مسلمانوں کیلئے حالات نازک ضرور ہیں لیکن اتنا بھی نہیں کہ وہ مایوس ہوجائیں۔ ہر اندھیری رات کے بعد صبح ضرور ہوتی ہے۔ ثابت قدمی اورحق و انصاف پر رہنے کی روش انہیں اس بحرانی صورتحال سے ضرور نکالے گی۔
EPAPER
Updated: October 21, 2024, 4:46 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
مسلمانوں کیلئے حالات نازک ضرور ہیں لیکن اتنا بھی نہیں کہ وہ مایوس ہوجائیں۔ ہر اندھیری رات کے بعد صبح ضرور ہوتی ہے۔ ثابت قدمی اورحق و انصاف پر رہنے کی روش انہیں اس بحرانی صورتحال سے ضرور نکالے گی۔
مشہور صحافی ’بھگت رام‘ اپنی طنزیہ پوسٹ کیلئے جانے جاتے ہیں۔ بہرائچ فساد کے’ملزمین‘ کے ’انکاؤنٹر ‘کے بعد انہوں نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ کیا۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ ’’آپ کے پاس ۲؍ متبادل ہیں۔ غنڈے مارنے آئیں تو چپ چاپ ان کے ہاتھوں مر لو۔ اگر ان کے ہاتھوں مرنے سے منع کروگے، ان کا مقابلہ کروگے تو سرکاری غنڈے آئیں گے اور وہ مار ڈالیں گے۔ ‘‘
اسی رویے کو کچھ لوگ’گجرات ماڈل‘کہتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ۲۷؍ فروری ۲۰۰۲ء کو گودھرا میں ایک ٹرین میں آگ لگی تھی۔ اس کے بعد دوسرے ہی دن سے پورا گجرات جلنے لگا تھا اور یہ سلسلہ تب تک جاری تھا، جب تک کہ اسمبلی الیکشن کیلئے تاریخوں کااعلان نہیں ہوگیا تھا۔ اس دوران کارروائیاں اِس قدر یکطرفہ ہوئی تھیں کہ اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی بھی اُس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو ’راج دھرم‘ نبھانے کی تلقین کرنے پر مجبور ہوگئے تھے لیکن وزیراعلیٰ پر کچھ فرق نہیں پڑا تھا۔ اُس وقت نریندر مودی نے اسمبلی کو ۸؍ ماہ قبل ہی تحلیل کرکے انتخابات کروانے کااعلان کردیا تھا۔ فساد زدہ ریاست میں الیکشن کروانے کا بی جےپی کو خاطر خواہ فائدہ ملا تھا۔ اس کے بعد ہی سے یہ معمول بنتا جارہا ہے کہ جس کسی بھی ریاست میں انتخابات کی آہٹ ہوتی ہے، وہاں پر ’فساد‘ کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ اسی بنیاد پر اسے ’گجرات ماڈل‘ کہا جاتا ہے۔
بہرائچ سے قبل دہلی، مغربی بنگال، راجستھان، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح ایک طبقے کی جانب سے فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بہرائچ کے ساتھ ہی بارہ بنکی، مئو اور اترپردیش کے دیگر شہروں میں بھی اسی طرح سے اشتعال انگیزی کی گئی تھی۔
بہرائچ میں یوں ہی فساد نہیں ہوگیا۔ اس کی کرونولوجی کو سمجھیں۔ اس میں اترپردیش کو گجرات بنانے کی پوری سازش نظر آتی ہے۔ ملاحظہ کریں واقعات کے اس سلسلے کو جو وہاں رونما ہوئے:
یہ بھی پڑھئے:انصاف صرف ہونا نہیں چاہئےبلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے
۱۳؍اکتوبر کو بہرائچ کے مہسی ضلع میں واقع مہاراج گنج کی ایک مسلم بستی سے ’دُرگا وِسرجن‘ کا ایک جلوس گزر رہا تھا۔ اس میں مسلمانوں کو اشتعال دلانے والےنعرے لگ رہے تھے۔ مقامی مسلمان ان کا ارادہ بھانپ گئے تھے، اسلئے خاموش رہے۔
مقصدیہی تھا کہ مسلمان اس اشتعال انگیزی پر اعتراض کریں۔ مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ ملنے والی خبروں کے مطابق جلوس کو مسلم بستی میں دیر تک روکے رکھاگیا اوراس دوران شرانگیزنعروں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس پر بھی شاید بات نہیں بنی۔
اس کے بعد گوپال مشرا نامی ایک نوجوان ایک گھر کی چھت پر چڑھ گیا۔ وہاں سبز پرچم لگا ہوا تھا۔ اسے اُتار کر اس نے وہاں بھگوا لہرا دیا۔ اس عمل کے دوران نیچے موجود بھیڑ سےمسلسل اس نوجوان کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی۔ بھگوا پرچم لگانے کے بعدگوپال مشرا نےفاتحانہ نعرہ لگایا۔ اسی درمیان اس پر کسی نے فائرنگ کردی جس میں اس کی موت ہوگئی۔
اُس وقت وہاں پولیس موجود تھی لیکن اس نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی یا شاید اس کی وہی ذمہ داری رہی ہو، جو اس نے نبھائی۔
اس کے بعد وہی ہوا، جس کی تیاری تھی اور جو گجرات میں ہوا تھا۔ توڑ پھوڑ کے ساتھ ہی لوٹ مار ۔
۱۴؍ اکتوبر کو گوپال مشرا کی لاش کے ساتھ پھر سے ایک جلوس نکالا گیا اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کی گئی۔
۱۵؍ اکتوبر کو وزیراعلیٰ گوپال مشرا کے اہل خانہ سے ملاقات کرتے ہیں جو اس فساد کا کلیدی محرک تھا۔ اس ملاقات میں گوپال کا بھائی اور اس کی بیوہ نے مطالبہ کیا کہ ہمیں ملزمین کی گرفتاری نہیں، ان کا انکاؤنٹر چاہئے۔
۱۶؍ اکتوبر کو وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ اشتعال انگیزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔ (یہ اوربات ہے کہ ان کے نزدیک اشتعال انگیزی کا نقطۂ آغازگوپال مشرا پر فائرنگ تھا۔ اس سے پہلے کی ساری باتیں اشتعال انگیزی کے زمرے میں نہیں آتیں۔ )
۱۷؍کتوبرکو ۵؍ ملزمین میں سے ۲؍ کا انکاؤنٹر ہوجاتا ہے۔ انکاؤنٹر میں بری طرح زخمی ہونےوالے سرفراز احمد کی بہن نے ایک دن قبل ہی دعویٰ کیا تھا کہ ان کے بھائی اور گھر کے دیگر افراد کو پولیس اٹھا کر لے گئی ہے جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ نیپال بھاگنے کی کوشش کررہے تھے اور روکنے پر انہوں نے پولیس ٹیم پر فائرنگ کی تھی۔
۱۸؍اکتوبر کومہاراج گنج تشدد کے معاملے میں کلیدی ملزم بنائے گئے عبدالحمید کے ساتھ ہی ۲۵؍ دیگر افراد کو نوٹس بھیج کر۳؍ دن کے اندر ناجائز قبضہ ہٹانے بصورت دیگر بلڈوزر کارروائی کی دھمکی دی گئی ہے۔
مقصدواضح ہے۔ مسلمان خود کو دوم درجے کا شہری تسلیم کرلیں۔ اکثریتی طبقے کی جانب سے اگر کوئی شرانگیزی کی جاتی ہے تو اسے اس کا حق سمجھیں اور خاموش رہیں۔ مزاحمت کی گئی تو یکطرفہ کارروائی کیلئے تیار رہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ اس طرح کی شرانگیزیوں اور حکومت کی جانب سے ہونے والی یکطرفہ کارروائیوں پر وہ سیاسی جماعتیں جو خود کو سیکولر کہتی ہیں اور اسی بنیاد پرمسلم ووٹوں کا ٹھیکیدار بنتی ہیں، صرف ایک بیان دے کر اپنا فریضہ پورا کرلیتی ہیں۔ اور بات جہاں تک قانون وعدالت کی ہے۔ اس کی آنکھوں پر ابھی تک تو پٹی بندھی ہوئی تھی۔ وہ مجبور و بے بس تھی۔ اس کے سامنے جو ’حقائق‘ پیش کئے جاتے تھے، انہیں کی بنیاد پر وہ فیصلے صادر کیا کرتی تھی.... لیکن اب جبکہ اس کی آنکھیں کھل گئی ہیں، دیکھنا ہے کہ وہ اس معاملے کو کس طرح سے دیکھتی ہے؟
مسلمانوں کیلئے حالات نازک ضرور ہیں لیکن انہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ثابت قدمی اورحق و انصاف پر رہنے کی روش انہیں اس بحرانی صورتحال سے ضرور نکالے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظالم و جابر طاقتیں زیادہ دن عروج پر نہیں رہتیں۔ روم کو آگ لگانے والا ’نیرو‘ ہو کہ دنیا بھر میں ظلم و جارحیت کا مظاہرہ کرنےوالا چنگیز خان، روسی حکمراں جوزف اسٹالن ہو کہ بدنام زمانہ ہٹلر اور مسولینی، وقت آنے پر یہ تمام اپنے انجام کو پہنچے۔