے دُو ردُو ر ہونے لگتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: زندگی کے تئیں بیٹوں کی غیر سنجیدگی اور لاپروائی کیلئے والدین کتنے ذمہ دار ہیں؟

(۵) لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے ترغیب دینے کی تحریک اپنے گھرسے شروع ہونی چاہئے۔ ایسا نہ ہوکہ اساتذہ، اکابر اور دانشوروں کے ہاں ہی ’چراغ تلے اندھیرا‘ ہو۔ ایسی خبریں سُن کراور پڑھ کر بڑا دکھ پہنچا ہے کہ ہیڈ ماسٹر کے بیٹے نے ہی پورے محلے میں ناک میں دم کر رکھا ہے یاکسی دانشور کا بیٹا ہی اسکول سے ڈراپ آؤٹ ہو چکا ہے۔ 
(۶) ہمارے معاشرے کی ایک اور بڑی بیماری کا نام ہے ’نفسا نفسی‘۔ ایک بار ہمارے تعلیمی بیداری مرکز پر ایک صاحب آئے اور کہنے لگے : کون کہتا ہے کہ مسلمان لڑکے پڑھتے نہیں۔ میرے چار بیٹے ہیں، ان میں سے تین بیٹے انجینئر بن چکے ہیں، یہ چوتھا ابھی جو میرے ساتھ آیا ہے یہ بھی انجینئر بننا چاہتا ہے اُس کی رہنمائی کیلئے میں آیا ہوں تا کہ چاروں بیٹے انجینئربن جائیں۔ ہم نے اُن سے کہا کہ جناب اپنے محلے ہی میں نظر اْٹھا کر دیکھئے وہاں چالیس لڑکے ایسے دکھائی دیں گے جو اِسٹو درست کر رہے ہیں یا چھتری بنارہے ہیں، رکشا چلا رہے ہیں یا پھر ٹھیلا لگائے ہیں۔ ہماری قوم کا یہ بڑا المیہ ہے کہ ہماری زندگی کا محور ہے : ہم اور ہماری فیملی۔ ہم اپنی کامیابی کے گُر اپنے پڑوسی کو بھی بتانے کو تیار نہیں، رشتہ داروں سے بھی نہیں ، محلے میں بھی کسی سے نہیں۔ 
(۷) آزادی کی ان لگ بھگ آٹھ دہائیوں میں ہماری قوم کو ایک عادت سی پڑ گئی ہے یہ کہنے کی کہ ’’آخر حکومت کیا کر رہی ہے؟ وہ اقلیتوں کے ساتھ انصاف کب کرے گی ؟ ہمیں ہمارے جائز حق کب دلائے گی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ حکومت اور سیاسی بازیگروں پر آٹھ دہائیوں تک تکیہ کرنے کا نتیجہ ہم نے سچرکمیشن سمیت کئی کمیشنوں کے ذریعے دیکھ چکے ہیں کہ ہم مُلک کی سب سے پسماندہ اقوام سے بھی زیادہ پچھڑ چکے ہیں۔ ہماری چند بڑی کو تا ہیاں یہ رہیں کہ (الف) ہم اپنے معاشرے کی اصلاح کے بجائے حکومت اور دوسری قوموں کی سازشوں کی شکایت کرتے رہے اور ( ب ) محلہ تنظیمیں قائم کرنے کے بجائے آل انڈیا تنظیموں کے پیچھے دوڑے۔ لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم سے جوڑنے اور جُڑے رہنے کیلئے اب ہمیں محلہ تنظیموں کو متحرک بنانا ہے اور اسکول/ کالج ڈراپ آؤٹ ہونے والے اور محلوں کے نکّڑ آباد کرنے والے لڑکوں کو تعلیمی دھارا سے جوڑنے کا کام جنگی پیمانے پر کرنا ہے۔ 
(۸) گاؤں گاؤں، شہر شہر، محلہ محلہ اور گلی گلی کی خاک چھاننے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلمانوں کے ہر خاندان کو ایک کائونسلر کی ضرورت ہے جو اُن کی نفسیاتی تعلیمی و معاشرتی مسائل پر رہنمائی کر سکے۔ لہٰذا کاؤنسلنگ یا رہنمائی کو ہمارے معاشرے میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ رہنمائی کے اجلاس ہر محلے میں مسلسل منعقد ہوتے رہیں اور اُن سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارا ہر ٹیچر ہفتے میں ایک گھنٹہ کسی بلڈنگ، چال میں جا کر طلبہ و طالبات کی تعلیمی و نفسیاتی رہنمائی کرے اور اُس کے لئے حکومت کے کسی جی آر کا انتظار نہ کرے۔ لڑکوں کے ڈراپ آوٹ کی بناء پر مسلم قوم کے حالات بالکل دھما کہ خیز موڑ پر پہنچ چکے ہیں، اسلئے تعلیمی جہاد میں اساتذہ کو عملی طور پر متحرک ہونا اب لازمی ہے۔ اس ضمن میں ہمارے سبکدوش اساتذہ بہت بڑا اور کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ 
(۹) لڑکے اعلیٰ تعلیم کے ضمن میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ اُس کی ایک بڑی وجہ بلاشبہ والدین کی بے صبری اور غیر دُوراندیشی ہے۔ کم از کم ہمارے والدین اعلیٰ تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں کہ اُس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں والدین کی رہنمائی کے اجلاس ہر ہفتے نہ سہی البتہ ماہانہ ہونا ضروری ہیں اور اُنہیں واضح طور پر سمجھایا جائے کہ (الف ) زندگی میں قلیل مدّتی فائدوں کے پیچھے اپنے بچوں کو وہ خود دوڑا رہے ہیں (ب) اپنے بیٹوں پر، گھر میں چولہا جلنے کا ایندھن، یہ لیبل والدین نے لگایا ہے (ج) ہر بچہ تن آسانی چاہتا ہے البتہ بڑی آسانی سے اوربڑی جلدی کمانے کیلئے اُنہیں آمادہ والدین ہی کرتے ہیں لہٰذا بیٹے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر رہے اُس کے براہِ راست ذمہ دار والدین قرار پا رہے ہیں۔ 
(۱۰) ہمارے گھروں میں آج والدین اور خصوصاً بیٹوں کے ساتھ ربط اور تبادلۂ خیال ( یا ڈائیلاگ) کی بڑی کمی ہے۔ والدین جس بیٹے پر شرمیلا، غصہ وراور کم گو وغیرہ کے لیبل لگاتے ہیں اُس بیٹے کو نکّڑوں پر جا کروہ دیکھیں تو وہ حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ وہی بیٹا وہاں اپنے دوستوں کے ساتھ کس قدر دل کھول کر ہنستا ہے اور ہر بحث میں حصہ لیتا ہے۔ ایک الگ ہی روپ دیکھنے کو ملے گا وہاں اپنے بیٹے کا ! اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے بیٹے میں بنیادی کوئی نقص نہیں ہے، وہ شرمیلا، کمگو اور غصہ ور وغیرہ کچھ نہیں ہے بلکہ نقص گھر کے ماحول میں ہے۔ گھر میں اسے تبادلہ خیال کرنے اور اپنی بات کہنے وغیرہ کی کوئی آزادی نہیں ہے۔ والدین کے پاس اپنے بیٹے کی بچکانہ، بے سروپا اور ’بکو اس‘ سننے کیلئے وقت بھی نہیں ہے لیکن اُس کے دوستوں کے پاس وہ ہے۔ 
(۱۱) والدین یہ بھی سوچیں کہ والدین بچوں کی تربیت کی مشقت سے بری ذمّہ ہونے کیلئے کہیں بہت جلد اپنے بچوں پر اس طرح لیبل تو نہیں لگا ر ہے مثلاً (الف) بچے نے معمولی ضد کی تو اُسے نافرمان قرار دیا (ب) شرارت کی تو اُسے آوارہ قرار دیا (ج) کسی ایک مضمون میں فیل ہوا تو اُسے کند ذہن کہہ دیا (د) کتا بیں اور بیاضیں وغیرہ کی بے ترتیبی پر پاس پڑوس کے لوگوں کو کہہ دیا کہ اُن کے بیٹے جیسا غیر ذمہ دار بیٹا کوئی نہیں اور (ہ) ہر بار اپنے بیٹے کے تعلق سے بات کرتے وقت یا تو اپنا سر پکڑ لیا یا اللہ پناہ، خدا پناہ، خدا بچائے اس سے اس کا تو اللہ ہی حافظ ہے وغیرہ وغیرہ کلمات استعمال کرتے رہے! والدین کی یہ ساری حرکات اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لئے ہی ہوتی ہیں اور کچھ نہیں !
خواتین و حضرات ! آپ کے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے راغب کرانا بہت زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ضرورت ہے ہماری مثبت فکر، واضح ویژن یا دور اندیشی اور بیٹوں کے تعلق سے اپنے مفروضات و نظریات کو مکمل تبدیل کرنے کی! اور پھر وہ صبح یقیناً آئے گی جب بیٹے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے اور سماج کا بگڑا توازن پھر سنبھل جائے گا۔ انشاء اللہ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK