آج سے تقریباً چار دہائی پیشتر اعظم گڑھ اور اس کے اطراف میں مشاعروں کی دھوم تھی جن میں عمر قریشی (۱۹۲۴ء تا ۲۰۱۰ء)، پروفیسرملک زادہ منظور احمد اور انور جلال پوری کی نظامت کے جلوے دیکھنے کو ملتے۔
EPAPER
Updated: February 15, 2025, 7:23 PM IST
|
Dr Umair Manzar
آج سے تقریباً چار دہائی پیشتر اعظم گڑھ اور اس کے اطراف میں مشاعروں کی دھوم تھی جن میں عمر قریشی (۱۹۲۴ء تا ۲۰۱۰ء)، پروفیسرملک زادہ منظور احمد اور انور جلال پوری کی نظامت کے جلوے دیکھنے کو ملتے۔ آج سے تقریباً چار دہائی پیشتر اعظم گڑھ اور اس کے اطراف میں مشاعروں کی دھوم تھی جن میں عمر قریشی (۱۹۲۴ء تا ۲۰۱۰ء)، پروفیسرملک زادہ منظور احمد اور انور جلال پوری کی نظامت کے جلوے دیکھنے کو ملتے۔ انہی مشاعروں میں رازالہ آبادی، خورشید افسر بسوانی، ساغر اعظمی، کیفی اعظمی، حفیظ میرٹھی، ڈاکٹر تابش مہدی، حق کانپوری، والی آسی، معراج فیض آبادی، ماجد دیوبندی، قیوم ناشاد، حامد بہرائچی، انجم رہبر، صبیحہ سنبل، ڈاکٹر آفاق فاخری اور دیگر شعراء کو پہلے پہل سننے کا موقع ملا۔ عجیب وغریب زمانہ تھا۔ تفریح اور تہذیب دونوں کے سلسلے مشاعروں سے جاکر مل گئے تھے اور شاید اسی وجہ سے مشاعرہ سنناجیسے ایک نشہ تھا اور اس کا کلائمکس عمر قریشی کی نظامت ہوا کرتی تھی۔ حاضر جوابی، دل کو چھو‘ لینے والے اشعار اور سامعین کے جملوں کابرمحل اور فی الفور جواب اُن کی غیر معمولی خصوصیت تھی۔ اکثر اوقات پورا پنڈال کشت زعفران بن جاتا تھا۔ اسی وجہ سے عمر قریشی کی نظامت خاص طور پر پسند کی جاتی تھی۔ وہ عوام کے جذب و شوق کو ایک خاص رخ دینا جانتے تھے۔ جی ہاں،اُن کا یہ عجب ہنر تھا کہ وہ جس طرف چاہتے سامعین کا رخ موڑ دیتے اور کسی کو اس کا احساس تک نہ ہوتا۔ مشاعروں میں اس وقت تالی بجوانے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔ ایک دو شاعروں کے علاوہ داد مانگنے والے بھی نہیں تھے۔ نظامت کا فن بھی اس سطح تک نہیں پہنچا تھا۔ ادب و آداب کی بہت سی روایتیں زندہ تھیں اوربہت حد تک مشاعروں میں ایک ادبی فضا کا زور تھا۔ صارفیت کے زور نے ابھی مشاعروں کو آلودہ نہیں کیا تھا۔ اعظم گڑھ اور اس کے قرب و جوار میں ہونے والے ان مشاعروں کو ایک کلیدی حیثیت بہر حال عمر قریشی کے انداز تعارف کو حاصل تھی۔ یہ بھی پڑھئے: ضلع پریشد کے کلرک کی ہیرا پھیری، ملازمین کی رقم اپنے اکائونٹ میں مشاعروں کے اسٹیج پر کرسی کا چلن نہیں تھا اور ناظم مشاعرہ باضابطہ کھڑے ہوکر شعراء کا تعارف کراتا اور پھر کلام پڑھنے کے لئے مدعو کرتا تھا۔ مبارکپورکے ایک مشاعرہ میں جمیل خیر آبادی کلام پڑھنے کے بعد اپنی نشست کی طرف جانے لگے، اتنے میں عمر قریشی مائک پر پہنچ گئے۔ مائک جمیل خیر آبادی کے قد کے برابر تھا۔ عمر قریشی جیسے ہی مائک پر پہنچے انہیں یہ احساس ہوگیا کہ جلد بازی میں غلطی توہوگئی مگر قبل اس کے کہ وہ کوئی فیصلہ کرتے، ایک جملہ صف سامعین سے آیا: ’’اسٹول لگالیں۔‘‘ مائک قد کے برابر ہوتے ہی عمر صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں ایک شعر پڑھ کر پوری فضا کو اپنے حق میں کرلیا:
مرے خدا مرے جذبوں کو لب کشا کردے
مری غزل کو مرے وقت کی صدا کردے
ہمارے بچوں کو پستہ قدی کا ہے احساس
ہماری نسلوں کے قد کو ذرا بڑا کردے
سامعین نے نہ صرف اس شعرکا لطف لیا بلکہ عمر قریشی کے جواب پر داد و تحسین سے پورا پنڈال گونج اٹھا۔ ایک مشاعرہ میں کسی شاعر سے سامعین کی طرف سے گیت کی فرمائش کی گئی بلکہ اس میں کسی قدر اصرار بھی شامل تھا۔ بس کیا تھا، عمر صاحب نے مائک پر آتے ہی غزل کی تعریف، اس کے پس منظر اور دیگر فنی رموز پر چند منٹ کی جادو بھری گفتگو کی۔ غزل کی ایمائیت اور رمزیت پر فی البدیہہ شعر اس طرح پڑھا کہ لوگ بھول ہی گئے کہ ہماری کیا فرمائش تھی۔ عمر قریشی کی گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ انہوں نے اس موقع پر یہاں تک کہا کہ ہم سونا لائے تھے اور ہم سے مٹی مانگی جارہی ہے۔ آخر میں قیوم ناشاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم وہاں تک پہنچیں گے تو بتائیں گے کہ گیت کا فن کار کیسا ہوتا ہےاور گیت کہتے کسے ہیں۔ اس مشاعرہ میں قیوم ناشاد نے مختلف گیتوں سے سامعین کی بھر پور تواضع کی اور اپنا مشہور گیت ’لاحول ولاقوۃ‘ اور ’کاہے کو دبوتی ہے‘ اپنے مخصوص ترنم میں پیش کیا۔
پھریہا اعظم گڑھ کے ایک مشاعرہ میں پروفیسر ملک زادہ منظور احمد بھی بطور شاعر مدعو تھے۔ مشاعرہ میں ایک وقت ایسا آگیا جب جناب عمر قریشی اور پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے ایک ایک مائک سنبھال لیا تو بہت دیر تک دونوں طرف سے گل افشانیٔ گفتار کا سلسلہ جاری رہا۔ عمر قریشی بہت احترام کے ساتھ ملک زادہ منظور احمد کا نام لیتے تھے اوران کے تعارف میں دانشور اور اردو کامجاہد ضرور کہتے تھے۔ اس زمانے میں دانشور کا لفظ اتنا عام نہیں ہوا تھا۔ کیسے کیسے لوگ تھے اوروہ بھی کیا دن تھے۔ پھریہا کا یہی مشاعرہ تھا جس میں غالباً پہلی بار عمر قریشی کو مشاعرہ میں غزل پڑھتے ہوئے سننے کا موقع ملا۔ غزل پڑھنے سے پہلے کہنے لگے کہ اس غزل میں کوئی خوبی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس میں قافیہ مکرر استعمال ہوا ہے۔ غزل نہ صرف لوگوں نے پسند کی بلکہ عمر قریشی اپنے مخصوص اندازکی وجہ سے اس میں بھی نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ مشاعروں کی اصطلاح میں کہا جائے تو ”ایک شاعر کے طو رپر وہ چھا گئے۔“ چند شعر یاد آرہے ہیں:
نگاہ شوق سے بچ کر کہاں کہاں جاتے
ہمیں بھی ساتھ ہی پاتے جہاں جہاں جاتے
بھلا ہوا جو تجھے دل میں پالیا ورنہ
گلی گلی تری خاطر مکاں مکاں جاتے
