Inquilab Logo Happiest Places to Work

انصاف کا حصول اب وقار کی پامالی سے مشروط ہو گیا ہے

Updated: December 31, 2023, 3:54 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

کشتی کو الوداع کہتے ہوئے ساکشی ملک نے جو کچھ کہا، اس سے یہ واضح ہو گیا کہ باہوبلی قسم کے نیتاؤں کے آگے تمام اصول اور ضابطے ہیچ نظر آتے ہیں۔

However, the struggle of the wrestlers paid off, but justice has not been done to them yet. Photo: INN
کشتی پہلوانوں کی جدو جہد بہرحال رنگ لائی لیکن ان کے ساتھ انصاف ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ تصویر : آئی این این

کشتی کے کھیل میں  ملک کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والی ساکشی ملک نے جب کشتی چھوڑنے کا اعلان کیا تو وہ لمحہ انصاف کے حصول کی راہ کو پیچیدہ ترین بنا دینے والے ارباب اقتدار کے اس دبدبے کو نمایاں  کر رہا تھا جس کے آگے آئین و قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے والے ادارے بھی بے دست و پا نظر آئے۔پریس کلب میں  میڈیا کے سامنے پر نم آنکھوں  سے کشتی کو الوداع کہتے ہوئے ساکشی ملک نے جو باتیں  کہیں ، ان سے ایک بار پھر یہ واضح ہو گیا کہ باہوبلی قسم کے نیتاؤں  نے سسٹم پر اس حد تک قبضہ کر رکھا ہے کہ ان کی مرضی کے آگے تمام اصول اور قاعدے ہیچ نظر آتے ہیں  ۔ساکشی ملک کے اس انتہائی جرات مندانہ فیصلے کا اثر سیاسی گلیاروں  پر پڑنا فطری تھا خصوصاً بر سر اقتدار بی جے پی میں  جو سیاسی ہلچل پیداہوئی اس کے نتیجہ میں  مرکزی حکومت نے نوتشکیل شدہ ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے پورے عملے کو معطل کر دیا۔اس تمام صورتحال کو سیاسی و سماجی تناظر میں  دیکھنے پر جو حقائق آشکار ہوتے ہیں  ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلوانوں  نے گزشتہ ایک سال سے فیڈریشن  کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف جو مورچہ کھول رکھا تھا، اقتدار اور اقتدار نواز اداروں  نے اس پر قدغن لگانے کی ہر ممکنہ کوشش کی ۔ اس کوشش کے تحت ان پہلوانوں  کو کبھی طاقت اور رسوخ کی دھونس دکھائی گئی اور کبھی ان سے پر فریب وعدے کئے گئے ۔ان کے مطالبات کو قانون اور آئین کے سیاق میں  دیکھنے کے بجائے اس میں  علاقائی اور مذہبی تعصب کا رنگ بھرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کوشش میں  اقتدار اور میڈیا دونوں  برابر کے شریک رہے ۔ لیکن اب جبکہ ساکشی ملک نے کشتی سے اپنی دستبرداری کا اعلان کر دیا اچانک اقتدار کو یہ محسوس ہونے لگا کہ اگر اپنے پسندیدہ ایم پی کی خواہش کے احترام کو بہر صورت ترجیح دینے کا سلسلہ جاری رہا تو آئندہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات پر اس کا منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ ساکشی ملک کے اعلان کے بعد جاٹ برادری کی جانب سے غم اور غصہ کی جو آوازیں  اٹھنے لگی تھیں  ان سے بی جے پی کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ہریانہ ، راجستھان اور مغربی یوپی کے ان علاقوں  میں اس کی سیاست کو دھچکا لگ سکتا ہے جہاں جاٹوں کے ووٹ انتخابی سیاست میں  فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: تشدد کی پزیرائی کا بڑھتا رُجحان، اہم سماجی مسئلہ بن گیا ہے

 نو منتخب کشتی فیڈریشن کو معطل کرنے کا فیصلہ کشتی پہلوانوں  کی جدو جہد کو حق بہ جانب ثابت کرتا ہے اور اس امکان کو بھی روشن کرتا ہے کہ ان کے مطالبات پر اقتدار اب سنجیدگی سے غور کرے گا ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر آئندہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات کا معاملہ پیش نظر نہ ہوتا تو کیا ساکشی کے استعفیٰ کا یہ اثر ظاہر ہوتا؟ اس سوال پر غور کرنا اسلئے بھی ضروری ہے کہ جب اپریل میں ان پہلوانوں نے احتجاج شروع کیا تھا تو اس وقت اقتدار نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ دہلی پولیس نے برج بھوشن کے خلاف جو ایف آئی آردرج کی تھی اس کی حیثیت بھی محض خانہ پری کی تھی ۔اس وقت کشتی پہلوانوں  نے بارہا وزیر اعظم سے درخواست کی تھی کہ ان کے معاملے پر توجہ دیں  لیکن اس وقت ان کا رویہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینے والا تھا۔ اب اچانک اگر حکومت کو یہ لگنے لگا ہے کہ کشتی پہلوانوں  کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے تو اس کا سبب پارلیمانی انتخابات کا خوف ہے۔
 اقتدار نواز میڈیا نے حسب عادت ساکشی ملک کے استعفیٰ اور ان کی حمایت میں  بجرنگ پونیا اور گونگا پہلوان کے ذریعہ ایوارڈ واپسی پر یا تو خاموشی اختیار کر رکھی تھی یا اگر کچھ کہا بھی تو اس میں ان کھلاڑیوں کے فیصلے سے عدم اتفاق کا عنصر نمایاں  رہا۔ بعض چینلوں  اور خاص طور سے سوشل میڈیا پر سرگرم نام نہاد میڈیا کے کارندوں  نے ساکشی ملک، بجرنگ پونیا ، ونیش پھوگاٹ اور ان کی حمایت کرنے والوں  سے نہ صرف اختلاف ظاہر کیا بلکہ ان کو بدنام کرنے میں  بھی کوئی کسر نہیں  اٹھا رکھی۔ میڈیا سے وابستہ ان عناصر نےعوام کے درمیان یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ جیسے ان کھلاڑیوں  کو اپنے وطن کی عزت اور وقار کی مطلق پروا نہیں  ہے۔ اس تشہیر کا یہ اثر ہوا کہ سوشل میڈیا پر ان کھلاڑیوں کے خلاف نفرت آمیز باتیں  گردش کرنے لگیں۔
 اقتدار اور اقتدار پرست میڈیا کا یہ طرز عمل ہر اُس معاملے میں  دیکھا جا سکتا ہے جس میں  حق و انصاف کے مطالبے کو اقتدار کے ذریعہ سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ یہ صورتحال نہ صرف انصاف کی فراہمی کے عمل کو پیچیدہ بناتی ہے بلکہ اس سے ان عناصر کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے جو اپنی ہر خواہش کی تکمیل اپنے رسوخ کے دم پر کرنے میں  یقین رکھتے ہیں  ۔ ان عناصر کا یہ رویہ اگر صریح طور پر آئین اور قانون کے برعکس ہو تو بھی وہ ا پنے رعب داب سے حالات کو اپنے موافق بنا لیتے ہیں  اور اسی بنا پر دبدبہ ہے اور دبدبہ تو رہے گا جیسے دعوے کئے جاتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا اب مقتدر شخصیات کی قد آوری اس مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں  آئین اور قانون کی پاسداری ان پر واجب نہیں  رہی؟ گزشتہ ایک دہائی کے دوران کئی ایسے معاملات رونما ہو چکے ہیں  جو اس سوال کا جواز فراہم کرتے ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سماج میں  ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو ہر معاملے میں  اقتدار کی حمایت کو فرض اولین سمجھنے لگا ہے۔ اس طبقے کو اس سے کوئی غرض نہیں  کہ طاقت کے زعم میں  مبتلا عناصر کس طرح ملک کے سیکولر کردار کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔اس طبقہ نے کشتی پہلوانوں  کے معاملے  میں  بھی اقتدار اور اقتدار نواز میڈیا کے ہر اقدام کی حمایت کی۔
 کشتی کھلاڑیوں  کے اس معاملے میں اس تلخ حقیقت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے جو موجودہ حالات میں  تقریباً ہر ادارے کی سچائی بن چکی ہے۔ اس وقت سرکاری ، نیم سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں  اعلیٰ عہدوں  پر فائز افراد کا رویہ ایسا ہو گیا ہے کہ وہ خود کو تمام طرح کے قواعد و ضوابط سے بالاترسمجھنے لگے ہیں ۔کشتی فیڈریشن کی طرح دیگر اداروں  کے ارباب حل و عقد اقتدار سے اپنی قربت کی بنا پر ادارے کو اپنی مرضی کا تابع بنانے والا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ اس طرز عمل سے ان لوگوں  کو خاصی پریشانیوں  کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اُن کے ماتحت ہوتے ہیں ۔ ان میں  بعض ایسے بھی ہوتے ہیں  جو صحیح اور غلط کی تفریق کو بہر صورت برقرار رکھنے پر یقین رکھتے ہیں  اور اس کے عوض میں  انھیں  مختلف طرح کی مالی ، نفسیاتی اور جسمانی اذیتوں  کو گوارا کرنا پڑتا ہے ۔ اس وقت ملک گیر سطح پر جو سماجی اور اقتصادی حالات پیدا ہوگئے ہیں  ان کے سبب حساس عوام مسلسل عدم تحفظ کے احساس سے دوچار ہیں  اورسیاسی جماعتیں  اسی کا فائدہ اٹھارہی ہیں ۔ ایسے میں  اگر کوئی حق و انصاف کا طلبگار ہوتا ہے تو اسے انہی اذیتوں  سے دوچار ہونا پڑتا ہے جو ان کھلاڑیوں  اور اس سے قبل کسانوں  کو اٹھانا پڑیں۔
یہ صورتحال اس بنیادی سوال پر غور کرنے کا مطالبہ کرتی ہے کہ کیا اب انصاف کے حصول کیلئے اپنے وقار سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا؟ آخر کیوں  اقتدار نے کھلاڑیوں کے مطالبات کو اس وقت ہی نہیں سن لیا جبکہ وہ دہلی میں  احتجاج کر رہے تھے ؟ کشی فیڈریشن کو معطل کرنے کے فیصلے کو ان کھلاڑیوں کی کامیابی کہا جارہا ہے اور ایساکہنا کسی حد تک درست بھی ہے لیکن کامیابی کے مرحلے تک پہنچنے میں  کھلاڑیوں کو کن اذیت ناک دشواریوں سے گزرنا پڑا اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ساکشی اپنے استعفیٰ کا اعلان نہ کرتیں تو کیا یہ جزوی کامیابی بھی ان کھلاڑیوں  کو نصیب ہوتی ؟یہ سوالات آئین اور قانون کی پاسداری اور ارباب اقتدار کے آمرانہ رویہ کی وہ حقیقت بیان کرتے ہیں  جس نے حق و انصاف کی فراہمی کے عمل کو اقتدار کی مرضی کا تابع بنا دیا ہے۔جب تک اس صورتحال میں  تبدیلی نہیں  ہوگی تب تک عوام کے مفاد کے تحفظ کا دعویٰ حتمی طور پر نہیں  کیا جا سکتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK