ایسے میں جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں، ان میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہےکہ اب داناو ناداں اور پڑھے لکھے و جاہل افراد کے درمیان فرق بہت کم رہ گیا ہے۔
EPAPER
Updated: January 07, 2024, 2:53 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
ایسے میں جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں، ان میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہےکہ اب داناو ناداں اور پڑھے لکھے و جاہل افراد کے درمیان فرق بہت کم رہ گیا ہے۔
انسانی مساوات کو سماجی ترقی کیلئے ناگزیر قرار دینے والے مفکرین اور مصالحین بھی اس بدیہی حقیقت کے قائل رہے ہیں کہ ہر انسان کی فکری سطح یکساں نہیں ہوتی۔ انسانی افکار میں پایا جانے والا یہ امتیازی رنگ ہی دراصل سماج میں اس تنوع کی راہ ہموار کرتا ہے جس پر گامزن رہ کر انسانی تمدن کا کارواں اس منزل پر پہنچا ہے جسے بلاشبہ نوع انسانی کی جودت ذہنی اور عملی قوتوں کا نمایاں ثبوت کہا جا سکتا ہے۔اس وقت عالمی سطح پر انسانی رویہ اور افکار کا اظہار جن صورتوں میں ہو رہا ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ اب ترقی کا یہ سفر اس راہ پر مڑ گیا ہے جہاں فکری امتیاز کا کوئی معاملہ ہی نہیں ہے ۔ اگر اس صورتحال کو خصوصی طور سے وطن عزیز کے تناظر میں دیکھیں تو یہاں ملک و سماج کی ترقی اور خوشحالی سے وابستہ بیشتر معاملات میں آبادی کا بڑا حصہ ایک ہی صف میں کھڑا نظر آتا ہے۔اس طرح ہر کسی کا ایک مرکز پر جمع ہو جانا کوئی غلط بات نہیں ، اگر اس اتحاد کا مقصد غیر امتیازی طور پر ملک و معاشرہ کی مجموعی ترقی اور خوشحالی ہو۔ اگر چہ اس مرکز پرجمع بیشتر افراد دعویٰ تو یہی کرتے ہیں لیکن اس دعوے کی حیثیت محض زبانی ہوتی ہے۔ اس مرکز اتحاد پر نمایاں رہنے والے بیشتر افراد وہ ہیں جو دھرم آمیز سیاست کے دام میں الجھے ہوئے ہیں۔
اس کی وجہ سے معاشرتی اور معاشی سطح پر جو مسائل پیدا ہوئے ہیں اور مسلسل ہو رہے ہیں ، ان میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب داناو ناداں ، دانشمند اور کم عقل اور تعلیم یافتہ و ناخواندہ افراد کے درمیان فرق بہت کم رہ گیا ہے۔ اگر معاملہ سیاست یا مذہب سے وابستہ ہو تو یہ فرق بالکل مٹ جاتا ہے اور دائیں محاذ کے سیاسی و مذہبی افکار و نظریات کا غلبہ اس حد تک ذہنوں پر حاوی ہو جاتا ہے کہ علم و منطق کی تمام باتیں بے معنی ہو جاتی ہیں ۔اس وقت ملک کے سماجی رویہ کی یہ ایک ایسی الم ناک صورت ہے جس سے کم ہی لوگ مستثنیٰ ہوں گے۔ فکری سطح پر در آنے والی اس یکسانیت نے انسانی رویہ میں جن رجحانات کو بڑھاوا دیا ہے وہ مخلوط آبادی والے سماج کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہیں ۔گزشتہ دس برسوں سے اس کا اظہار مختلف صورتوں میں ہوتا رہا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس طر ز اظہار میں ان افراد کو خاصا نقصان اٹھانا پڑتا ہے جو اس بھیڑ چال سے الگ اپنی زندگی کا لائحہ عمل ملک و معاشرہ کی حقیقی صورتحال اور اپنی ذہنی استطاعت کو مد نظر رکھتے ہوئے طے کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: انصاف کا حصول اب وقار کی پامالی سے مشروط ہو گیا ہے
