اگرلوک سبھا الیکشن کے نتائج کے خمار اور اس گمان سے کہ ریاست میں اتحاد مخالف لہر ہے، باہر نہ نکلا گیا، ضرورت سے زیادہ عزائم کا شکار ہو چکے لیڈروں کی نکیل نہ کسی گئی اور انتخابی حکمت عملی پر توجہ نہ دی گئی تو مہاراشٹر میں بھی ہریانہ جیسے نتائج بعید از قیاس نہیں۔
ہریانہ کے انتخابی نتائج سے بی جے پی کے لیڈروں اور کارکنوں کے حوصلے کافی بلند ہوگئے ہیں۔ تصویر : آئی این این
کانگریس اور اس کی اتحادی پارٹیوں کو بی جےپی سے تمام تر اختلافات کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انتخابی حکمت عملی کے معاملے میں اُس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ہریانہ کے انتخابی نتائج محض اتفاق نہیں ہیں بلکہ زعفرانی پارٹی کی سوچی سمجھتی حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔ وزیراعظم مودی نے انتخابی ریلی میں ہی اعلان کردیاتھا کہ ہریانہ کے نتائج مدھیہ پردیش جیسے ہوں گے۔ ایگزٹ پول میں بی جےپی کی ہار کی پیش گوئیوں کے باوجود وزیراعلیٰ نائب سنگھ سینی نے بھی غیر معمولی اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے پیش گوئی کردی تھی کہ ریاست میں اگلی حکومت بی جےپی کی ہوگی اور اس کیلئے تمام تیاریاں کرلی گئی ہیں۔ اس پس منظر میں ایک بڑا طبقہ نتائج کو ای وی ایم کے کھیل کے پہلو سے بھی دیکھ رہا ہے۔ اس سے سرے سے انکار کیا جا سکتا ہے، نہ اس کی تصدیق ہی کی جاسکتی ہے۔ البتہ جو سوال اُٹھے ان سوالوں کے تسلی بخش جواب الیکشن کمیشن سے ملنے چاہئیں جس کی امید کم ہی ہے۔
کئی ووٹنگ مشینوں کی بیٹری مکمل پولنگ کے باوجود ووٹوں کی گنتی کے وقت ۹۹؍ فیصد تک چارج ہونے کے معاملات سامنے آئے ہیں جو حیرت انگیز ہے۔ کئی دیگر سوال بھی اٹھ رہے ہیں اور سازش کی تھیوریاں عوامی سطح پر موضوع ِ بحث ہیں مگر ہم یہاں ان سوالوں کی تفصیل میں اسلئے بھی نہیں جانا چاہیں گے کہ سوال اٹھانےوالے جب خود ہی اُن سوالوں کو بھول جاتے ہیں اور ضروری فالو اَپ نہیں کرتے تو پھر عین الیکشن کے نتائج کے وقت وہ بھی اس وقت جب وہ نتائج توقع کےمطابق نہ ہوں، واویلا کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔
مثال کے طور پر گجرات اسمبلی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں کانگریس نے نشاندہی کی تھی کہ کُل ووٹنگ میں سے۶ء۵؍فیصد ووٹنگ آخری ایک گھنٹے میں ہوئی تھی۔ کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نےا س پر پریس کانفرنس بھی کی تھی اور بتایاتھا کہ کچھ اسمبلی حلقوں میں ایک گھنٹہ میں ۱۱؍ فیصد تک ووٹنگ ریکارڈ کی گئی۔ انہوں نے خود نشاندہی کی تھی کہ اگر الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار پر بھروسہ کیا جائے تو ۲۰؍ سے ۳۰؍ سیکنڈ میں ایک ووٹ ڈالاگیا جو قطعی ناممکن ہے۔ کیا پریس کانفرنس، الیکشن کمیشن سے ملاقات اور مطالبہ کرنے کے علاوہ کانگریس یا اپوزیشن پارٹیوں نے اس معاملے میں مزید کوئی پیش رفت کی۔ گجرات کا معاملہ ایک مثال ہے ورنہ ہر الیکشن کے بعد ای وی ایم اور الیکشن کمیشن کے رویے پرپر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ لوک سبھا الیکشن میں کمیشن کی جانبداری موضوع بحث رہی مگر کیا اس معاملے کو آگے بڑھانے اورکسی منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کی گئی؟ا گر نہیں تو پھر ہر الیکشن کے بعد مشینوں کا رونا ’’ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا ‘‘کے زمرے میں ہی شمار کیا جائےگا۔
