• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فسطائی عناصر کی بلڈوزر سیاست سماجی ڈھانچے کو منہدم کر رہی ہے

Updated: July 21, 2024, 5:31 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

گزشتہ ماہ لکھنؤ کے اکبر نگر میں ۱۸؍ سو سے زائد عمارتوں کو سرکاری حکم پر زمین بوس کر دیا گیا، ان عمارتوں میں تقریباً ۱۲؍ رہائشی عمارتیں تھیں، آج ان میں سے بیشتر بے گھر ہیں۔

In Akbar Nagar, a large population came on the road. Photo: INN
اکبر نگر میں دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی آبادی سڑک پر آگئی۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ دس برسوں کے دوران ملک کی سیاست میں بہت کچھ ایسی تبدیلیاں ہوئی ہیں جن کا سماج پر منفی اثر ظاہر ہونے لگا ہے۔ تعصب زدہ سیاسی رویے نے عوام کو مذہبی منافرت کے جس راستے پر ڈال دیا ہے اس کے سبب نہ صرف موجودہ سماج کو مختلف طرح کے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ اس نفرت اور تعصب کی فضا میں پروان چڑھنے والی نسل مستقبل میں بھی سماجی امن و اتحاد کیلئے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ اس سیاست نے سماجی انصاف اور قانون کی بالادستی کے اس تصور کو بھی بڑی حد تک دھندلا کر دیا ہے جو انصاف کے عمل میں شفافیت اور غیر جانبداری کو ناگزیر قرار دیتا ہے۔ ارباب اقتدار کے ذریعہ انصاف کی فراہمی اور قانون کی بالادستی کے عنوان سے کئی ایسے اقدامات کئے گئے جو آئین میں درج سماجی انصاف کی تعریف سے بالکل برعکس ہیں۔ ایسے ہی اقدامات میں ایک اقدام بنام انصاف بلڈورز کا وہ سیاسی استعمال ہے جو ملک کے سماجی ڈھانچے کو منہدم کر رہا ہے۔ 
 ہندوستانی سیاست میں بلڈوزر کو’ مقبول‘ بنانے کا سہرا یوپی کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کے سر ہے۔ انھوں نے فوری انصاف کے عنوان سے مبینہ شر پسند عناصر کے مکانات اور دیگر ٹھکانوں کو زمیں بوس کرنے کا جو طرز اختیار کیا وہ صریح طور پر سماجی ڈھانچے کو کمزور بناتا ہےلیکن ان کے اس طرز سیاست کا اتباع مدھیہ پردیش، گجرات اور ہریانہ کی ریاستی بی جے پی حکومتوں نے بھی کیا۔ اس طور سے انصاف فراہم کرنے کا دعویٰ کرنے والے ان متعصب سیاست دانوں نے بلڈوزرکو ایک ایسا سیاسی آلہ بنا دیا جو مبینہ شر پسند عناصر کے ٹھکانوں کو منہدم کرنے کے ساتھ ہی ان عمارتوں کو بھی نشانہ بناتا ہے جس کے مکین یا مالکان ان لیڈروں یا ان کی حکومتوں سے کسی بھی سطح پر اختلاف رکھتے ہیں۔ اس طرز کی انتقامی کارروائی کی تفصیل کو منظر عام پر لانے والی کئی رپورٹس اور سروے اب تک شائع ہو چکے ہیں۔ حقوق انسانی کے تحفظ اور سماجی انصاف کو یقینی بنانے کیلئے کام کرنے والی کئی غیر سرکاری تنظیموں نے بھی اس طرز انصاف کو قانون کی پامالی کے مترادف قرار دیا ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی ایسے طرز انصاف کو انسانیت سوز اقدام قراردیا گیا۔ اس کے باوجود بلڈوزر کو انصاف کی علامت قرار دینے والا سیاسی رویہ ان آوازوں پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہے۔ لیکن اب عوام کو بڑی حد تک یہ سمجھ آ گئی ہے کہ ’بلڈوزر بابا‘ اور ’بلڈوزر ماما‘کی جئے کار کبھی ان کو بھی مایوسی اور محرومی کا شکار بنا سکتی ہے۔ 