مادی سہولیات اور مالی وسائل کے معاملات میں اگر سماج کی اکثریت ایک سطح پر آجائے تو بلاشبہ یہ حقیقی ترقی کی علامت ہے لیکن اگر پورا معاشرہ فکری معاملات میں یکساں ہو جائے تو اسے ذہنی تنزل ہی کہا جا ئے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت ملکی سطح پر یہ صورتحال ایک عمومی انسانی رویہ کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں وہ لوگ بھی شامل نظر آتے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا دامن علم کی دولت سے بھرا ہوا ہے اور زندگی کے معاملات میں منطقی و معروضی طرز عمل پر کار بند رہنا ان کی شناخت کا اہم حوالہ ہے۔ اس طبقہ کا دوسروں کے برابر آجانا ان کے افکار کی اس تنگی کو نمایاں کرتا ہے جو دھرم اور دائیں محاذ کے سیاسی نظریات کی زائیدہ ہے۔ اس تنگی سے نکلنے کیلئے جو فکری رویہ درکار ہے اس سے اس طبقہ کا دامن فی الحال خالی ہی نظر آتا ہے۔ ایک دہائی قبل عوامی سطح پر جس سیاسی نظریہ کی تشہیر بڑے زور و شور سے کی گئی اس کا اثر اب سماجی سطح پر انسان کے افکار و اعمال میں ظاہر ہورہا ہے۔ اس اثر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اب سماجی فلاح و بہبود کے بیشتر معاملات ثانوی حیثیت حاصل کر چکے ہیں اور ترجیح ان معاملات کو حاصل ہو گئی ہے جن کا تعلق ایک خاص مذہبی عقیدے سے ہے یا دائیں بازو کی سیاست کے پیدا کردہ وہ معاملات جن کا مقصد سماج کے ایک خاص طبقہ کی فلاح و ترقی ہے۔
اب سے قبل عموماً یہی کہا جاتا تھا کہ سماج میں فکری سطح پر جو امتیاز پایا جاتا ہے وہ نوع انسانی کو زندگی کی پیچیدہ راہوں میں الجھنے سے محفوظ رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ اس امتیاز کا فائدہ یہ ہے کہ فہم و دانش کی اعلیٰ سطح پر فائز افراد جن تجربات و مشاہدات سے دوچار ہوتے ہیں اور اس عمل سے گزرنے کے بعد وہ جن نتائج سے ہمکنار ہوتے ہیں ان نتائج سے سماج کے دیگر افراد کو وہ آگہی حاصل ہوتی ہے جو زندگی کے بیشتر معاملات میں ان کی رہنمائی کرتی ہے۔ فکری اعتبار سے معاشرے کا یہ ممتاز طبقہ ہی حیات و کائنات کے متعلق ان اصول و نظریات کو تشکیل دیتا ہے جو نوع انسانی کے سفر زیست میں زاد راہ کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اب یہ طبقہ بھی اس سطح پر نظر آتا ہے جہاں اس کا فکری تشخص ختم ہو گیا ہے۔ اس صورتحال کے پیدا ہونے کا ایک بڑا سبب سیاسی اور مذہبی معاملات میں پیدا ہونے والا وہ شدت پسند رویہ ہے جو صرف اور صرف خود کو ہی حق بہ جانب سمجھتا ہے ۔اس ضمن میں مزید تشویش ناک سچائی یہ ہے کہ بہ ظاہر ذہانت کی اعلیٰ سطح کے حامل افراد انہی باتوں کی تشہیر کرنے لگے ہیں جن باتوں کو عیار قسم کے سیاسی لیڈر ملک و معاشرہ کی بدیہی حقیقت کے طور پر رائج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔فکری امتیاز سے محروم سماج میں اس طرز کی کوششیں جلد ہی مقبول ہونے لگتی ہیں اور پھر یہ صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ عہدہ ومنصب کے اعتبار سے بلند مرتبہ کے حامل افراد بھی ویسی ہی پست اور سطحی باتیں کرنے لگتے ہیں جیسی کہ ایک معمولی یا کم حیثیت علمی و سماجی شناخت رکھنے والے افراد کرتے ہیں ۔
اس صورتحال نے اس سماجی کیفیت کو بھی بڑی حد تک تبدیل کر دیا ہے جس میں شر و فساد کیلئے عموماً اس طبقے کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا ہے جس کا دامن علم و حکمت سے خالی ہوتا ہے۔ دھرم آمیز سیاست کے سبب پیدا ہونے والے انسانی رویے نے ہر دو کے متعلق عالم و جاہل کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کیا ہے ۔اس کا فائدہ وہ سیاسی اور مذہبی عناصر دھڑلے سے اٹھا رہے ہیں جو بیشتر حقیقت سے ماورا اپنی لچھے دار باتوں سے عوام کا جذباتی استحصال کو ترجیح دیتے ہیں ۔ دلچسپ سچائی یہ بھی ہے کہ اس طرز استحصال کا ہدف بننے والے اسے اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں ۔ گویا انھیں اپنے معاشی مسائل اور سماجی معاملات میں پیدا ہونے والی پیچیدگی سے زیادہ ان باتوں میں لطف آنے لگا ہے جو اُن کے پسندیدہ سیاسی یا مذہبی لیڈر کے ذریعہ کہی جائیں۔
اس وقت سماجی مفکر اور زندگی کے دیگر شعبوں میں ماہرکے طور پر شناخت رکھنے والے بیشتر افراد بھی اس فکری امتیاز سے محروم نظرآتے ہیں جو امتیاز نہ صرف مسائل حیات کا درک حاصل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے بلکہ جس کی وجہ سے بیشترسماجی اور تہذیبی معاملات کی حقیقی نوعیت سے آگہی ہوتی ہے۔ چونکہ اب یہ آگہی اس نام نہاد دانشور طبقہ سے عنقا ہوتی جا رہی ہے لہٰذا یہ طبقہ سماج و تہذیب اور معیشت کے متعلق جن افکار کا اظہار کرتا ہے اس میں بیشتر سطحی پن ہی پایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی سطحی باتیں کسی ملک یا معاشرہ کی ترقی کیلئے نئے در وا کیا کریں گی بلکہ ان کے سبب حالات اس رخ پر مڑ جاتے ہیں کہ پہلے سے جاری فلاحی و ترقیاتی کاموں میں بھی رخنے پڑ جاتے ہیں ۔ یہ صورتحال ان فسطائی عناصر کو حوصلہ عطا کرتی ہے جو اپنے افکار و نظریات کو عوامی سطح پر مقبول بنانے میں کوشاں ہوتے ہیں ۔اس وقت ملک گیر سطح پر ان عناصر کا دبدبہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
انسانی رویہ میں تبدیلی سماج کی ایسی سچائی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس سچائی کو سماج کی ترقی اور خوشحالی کے معاملے میں نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے ۔ لیکن اگر یہ تبدیلی منفی رجحانات کو بڑھاوا دینے والی ہو تو اس کے متعلق فکر مند ہونا چاہئے۔ سماجی سطح پر فکری امتیاز کا منہا ہونا دراصل سماج کا اسی راہ پر جانا ہے جو راہ زندگی کے بیشتر معاملات کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بناتی ہے ۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسانی قدروں کی ہیئت اس قدر تبدیل ہو جاتی ہے کہ بعض معاملات میں انسان اور حیوان کے طرز عمل میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مادی آسائشوں پر فریفتہ انسانی سماج اس وقت انہی حالات سے دوچار ہے اور اگر یہ سلسلہ تادیر باقی رہا تویہ دور انسانی تمدن کیلئے سنگین مسائل کے پیدا ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