یہ بھی پڑھئے:اسرائیل پر ایرانی حملہ اور مشرق وسطیٰ کا بدلتا ہوا منظر نامہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہریانہ کے انتخابی نتائج حیران کن ہیں، انہوں نے ایگزٹ پول ہی نہیں انتخابی پنڈتوں کو بھی بری طرح غلط ثابت کیا ہے۔ زمین پر جو صورتحال نظر آرہی تھی، نتائج اس کی عکاسی قطعی نہیں کرتے بلکہ اس کے برخلاف ہیں اور یہی نکتہ مہاراشٹر میں کانگریس اوراس کی اتحادی پارٹیوں کو الرٹ کر دینےکیلئے کافی ہونا چاہئے۔ کانگریس ہریانہ میں ضرورت سے زیادہ پُراعتماد تھی اوراس کا یہ اعتماد بے وجہ بھی نہیں تھا جو اسے ملنے والے مجموعی ووٹوں میں ۱۱؍ فیصد کے اضافے سے بھی ظاہر ہے۔ اس کے باوجود اگر اسے ۶؍ سیٹوں کا ہی فائدہ ملا اور بہت ساری سیٹیں وہ جیتتے جیتتے ہار گئی تو پھر اس کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پورے الیکشن کیلئے اس کی اجتماعی حکمت عملی تو کامیاب رہی جس نے مجموعی طورپر اس کے ووٹوں میں غیر معمولی اضافہ کیا مگر ہر اسمبلی حلقہ کی سطح پر الیکشن جیتنےکیلئے جس حکمت عملی کی ضرورت تھی، اس میں وہ چوک گئی ورنہ نتائج کچھ اور ہوتے۔ اس پس منظر میں مہاراشٹر میں عمومی طور پر حکومت مخالف لہر تو موجود ہے مگر ایک ایک اسمبلی حلقہ پر اگر توجہ نہ دی گئی اور لاپروائی کا مظاہرہ کرکے یا اس زعم میں رہ کر کہ عوام حکمراں محاذ کے خلاف ہی ووٹنگ کرنےوالے ہیں، بی جےپی کی حکمت عملی کو کامیاب ہونے دیاگیا تو نتائج وہی ہوں گے جو ہریانہ میں برآمد ہوئے۔
افسوس کہ فی الحال جو صورتحال ہے اس میں مہاراشٹر میں بی جےپی کی حکمت عملی کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ لوک سبھا الیکشن میں خراب کارکردگی کے بعد حکمراں محاذ پہلے ہی سرگرم ہوگیا ہے۔ اس نے لوک سبھا الیکشن کے بعد سے ہی اسمبلی الیکشن کیلئے تیاریاں شروع کردی ہیں اور یہ تیاریاں اس بات کو ملحوظ رکھ کرکی جارہی ہیں کہ عوام نے لوک سبھا الیکشن میں اسے مسترد کیا ہے۔ اس کیلئے جہاں ووٹوں کے انتشار کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کی حکمت عملی پر کام ہورہاہے وہیں لاڈلی بہن جیسی اسکیموں کے ذریعہ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ گھر کے مرد حکمراں محاذ کے خلاف ووٹنگ کریں تب بھی خواتین اس کے حق میں ووٹ دیں ۔
اسی طرح مسلم ووٹوں کے تعلق سے بھلے ہی یہ تاثردیا جارہاہو کہ زعفرانی پارٹی کو ان کی ضرورت نہیں ہے مگر صاف نظر آرہا ہے کہ اجیت پوار کی این سی پی کے توسط سے اور ایکناتھ شندے کی شیوسینا میں ایک مہم کے تحت شامل کئے گئے مسلم لیڈران کو استعمال کرکے جتنے ممکن ہوں اتنے مسلم ووٹ حاصل کرنے کی حکمت عملی پر کام کیا جارہا ہے۔ یہ حربہ سیکولر ووٹروں کی یکطرفہ ووٹنگ سے بچنے کیلئے ہے جو لوک سبھا الیکشن کے وقت بھی آزمایا گیاتھا مگر اس وقت اُتنا کامیاب نہیں ہوسکا جتنااسمبلی الیکشن میں کامیاب ہونے کا اندیشہ ہے۔
اس کے برخلاف اگر ’انڈیا‘ اتحاد کی تیاریوں کا جائزہ لیں تو لوک سبھا الیکشن میں اُس کی کامیابی کےبعدقیادت میں یہ اطمینان نظرآتا ہے کہ اسمبلی الیکشن کا نتیجہ اسی کا پرتو ہوگا۔ یعنی اپوزیشن جسے زیادہ محنت کی ضرورت ہے، پہلے ہی فتح کے خمار میں مبتلا ہوچکا ہے۔ اس کے کئی لیڈروں کے عزائم بہت بلند ہوگئے ہیں۔ اتحاد میں شامل تینوں بڑی پارٹیوں کے لیڈروں کی ایک بڑی تعداد ووٹروں کے لوک سبھا الیکشن والے رجحان کا فائدہ اٹھا کر اسمبلی میں پہنچنے کی متمنی ہے۔ الیکشن کو مشکل سے ایک مہینہ بھی نہیں بچا مگراب تک امیدواروں کا اعلان نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسمبلی کی سطح پرشیوسینا (اُدھو)، این سی پی( شرد پوار) اور کانگریس کے ٹکٹ کے متمنی لیڈروں نے بیک وقت اپنی اپنی انتخابی مہم شروع کردی ہے۔ کئی حلقوں میں ایک ہی پارٹی کے ٹکٹ کے متمنی ایک سے زائد لیڈر سرگرم ہوچکے ہیں۔ یہ تو صاف ہے کہ ہر اسمبلی حلقے میں کسی ایک پارٹی کے ایک لیڈر کو ہی ٹکٹ ملے گا، بقیہ جو میدان میں ہیں ان میں سے کتنوں کو باغی امیدوار کے طور پر کھڑا ہونے سے روکا جاسکےگا اور اگر نہ بھی کھڑے ہوئے تو انہیں اتحاد کے حق میں کام کرنے کیلئے کس حدتک آمادہ کیا جاسکےگا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو مہاراشٹر میں ہریانہ کے دہراؤ کا اندیشہ پیدا کرتے ہیں۔ وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے، اگر ’انڈیا ‘ اتحاد نے اسمبلی حلقہ کی سطح پر مثبت حکمت عملی کے ساتھ کام نہ کیا تو آئندہ ۵؍ برسوں تک ہاتھ مسلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