• Mon, 20 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ٹرمپ کی حلف برداری میں مودی کو مدعونہ کیا جانا اچھی علامت نہیں ہوگی

Updated: January 19, 2025, 10:04 PM IST | Lieutenant General Prakash Kannoj | Mumbai

امریکہ کے نومنتخب صدر نےکھلے اور بند لفظوں میں جو پیغامات دیئے ہیں وہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کی ایک اور ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں

The one who was between us and you: Prime Minister Modi used to be friendly with Trump, but now the same Trump is showing bitterness towards India and has made a pro-Khalistani lawyer his deputy attorney. Photo: INN
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا: وزیراعظم مودی کبھی ٹرمپ سے دوستی کا دم بھرتے تھے مگر اب وہی ٹرمپ ہندوستان کے تعلق سے تلخی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور خالصتانی حامی وکیل کو اپنا نائب اٹارنی بنا لیا ہے۔ تصویر: آئی این این

امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ سیماب صفت شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے تعلق سے یقینی طور پر کچھ بھی نہیں  کہا جاسکتا۔ اس کے باوجود چینی صدر شی جن پنگ کو ۲۰؍ جنوری ۲۰۲۵ء کی اپنی تقریب حلف برداری میں  مدعو کرکے انہوں  نے سنسنی پھیلا دی ہے۔ ۱۸۷۴ء کے بعد سے امریکہ کی تاریخ میں  اس کی کوئی مثال نہیں  ملتی۔ امریکی صدر کی حلف برداری میں غیر ملکی سفیروں اور سفارت کاروں کی شرکت معمول کی بات ہے لیکن کبھی کسی غیر ملکی سربراہ مملکت نے اس تقریب میں شرکت نہیں کی۔ 
شی جن پنگ کو مدعو کیا جانا بطور خاص اس لئے موضوع بحث ہے کہ یہی ٹرمپ چین کو سب سے بڑا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ تائیوان کے موضوع پر دونوں  ملکوں  کے درمیان کشیدگی، موجودہ پابندیوں اور ایک دوسرے کے یہاں  سے درآمد شدہ اشیاء پر ٹیکس کے نفاذ کے تعلق سے جاری لفظی جنگ کے دوران یہ دعوت نامہ حیران کن بھی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ چینی اشیاء پر مزید محصولات عائد کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں جواب می  شی جن پنگ نے بھی وہی دھمکی دہرائی ہے۔ تو کیا شی جن پنگ کو دعوت چین کے ردعمل کا اندازہ لگانے کیلئے دی گئی تھی یا یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ بیجنگ سے ناطہ پوری طرح  توڑ لینا آسان نہیں ہےکیوں  کہ کرہ زمین کے ایک بڑے حصے پر چین کا دبدبہ ہے اور امریکہ جس کے بارے میں  کہا جاتا ہے کہ وہ ٹوائلٹ پیپر تک درآمد کرتا ہے، کے مقابلے میں وہ دنیا کا صنعتی پاور ہاؤس بن چکا ہے۔ 
امریکہ اور چین کے درمیان براہ راست جنگ کا مطلب دونوں  کیلئے غیر معمولی تباہی ہے کیونکہ فوجی تکنالوجی کےکئی محاذوں  پر چین تیزی سے سبقت حاصل کر رہا ہے۔ اطلاع ہے کہ شی نے حلف برداری کی تقریب کی دعوت کو مسترد کر دیا ہے۔ یہ بھی حیران کن نہیں  ہے۔ کیا ( امریکہ کے سابق وزیر خارجہ )ہنری کسنجر نے نہیں  کہاتھا کہ امریکہ کی دشمنی تباہ کن ہے مگر اس کی دوستی مہلک ہے۔ تو پھر شی جن پنگ دوستی کے اس فرضی مظاہرے کو کیوں   قبول کرتے؟

یہ بھی پڑھئے: سو ِل سروسیز میں بہترکارکردگی کیلئے وسائل کی فراہمی کیلئے مثبت فکر کی ضرورت ہے

مزید برآں، تمام عالمی طاقتوں کی طرح چین بھی دھوکے میں ماہر ہے لیکن شی شاید دکھاوے میں   یقین نہیں رکھتے۔ اسی لئے انہوں  نے امریکی صدر کو دوٹوک انداز میں  متنبہ کردیا ہے کہ تائیوان کے معاملے میں  وہ چین کی سرخ لکیر کو عبور کرنے کی غلطی نہ کریں کیوں  کہ ان کے مطابق تائیوان چین کا حصہ ہے اوراس کا سرزمین چین کے ساتھ انضمام ناگزیر ہے۔ 
 سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کی حلف برداری کیلئے کن غیر ملکی سربراہان مملکت کو مدعو کیاگیا ہے یا پھر شی جن پنگ کی جانب سے دعوت نامے کو ٹھکرا دیئے جانے کے بعد اس خیال کو ہی ترک کردیاگیا ہے؟ منطقی طور پر نیٹو ممالک کے سربراہان، جی-۷؍ کے لیڈر اور امریکی اتحادیوں  کومدعو کیا جا سکتا ہےلیکن ان ممالک کے سربراہان کا کیا ہوگا جو امریکہ کے اتحادی تو ہیں  مگر نیٹو کا حصہ نہیں  ہیں۔ بطور خاص ہندوستان کا کیا ہوگا؟ مودی کو مدعو کیا جائےگا یا نہیں ؟
ڈونالڈ ٹرمپ کی پہلی میعاد صدارت میں   ان سے وزیر اعظم نریندر مودی کی ذاتی دوستی جگ ظاہر تھی۔ مودی نے ۲۰۲۰ء میں  ہندوستانی تارکین وطن کے ایک پروگرام میں  ٹرمپ کیلئے غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے امریکی سرزمین پر ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار ‘‘کا نعرہ بلند کیا تھا جس کی مثال اس سے پہلے کبھی نہیں  ملتی۔ کسی بھی غیر ملکی سربراہ مملکت کا امریکہ کے صدارتی الیکشن میں  کسی امیدوار کی انتخابی مہم میں مدد کا یہ پہلا موقع تھا۔ 
 تاہم ۲۰۲۴ء  کے صدارتی الیکشن سے قبل مودی جب امریکی صدر جو بائیڈن کے زیر صدارت کواڈ سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے امریکہ روانہ ہونےوالے تھے تو ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ ہندوستانی وزیر اعظم ان سے ملنے آرہے ہیں لیکن دونوں کی ملاقات نہیں ہوئی۔ کیا مودی کی خارجہ پالیسی کے ماہرین نے یہ اندازہ لگانے کے بعد کہ عدالتی مقدمات کی بھرمار کے سبب ٹرمپ کا جیتنا ممکن نہیں  ہے، 
 انہیں  ایسا مشورہ دیاتھا؟کیا انہیں وزیر اعظم کویہ ٹرمپ اور کملا ہیرس دونوں سے ملنے کا مشورہ نہیں دینا چاہئے تھا؟ کیا جان بوجھ کر ایسا نہیں  کیاگیا ؟ مودی نے ٹرمپ کو الیکشن جیتنے پرفوراً مبارکباد پیش کی مگر اب صورتحال ویسی نہیں  ہے؟
اب یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ ٹرمپ کی حلف برداری میں نریندر مودی کو مدعو کیا جائے گا یا نہیں۔ بی جے پی لیڈر اور سابق راجیہ سبھا کے سابق رکن سبرامنیم سوامی جو وزیراعظم مودی کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع نہیں  گنواتے، نے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے امریکی دورے کا یہ کہہ کر مذاق اُڑایا کہ وزیر خارجہ کو آخری کوشش کے طور پر امریکہ بھیجاگیا ہے تاکہ وہ مودی کیلئے ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب کا دعوت نامہ حاصل کر سکیں۔ ممکن ہے کہ جے شنکر کے اس دورہ کا مقصد یہ اندازہ لگانا ہوکہ بائیڈن کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد ہند-امریکہ تعلقات کس نہج پر جائیں گے اور یہ کہ ٹرمپ انتظامیہ سے کیا توقع کی جائے تاہم لیکن سوشل میڈیا پر یہ کہہ کر مذاق اڑایا گیا کہ ’’جے شنکر اے آئی سے مودی کیلئے دعوتنامہ بنوا لیں گے اور اس کی بنیاد پر مودی تقریب حلف برداری میں بالآخری لمحے میں   پہنچیں گے۔ اس طرح ٹرمپ کے پاس ان کے خیر مقدم کے علاوہ کوئی چارہ نہیں  رہ جائےگا۔ یہ بھی کہاگیا کہ جے شنکر دعوتنامہ کے عوض  ایف -۳۵؍ لڑاکا طیاروں  کی خریداری کی شکل میں  بڑےدفاعی سودے کی پیشکش کریں۔ قیاس آرائیوں  اور چہ میگوئیوں  کا بازار گرم ہے۔ بھلے ہی وہ مضحکہ خیز ہوں  مگر ان کا بنیادی نکتہ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کا دعوت نامہ ہے، کہ ملے گیا یا نہیں۔ 
 بہرحال یہ تو طے ہے کہ ہند-امریکہ تعلقات اس وقت اچھے نہیں  ہیں۔ ٹرمپ نے برکس ممالک جو ڈالر کے متبادل پر غور کررہے ہیں، کے ساتھ ہی ہندوستان کے خلاف بھی محصولات بڑھانے کی دھمکی دی ہے۔ اس کا اثر یقیناً ہندوستانی معیشت پر پڑے گا۔ باقی صفحہ ۹؍ پر

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK