علم کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ بانٹا جائے۔ دانشوری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اُن کی صلاحیتوںسے عوام النّاس بھی استفادہ کریں۔ اگر آپ باصلاحیت اور دانشورہیں تو اس کا شکر اداکرنا چاہئے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندے ہیں، اسلئے آپ کی ذمہ داریاں دیگر بندوں سے کہیں زیادہ ہیں۔
آزادی کی ۸؍دہائیوں کے ہمارے جملہ معاملات کا جب جب بھی ہم جائزہ لیں گے کہ ہماری پیش رفت میں اُن میں سے کون لوگ معاون ثابت ہوئے اور وہ کون ہیں جو آج بھی رُکاوٹیں بنے ہوئے ہیں، تب تب تذکرہ ہماری قوم کے دانشوروں و اسکالر وں کابھی ہوگا۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی تشکیل و سرخروئی میں اُس قوم کے دانشور، اسکالر اور اشرافیہ طبقے کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی دانشور (الف) دیانت داری سے سوچتا ہے (ب) سماج و قوم کے حق میں کیا بہتر ہے اُس کا ادراک رکھتا ہے (ج) بصیرت کا حامل ہوتاہے (د) ابن الوقت یا موقع پرست نہیں ہوتا (ہ) اپنے موقف پر قائم رہتا ہے البتہ اُسے اپنے موقف میں کوئی خامی نظر آجائے تو دو قدم پیچھے بھی ہٹ جانے میں پس و پیش نہیں کرتا۔ ہماری قوم میں بھی کچھ اسکالر موجود ہیں۔ دانشور اوراِسکالر کی تعریف ہرسماج اور ہر حلقے میں مختلف ہوتی ہے۔ کہیں ریسرچ ڈاکٹروں کو اسکالر سمجھا جاتا ہے اور کہیں میڈیکل ڈاکٹروں کو۔ کہیں کالج یا یونیورسٹی کے کسی شعبے کے صدر کو دانشور کہا جاتا ہے اور کہیں دوچار کتابوں کے مصنف یا مولّف کو۔
آج بھی روئے سُخن ہمارے نوجوان ہی ہیں کہ کل جب وہ قابل بن جائیں گے، قوم کیلئے فکر کریں گے تب وہ قوم کیلئے حقیقی معنوں میں ایک اثاثہ ثابت ہوں گے، اسلئے ہم یہاں نام نہاد یا سرکاری دانشوروں کی بات نہیں کر رہے ہیں جو کبھی موٹی رقم دے کر کسی مشاعرے کی شمع روشن کرتے نظر آتے ہیں اور کہیں ۱۰۰؍کتابیں خریدنے کا وعدہ کرکے اُس کتاب کی رونمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں یا خود کی منعقدہ کسی ’آل انڈیا‘ کانفرنس کی صدارت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ خیر اس قسم کے دانشوروں کی تو قلعی کھُل ہی جاتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ہمارے حقیقی اسکالروں کا کیا حال ہے؟ جن کے پاس ڈِگریاں، اسناد و گولڈ میڈل کے علاوہ حقیقی علم بھی ہے، اثر و رسوخ ہے اور مرتبہ بھی ہے۔ نفسیات، عمرانیات نیز دستور حیات کے سارے اُصول و ضوابط سے بھرپور آگہی بھی ہے مگر جب اپنی سماجی و ملّی ذمہ داری نبھانے کا وقت آتا ہے تب ان میں سے کچھ لوگ دانستہ و نادانستہ آنکھیں موڑ لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:سائنس کے تعلق سے پائی جانے والی غفلت اور کوتاہیوں کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے
دانستہ اسلئے کہ وہ اپنی ذات کو اس درجہ اعلیٰ و ارفع سمجھتے ہیں کہ اُن کی ذات کے مرتبے تک کوئی پہنچ نہ سکے بلکہ پہنچنے کا تصوّر بھی نہ کرے۔ آخر ہم جنھیں دانش مند، ہوش مند اور خرد مند سمجھتے ہیں اور یہ کہ وہ قوم و ملّت کا بیش قیمت اثاثہ ہیں۔ وہ اسکالر حضرات خود غرض کیونکر ہوسکتے ہیں ؟ یہ بلند مرتبہ شخصیات نادانستہ طور پر قوم سے اسلئے آنکھیں مو ڑلیتی ہیں کہ اُنھیں معلوم ہوتا کہ قوم کِن آزمائشوں سے گزر رہی ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ قوم کا ایک بڑا طبقہ جاہل اسلئے ہے کہ وہ تنگ دست ہے اور تنگ دست اسلئے ہے کہ وہ جہالت کا شکار ہے۔ وہ اپنے ’معیار‘سے اُتر کر غُربت و مفلسی میں مبتلا افرادکی کوئی مدد یا رہنمائی بھی کرنا نہیں چاہتے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ طبقاتی نظام ہمارے یہاں کیسے آگیا؟ اس ملک کے اعلیٰ ذات والوں میں یہ رائج تھا۔ اُس کو ختم کرنے کیلئے پہلے راجہ رام موہن رائے اور پھر ڈاکٹر امبیڈکرنے ایک مؤثر تحریک چلائی جس کے ذریعے اکثر یتی فرقے کے اعلیٰ ذات والوں کے برتائو اور رویے کو کامیابی سے چیلنج کیا گیا البتہ سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ طبقاتی عصبیت کہاں سے آگئی؟ ہماری زندگی کا مینی فیسٹو تو خطبۂ حجۃ الوداع ہے جس میں پیغمبرؐ اسلام نے اعلان کیا تھا کہ نہ کسی عرب کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو کسی عرب پر، نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے سے۔ ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ہمارے یہاں ڈِگری، پوسٹ گریجویشن اور ڈاکٹریٹ کے بجائے انسان کی عظمت کا ایک ہی پیمانہ مقرر ہے اور وہ ہے : خوفِ خدا۔
ہمارے دانشوروں کی ایک روشن تاریخ ہے جس پر ہم جتنا ناز کریں ، کم ہے البتہ آزادی کی اِن ۸؍دہائیوں میں ہمارے دانشوروں کا ایک طبقہ قوم سے بالکل لاتعلق رہا اور عام لوگوں میں گھُل مِل جانے اور اُن کے دُکھ درد میں شریک ہونا بھی کسر شان سمجھتا رہا۔ اُن کی ڈگریاں، اُن کی کامیابیاں اور اُن کے رُتبے اُن کے اعصاب پر چھائے رہتے ہیں۔ اُن سے اگر یہ کہا جائے کہ اُن کی بستی یا محلّے میں درجن بھر بچّے ایسے ہیں جنھیں تعلیمی رہنمائی کی ضرورت ہے اگر وہ اُن بچّوں کی رہنمائی کی زحمت کریں .... یہ سنتے ہی وہ تنک اُٹھیں گے اور کہیں گے کہ ’’ میں گلی محلے کے بچّوں کی رہنمائی کروں ؟ جانتے ہیں آپ کس سے مخاطب ہیں ؟ ایک ریسرچ اسکالر سے جو نصف درجن کتابوں کا مصنف ہے۔ ارے دو درجن میرے مقالے تو عالمی سطح کے جرنل میں شائع ہوکر دادو تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ میں ڈبل پی ایچ ڈی بھی ہوں ....‘‘ ہمارے اس قبیل کے دانشوروں اور اسکالروں کا یہ رویّہ ہماری قوم کی پیش رفت میں ایک بڑی رُکاوٹ ہے۔ ہمارے یہ دانشور اپنے علم، نالج، ڈگریاں اور کامیابیوں کا صدقہ تک دینے کو تیار نہیں ہیں۔
آزادی کے ۷۵؍برس سے زیادہ عرصہ تو اس رویے میں گزرگیا۔ اب آئندہ کے اتنے ہی عرصے کی منصوبہ بندی کرتے وقت کیا ہم ایسے کسی ادارے یا انسٹی ٹیوٹ کا قیام کرنے کا سوچیں جن میں ہمارے دانشوروں اور اسکالروں کو تربیت دیں کہ (الف) سماج و معاشرے کے تئیں اُن کی ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ (ب) اُن کی ڈگریاں اور اُن کی دانشوری کے میڈل اُن کی طاقت بن جائیں، کمزوری نہیں۔ (ج) بانٹنے سے علم بڑھتا ہے اور اُن کے علم کی وقعت بھی (د) حصولِ علم ونالج وغیرہ اچھی بات ہے البتہ اُس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوجاتا ہے انکساری سے (و) اس قوم کے کمزور و محروم طبقات کو ہمارے دانشورطبقے کی سخت ضرورت ہے (ہ) دانشور طبقے کو اپنی زندگی کا ہدف یہ بنالینا چاہئے کہ وہ اپنا علم اس دنیا میں بانٹ کر جائے گا کیوں کہ بہر حال حساب ہوگا، جس کو مال و دولت دی ہے اُس کا حساب ہوگا کہ اُس نے اُس کا کیا کیااور جسے علم، عقل و خرد سے نوازا ہے اُس کا بھی حساب ہوگا کہ اُس نے اُس علم سے معاشرہ کو کتنا فیض پہنچایا۔ دراصل ہمارے یہاں اکثر لوگ اِسی ذہنی کیفیت میں رہتے ہیں کہ (سوال و جواب ملاحظہ کیجئے)فریاد: قوم بڑی پریشانیوں سے دوچار ہے۔ (جواب): تو ہم کیا کریں ؟ فریاد: پرائمری و ہائی اسکول کی تعلیم کیلئے بھی قوم کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ (جواب): ہم نے اُس کیلئے ٹھیکہ لیا ہے؟ فریاد: اسکول کے ڈراپ آئوٹ ہمارے بچّے نشہ کی لت کا شکار ہورہے ہیں۔ (جواب): ہمیں کیا پڑی ہے اُس سے۔ فریاد: قریبی اسکول کے کئی کلاس روم کے بینچ ٹوٹ چکے ہیں۔ (جواب): وہ اسکول کے چیئرمین کی ذمہ داری ہے۔ فریاد : پانچ بچوں کے پاس یونیفارم تک نہیں ہیں۔ (جواب): اسکول کے سیکریٹری کو اُس کی فکر کرنی چاہئے۔ فریاد: محلے ہی کے چار بچّے فیس ادا نہ کرپانے کی بنا پر کہیں داخلہ نہیں حاصل کرپائے۔ (جواب) : ہمارا اُس سے کیا تعلق۔ خواتین و حضرات، عام لوگ اگر یہ باتیں کہتے ہیں تو ہم اُن کی کوتاہ فہمی یا خود غرضی سمجھ سکتے ہیں مگر ہمارے اہلِ علم و اہلِ خرد سمجھے جانے والے افراد کیونکر ایسے بات کہہ سکتے ہیں کہ اُنھیں کیا پڑی ہے۔
نوجوانو! علم کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ بانٹا جائے۔ دانشوری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اُن کی صلاحیتوں سے عوام النّاس بھی استفادہ کریں۔ اگر آپ باصلاحیت اور دانشورہیں تو اس کا شکر اداکرنا چاہئے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندے ہیں، اسلئے آپ کی ذمہ داریاں دیگر بندوں سے کہیں زیادہ ہیں۔