عمرقریشی کا انداز تعارف اور مشاعروں کی ابتدائی گفتگو بڑی معرکۃ الآراء ہوتی تھی۔ ایسا البیلا انداز اور گھن گرج کہ سننے والے پر سحر طاری ہو جائے۔ وہ مشاعرہ کے آغاز میں بالعموم شعراء کا تعارف ان کے علاقوں کے تناظر میں کراتے تھے اور یہ بہت مختصر ہوتا۔ اس گفتگو میں وہ سامعین کی اہمیت اور ان کے کردار کو بھی اُجاگر کرتے اور اکثر کہتے تھے اگر یہ مشاعرہ کامیاب رہا تو پوری دنیا میں مشاعرہ کے ساتھ ساتھ اس جگہ کا بھی نام ہوگا، آپ لوگوں کی ادب فہمی اور سخن فہمی کو یاد کیا جائیگا۔ اس زمانے میں، اعظم گڑھ میں اذان فجر تک جاری رہنے والے مشاعرہ ہی کو کامیاب مانا جاتا تھا۔ کسی موقع پر عمر قریشی نے مشاعرہ کے مخصوص ماحول میں یہ شعر پڑھا جو آج بھی ذہن میں محفوظ ہے:
میں سائنس کے دور کا ہوں مسلماں
قرآن اور سنت کو بھولا ہوا ہوں
موذن سے کہہ دو اذاں بند کردے
میں اک شاعرہ سے غزل سن رہا ہوں
مشاعروں کا اختتام نعت پاک پر ہوتا تھا۔ اختتام پر جس طرح وہ نعت کیلئے کسی شاعر کو زحمت دیتے اور بتاتے کہ اب اذان ہونے والی ہے اس لمحے کو بچا لیجئے ورنہ سب کچھ غارت ہوجائیگا۔ شاعر سر پر رومال باندھ کر جب مائک کی طرف بڑھتا تو ایسا لگتا کہ پورے ماحول پر نورانیت طاری ہوگئی ہے۔ دراصل ان کی گفتگو کا یہ جادو ہوتا کہ وہ پورے مجمع کو جدھر چاہتے موڑ دیتے۔ حالانکہ کبھی کبھی بعض مشاعرے بدمزگی کا شکار ہوجاتے تھے لیکن عمر قریشی کی توجہ اور مشاعرہ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والی کوشش لائق ستائش ہوتی تھی۔
سن تو ٹھیک سے یاد نہیں مگر ۱۹۹۳ء کے آس پاس عمر قریشی سے ملاقات کیلئے گورکھپور گیا۔ ان دنوں بیمار تھے مگر دیر تک گفتگو کی۔ ان کا ایک جملہ اب بھی ذہن میں محفوظ ہے کہ ہم اردو کیلئے کچھ نہیں کرسکے، اپنے محلوں میں نیم پلیٹ اور دکانوں کے بورڈ اردو میں نہیں لکھوا سکے پھر یہ بات زور دے کر کہی کہ اردو چلتی پھرتی نظر آنی چاہئے۔ ہمارے ان بزرگوں کو اس کا شدید احساس تھا کہ زبان اگر رواج میں نہیں ہو گی اور جا بجا نظر نہیںآئے گی تواس کی حیثیت کم ہوتی چلی جائیگی۔ ان مشاعروں کے تو سط سے شاعری تو سنی جاتی تھی مگر اردو کو عام کرنے اور اسے رواج دینے کیلئے اور بھی بہت کچھ کیا جانا چاہئے۔ مشاعروں کے ابتدائی زمانے کے قصے بھی سنائے کہ کس طرح گاؤں میں پہنچ کر لوگوں کو بتاتے کہ آج یہاں مشاعرہ ہونے والا ہے اور پھر دھیرے دھیرے ایک فضا بنتی گئی جو اس مقام تک پہنچ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشاعرہ ادبی سرگرمی تھا مگر بعد میں اس کی حیثیت کاروباری ہوتی چلی گئی۔
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے رقص شرر میں عمر قریشی کا ذکر کیا ہے۔ یہ خود نوشت جب ماہنامہ ’بیسویں صدی‘ میں قسط وار چھپ رہی تھی تو چند قسطوں کے بعد میں نے انہیں ایک خط لکھاکہ کیا اس میں عمر قریشی کا بھی ذکر آئے گا تو ملک زادہ صاحب نے جواب دیا تھا کہ”ان کے ذکر کے بغیر رقص شرر کیسے مکمل ہوگی۔“ان کے متعدد قصے ملک زادہ منظور احمد کی آپ بیتی میں موجود ہیں۔ اُن کے اس خیال سے اتفاق کیا جانا چاہئے کہ عوامی مشاعروں میں عمر قریشی کا ہی جادو چلتا تھا۔ البتہ جب بہت پڑھا لکھا مجمع ہوتا تو ان کی گفتگو میں وہ چمک نہیں ہوتی جو کہ اس سے مختلف لوگوں کے درمیان ہوا کرتی تھی۔
عمر قریشی کو مشاعروں کے عوامی اسٹیج کا ناقابل فراموش کردار تصور کیا جانا چاہئے۔وہ مجمع کا رخ جس طرف چاہیں موڑ دینے کی صلاحیت رکھتے تھے مگر اسی کے ساتھ ان کے یہاں صلابت اور نرمی بھی بہت تھی۔ معمولی بات پر بھی وہ اپنی غلطی کا نہ صرف اعتراف کرتے بلکہ دوران مشاعرہ معافی بھی مانگ لیتے۔مزاج کی اسی انکساری نے انہیں عوام میں بے حد مقبول بنا رکھا تھا۔
اعظم گڑھ کے قرب و جوار میں تعلیمی اداروں کی طرف سے بھی مشاعروں کا اہتمام ہوتا تھا۔ شبلی نیشنل کالج میں مشاعرہ کی روایت بہت قدیم ہے۔ پھریہا (اعظم گڑھ) میں غالباً دائرہ حمیدیہ کی طرف سے مشاعرہ ہوتا تھا۔ مبارکپور میں اسپورٹنگ کلب کے مشاعرے بہت مشہور تھے۔ تعلیمی اداروں کی طرف سے منعقد ہونے والے بعض مشاعروں میں داخلہ کیلئے ٹکٹ کی شرط ہوتی۔ عام خیال تھا کہ جن مشاعروں کی نظامت عمر قریشی کے ذمے ہوتی ان میں ٹکٹوں کی فروخت بڑھ جاتی ہے۔اس سے عمرقریشی کی عوامی مقبولیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بھی کہ دراصل وہ عام لوگوں کی نبض سے اچھی طرح واقف تھے۔ دل پر چوٹ رکھنے والے اشعار دوران نظامت اس طرح پڑھتے تھے کہ سامعین اچھل پڑتے تھے:
دیتا نہیں شراب تو زہراب ڈال دے
ساقی ہے کچھ نہ کچھ مرے ساغر میں ڈھال دے
میری زباں پہ حق کی صدا گر نہیں پسند
اچھا یہی ہے شہر سے مجھ کو نکال دے
مشاعروں میں عمر قریشی نے نظامت پر زیادہ انحصار رکھا اور شعر کبھی کبھی ہی سنائے۔ ان کی نظامت کو زیادہ پسند کیا گیا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہو ں نے نظامت کے دوران اپنے اشعار سے زیادہ کام لیا۔بلکہ بیشتر اشعار ان کے ہی ہوتے تھے۔ عام طور پر وہ قطعہ کی شکل میں اپنے غزلوں سے دوران نظامت شعر پڑھتے تھے مگروہ کسی موقع کی مناسبت سے ہوتے تھے اور خوب لطف دے جاتے تھے۔ایسے ہی کسی موقع پر انہوں نے ان چار مصرعروں کو پڑھا تھا:
مانجھی تری کشتی کے طلب گار بہت ہیں
کچھ لوگ ہیں اس پار تو اس پار بہت ہیں
جس شہر میں شیشے کی دکاں کھولی ہے تم نے
اس شہر میں قاتل کے طرف دار بہت ہیں
عمر قریشی کی عام شہرت ایک ناظم مشاعرہ کی ہے لیکن انھوں نے صرف نظامت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے متعدد مجموعے شائع ہوئے۔ وہ غزل کے تقاضوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ ’شہر صدا‘ (۱۹۸۸ء) کے ابتدائی صفحات میں ”آئینہ حالات“ کے تحت انہوں نے لکھا ہے:
”ابتدائی دور کی عشقیہ شاعری سے قطعہ نظر گزشتہ بیس برسوں میں جو غزلیں میں نے کہی ہیں وہ انہی حالات وجذبات کی آئینہ دار ہیں جو یاتو میرے تجربات میں آئے ہیں یا جن کو میں نے شدت کے محسوس کیا ہے۔“
کیا ہی بہتر ہوتا کہ ان کا تمام کلام کلیات کی شکل میں شائع ہوجاتا مگر افسوس یہ کام ابھی تک نہیں ہوسکا۔ ان کے یہاں بے شمار ایسے اشعار ہیں جو عوامی جذب و شوق کی غمازی کرتے ہیں اور جن میں حالات کی عکاسی کا پہلو بھی خوب ہے۔