 بلڈوزر کا یہ طرز استعمال فسطائی سیاست کاایسا حربہ بن چکا ہے جس میں مبینہ شرپسند عناصر کے ساتھ ہی ان تعمیرات کو بھی ہدف بنایا جاتا ہے جو ’ناجائز تعمیرات‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔ گزشتہ ماہ لکھنؤ کے اکبر نگر میں ۱۸؍ سو سے زیادہ عمارتوں کو سرکاری حکم پر زمین بوس کر دیا گیا۔ ان عمارتوں میں تقریباً ۱۲؍ سو رہائشی عمارتیں تھیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:اقتدار سے قربت اور دولت کی فراوانی کی بھونڈی نمائش

اکبر نگر کے عوام نے اپنے ٹھکانوں کے تحفظ کیلئے قانونی لڑائی بھی لڑی لیکن ریاستی حکومت ہی کو اس لڑائی میں کامیابی ملی۔ کورٹ نے ریاستی حکومت کی اس دلیل کو تسلیم کر لیاکہ یہ تعمیرات سرکاری املاک پر ناجائز قبضہ ہیں۔ اس دلیل میں علاقہ کو ’گرین زون‘ بنانے اور ککریل ندی کے احیا کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے کی جغرافیائی صورتحال میں جو تبدیلی واقع ہو چکی ہے، اس کے پیش نظر ان دعوؤں کو وجودی شکل عطا کرنے میں حکومت کو خاصی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے کو کسی حد تک ’ خطہ سبز‘ کی شکل تو عطا کی جا سکتی ہے لیکن ککریل ندی کا احیا ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔ ایسی صورت میں انہدامی کارروائی کا ایک بڑا جواز کمزور ثابت ہو جائے گا جس سے یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوتا ہے کہ علاقے کے عوام کو نقل مکانی پر مجبور کرنے اور متعدد افراد کو ان کی روزی روٹی کے مراکز سے محروم کر دینے والی حکومت نے علاقے کا سروے صحیح ڈھنگ سے نہیں کروایا یا پھر اس معاملے کو اپنے اختیار اور انا کا مسئلہ بنا لیا۔ 
 اقتدار کی نظر میں مبینہ شر پسند وں کے خلاف بلڈوزر کارروائی یقینی طور پر قانون اور انصاف سے وابستہ انسانی تقاضوں کو پامال کرتی ہے۔ اسی طرح ناجائز قبضوں کے انہدام کو بھی مکمل طور پر مبنی بر انصاف نہیں کہا جا سکتا۔ اقتدار جن تعمیرات کو ناجائز قرار دے کر منہدم کر دیتا ہے وہ آناً فاناً وجود میں نہیں آ جاتیں۔ کسی انسان کو اپنا رہائشی ٹھکانہ یا کوئی تجارتی اور صنعتی مرکز تعمیر کرنے میں ہفتوں اور بعض اوقات مہینوں کی مدت درکار ہوتی ہے۔ اس مدت کے دوران تعمیر سے متعلق مختلف امور کی تکمیل میں ان سرکاری محکموں کا تعاون ناگزیر ہوتا ہے جو ان تعمیرات کیلئے لائٹ، پانی اور صفائی جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان محکموں کے ملازمین کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ جن تعمیرات کو وہ سہولتیں فراہم کر رہے ہیں وہ تعمیرات حکومت کی نظر میں ناجائز ہیں ؟ اس سوال کے جواب پر زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کیوں کہ ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ اس طرح کے ناجائز قبضے والی زمینوں پر جو بھی تعمیرات ہوتی ہیں ، ان سے یہ سرکاری ملازمین دانستہ طور پر نہ صرف واقف ہوتے ہیں بلکہ اضافی آمدنی کی لالچ میں ان تعمیرات کیلئے راہ بھی ہموار کرتے ہیں۔ یہ معاملہ صرف سرکاری ملازمین تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ ارباب اقتدارکی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہوتا ہے لیکن وہ اپنی سیاسی اور مالی منفعت کے پیش نظریہ سب کچھ ہونے دیتے ہیں۔ جب یہ تعمیرات سیکڑوں ، ہزاروں افراد کی جائے پناہ اور تجارتی و کاروباری مراکز کے طور پر ایک بستی کی شکل اختیار کر لیتی ہیں ، تب سیاسی منظرنامہ پر ہونے والی تبدیلی کے سبب اقتدار کے غیظ و غضب کا نشانہ بنتی ہیں۔ اقتدار اور سرکاری ملازمین کی دانستہ لاپروائی کے سبب عام آدمی کے خواب ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں۔ 
 اس سلسلے میں اقتدار کے بعض حامی یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ ایسی انہدامی کارروائی کی زد پر آنے والوں کوبیشتر متبادل ٹھکانہ بھی حکومت کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ دلیل اپنی جگہ پرکسی حد تک درست بھی ہے اور اکبر نگر کی انہدامی کارروائی میں جن خاندانوں کے آشیاں اُجڑے، ان میں سے بعض کو متبادل ٹھکانہ حکومت کی جانب سے فراہم بھی کیا گیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے معاملات میں جو متبادل فراہم کیا جاتا ہے کیا وہ مالیت کے لحاظ سے اس پرانے ٹھکانے ہی کی مانندہوتا ہے جسے بنانے میں برسوں کی محنت کی کمائی صرف ہوتی ہے؟ اس سوال کا مقصد ناجائز تعمیرات کی حمایت کرنا نہیں ہے بلکہ اس حوالے سے یہ اہم نکتہ واضح کرنا ہے کہ جس وقت ایسی تعمیرات کا آغاز ہوتا ہے اگر اقتدار اور سرکاری ملازمین، بدعنوانی کے پھیر میں پڑے بغیر ایسی تعمیرات کو روک دیں تو معاملہ اس حد تک پیچیدہ صورت نہ اختیار کرے۔ سرکار کو یہ اختیار ہے کہ وہ ہر غیر قانونی اور ناجائز امر کی روک تھام کیلئے موثر اقدام کرے لیکن ایسے اقدامات کو عملی شکل دینے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ کسی بھی طرح کے تعصب اور مصلحت کو درکنار کرتے ہوئے بالکل ابتدائی مرحلے پر ہی کارروائی کی جائے جس سے ہزاروں افراد کی برسوں کی محنت پر پانی نہ پھرے اور ان کی زندگی انتشار کا شکار نہ ہو۔ 
 حکومت کے ذریعہ کی جانے والی بلڈوزر کارروائی سے وابستہ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسی کارروائیوں کی زد پر بیشتر وہی بستیاں آتی ہیں جہاں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی اکثریت ہوتی ہے۔ اسی طرح شر پسند عناصر کے خلاف اس طرز کی کارروائی کی زد پر بیشتر مسلمان ہی آتے ہیں اور ان کی رہائش اور کاروباری و تجارتی مراکز کو چشم زدن میں زمیں بوس کر دیا جاتا ہے۔ بلڈوزر کی یہ ہر دو طرح کی کارروائی اقتدار کے اختیارات کو تو ظاہر کرتی ہے لیکن اس سے انصاف کا عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ جن تعمیرات کو ناجائز قبضہ کہہ کر ڈھا دیا جاتا ہے، اگر واقعی ناجائز قبضہ ہے تو ایک بستی کی شکل اختیار کرنے سے قبل ہی اس پر قد غن لگانا چاہئے اور یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں جو اقتدار کی دست رس سے باہر ہو۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک وہ معاملات ہیں جن میں بنام انصاف ایک خانوادے اور خاندان کو بے سروسامانی کے عالم میں بھٹکنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ دس برسوں کے سماجی حالات کا جائزہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ایسے حالات کی مار بیشتر مسلمانوں ہی کو جھیلنا پڑ رہی ہے۔ یہ صورتحال تعصب زدہ سیاست دانوں اور نفرت کی فضاؤں میں پروان چڑھنے والے افراد کو کسی حد تک تسکین تو پہنچا سکتی ہے لیکن اس سے سماجی ڈھانچہ روز بہ روز عدم استحکام کا شکار ہورہا ہے اور یہ ایسا نقصان ہے جس سے معاشرہ طویل مدت تک مختلف مسائل اور پریشانیوں میں مبتلا رہ سکتا ہے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK