• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

انصاف صرف ہونا نہیں چاہئےبلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے

Updated: October 06, 2024, 3:05 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

لوک سبھا انتخابات کے دوران رائے دہندگان میں بیداری کیلئے عوامی مفاد میں ایک اشتہار جاری کیا گیا تھا۔ اشتہار میں ایک اسکول دکھایاگیا تھا جہاں مانیٹر کے ظلم کے شکار ۲؍ طالب علم مرغا بنے ہوئے تھے۔

In this era of political revenge, today the country`s eyes are on the Supreme Court. Photo: INN
سیاسی انتقام کے اس دور میں آج ملک کی نگاہیں سپریم کورٹ کی جانب لگی ہوئی ہیں۔ تصویر: آئی این این

لوک سبھا انتخابات کے دوران رائے دہندگان میں بیداری کیلئے عوامی مفاد میں ایک اشتہار جاری کیا گیا تھا۔ اشتہار میں ایک اسکول دکھایاگیا تھا جہاں  مانیٹر کے ظلم کے شکار ۲؍ طالب علم مرغا بنے ہوئے تھے۔  ان میں سے ایک کہتا ہے کہ یہ اتنا ظالم ہے، مانیٹر کیسے بن گیا؟  دوسرا کہتا ہے کہ جس دن ہم لوگ غیر حاضر تھے، اسی دن مانیٹر کاانتخاب ہوا تھا۔ ہم نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا،اسلئے یہ جیت گیا۔
 بچوں کا پیغام کہاں تک پہنچا، ہم سب جانتے ہیں لیکن اس کا خمیازہ بعد میں اُن بچوں کو بھگتنا پڑا۔ بعد کی کہانی یہ ہے کہ مانیٹر کو پتہ چل گیا کہ طلبہ کے درمیان اس کا مخالف کون ہے؟ وہ انہیں پریشان کرنے لگا۔ بچوں کی قوت برداشت جواب دے جاتی تو اساتذہ سے شکایت کرتے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ان کی شکایتوں کو نظر انداز کیا جاتا یا پھر ڈانٹ ڈپٹ کر بھگا دیا جاتا۔ معاملہ حد سے آگے بڑھا تو بچوں نے پرنسپل کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ پرنسپل نے ان کی باتیں غور سے سنیں اور انہیں تسلی دی کہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی۔ بچوں کو یہ سن کر اچھا لگا۔ پہلی بار کسی نے ان کی پریشانیوں کو محسوس کیا اور ان کی دادرسی کی۔ انہیں امید تھی کہ اب حالات بدل جائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کے برعکس مانیٹر کا ظلم کچھ سوا ہوگیا۔  طلبہ نے پھر پرنسپل کے دفتر کا رُخ کیا۔ اس بار پرنسپل نے  ایک نوٹس جاری کردیا کہ مانیٹر کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی طالب علم کو پریشان کرے۔ اگر مانیٹر کی زیادتی ثابت ہوئی تو سخت سزا دی جائے گی البتہ ضابطہ شکنی کی صورت میں اسے کارروائی کی اجازت ہوگی۔ مانیٹر کو سمجھ میں آگیاکہ اسے کیا کرنا ہے؟ اس کے بعد ضابطہ شکنی کے نام پر وہ کبھی کسی طالب علم کی قلم توڑ دیتا، کبھی  بیاضیں پھاڑ دیتا، کبھی کتاب چھین لیتا تو کبھی پورا بستہ ہی ضبط کرلیتا۔ بچے ہر بار پرنسپل کے پاس جاتے اور ہر بار وہاں سے مانیٹر سے جواب طلب کیا جاتا ، کچھ نئی ہدایتیں بھی جاری کی جاتیں  .... لیکن   طلبہ کے نقصان کے ازالے کی بات ہوتی، نہ ہی اس تعلق سے کوئی کارروائی ہوتی۔ صورتحال یہ ہے کہ پرنسپل کے پاس شکایتوں کا اور مانیٹر کے پاس ہدایتوں کا انبار لگ گیالیکن سلام کیجئے طلبہ کی ہمت کا کہ وہ نت نئی پریشانیوں سے جوجھنے کے باوجود ہار نہیں مان رہے ہیں۔  

یہ بھی پڑھئے: راہل گاندھی کو ملنے والی دھمکیوں پرحکومت کی خاموشی کا مطلب اور مقصد کیاہے؟

کہانی ختم نہیں ہوئی۔ طلبہ کی حق کی لڑائی جاری ہے .... لیکن آئیے  اب ہم کچھ اپنے حالات پر بھی نظر ڈالتے چلیں۔ گزشتہ دنوںگجرات میں سومناتھ مندر کے قریب ۱۱۲؍ سال پرانی درگاہ، مسجد اور قبرستان سمیت ۹؍ عمارتوں کے خلاف بلڈوزر کارروائی کی گئی۔  معاملہ سپریم کورٹ پہنچا۔ عدالت نے انتظامیہ کو سخت سست کہا۔ متاثرین کو یہ کہہ کرتسلی دی کہ اگر انہدامی کارروائی کے دوران عدالت عظمیٰ کے ۱۷؍ ستمبر کے فیصلے کی خلاف ورزی ہوئی تو  انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور عمارتیں دوبارہ تعمیر کی جائیں گی لیکن کارروائی پر روک نہیں لگائی گئی۔ مطلب یہ کہ آئندہ سماعت تک بلڈوزر کے آہنی پنجے اپنے ایجنڈے پرلگے رہیں گے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’بلڈوزر راج‘ میں کوئی عمارت بعد میں گرتی ہے،قانون اورعدالت کا بھرم پہلے ٹوٹتا ہے

اس سے قبل ۱۷؍ ستمبر۲۰۲۴ء کواسی طرح کے بلڈوزر ایکشن سے متعلق ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کافی سخت تبصرہ کیا تھا۔ عدالت نے یکم اکتوبر تک  انہدامی کارروائیوں سےمتعلق رہنما خطوط جاری کرنے کی بات کہی تھی اور ملک کی تمام ریاستوں کو حکم دیا تھا کہ اس دوران اس کے علم میں لائے بغیرکہیں بھی کسی قسم کی انہدامی کارروائی نہیں ہونی چاہئے... البتہ عدالت نے یہ بات بھی کہی تھی کہ غیرقانونی تعمیرات پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا۔
  اس دوران یعنی یکم اکتوبر سے قبل اترپردیش سے لے آسام تک اور مدھیہ پردیش سے لے کر گجرات تک انہدامی کارروائی کا سلسلہ جاری رہا۔ متاثرین ایک بار پھر سپریم کورٹ پہنچے۔ عدالت کو آگاہ کیا کہ اس کی حکم عدولی ہوئی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس کا نوٹس لیا۔ حکومتوں پر سخت تبصرے کئے اور ان کارروائیوں سے متعلق جواب طلب کیا۔  اس کیلئے انہیں تین ہفتوں کا وقت بھی دیا۔

یکم اکتوبر کو سپریم کورٹ میں ایک بار پھرسماعت ہوئی۔ عدالت عظمیٰ  انہدامی کارروائی پر اپنے حکم نامے کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک بار پھر واضح کیا کہ انہدامی کارروائی محض اس بنیاد پر نہیں ہوسکتی کہ کوئی شخص ملزم ہے۔ اگر کوئی قصوروا ر ہے تب بھی اس کے گھر پر بلڈوزر نہیں چلایا جاسکتا ۔ عدالت نے متاثرین کو تسلی دی کہ  ہم کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔  عدلیہ کی نیت پر ہمیں کسی بھی طرح کا شبہ نہیں ہے۔  اس پر کام کا بھاری بوجھ ہے۔ سیاسی دباؤ بھی ہوسکتا ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ  نے کسی قسم کے دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بی آر ایس لیڈر ’کے کویتا‘ کی ضمانت پر جب تلنگانہ کے وزیراعلیٰ ریونت ریڈی نے طنزاًکہا کہ’’لگتا ہے بی جے پی اور بی آر ایس میں ڈیل ہوگئی ہے‘‘تو عدالت عظمیٰ نے اس کا سخت نوٹس لیا تھا۔ بعد میں ریونت ریڈی نے معافی مانگ کر معاملے کو رفع دفع کیا ۔ عدلیہ  کی آزادی پر مکمل یقین و اعتماد کے اظہار کے باوجود کچھ سوال ذہن میں ابھرتے ہیں۔ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں یہ بات کہی تھی کہ ’’ضمانت اصول ہے اور جیل استثنیٰ‘‘ سوال یہ ہے کہ پھر اس کااطلاق عمر خالد پر کیوں نہیں ہوتا؟ چار سال سے زائد عرصہ گزر گیا، اس معاملے میں سماعت شروع ہوئی ، نہ انہیں ضمانت دی جارہی ہے۔ دوسری طرف اسی دوران ارنب گوسوامی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی ضمانت کی اپیل پرفوری سماعت ہوئی تھی اور ۶؍ دن میں انہیں ضمانت دے دی گئی تھی۔ ارنب کے وقت سپریم کورٹ  نے  اسے شخصی آزادی کا معاملہ قرار دیا تھا، تو کیا عمر خالد کیلئے شخصی آزادی کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟
وزیراعلیٰ رہتے ہوئے گرفتار ہونے والے ہیمنت سورین نے لوک  سبھا انتخابات کے دوران انتخابی مہم چلانے کیلئے ضمانت کی اپیل کی تھی لیکن ان کی درخواست قبول نہیں کی گئی تھی... لیکن اب اسی طرح کے معاملے میں ہریانہ میں انتخابی مہم چلانے کیلئے اروند کیجریوال کو اور جموں کشمیر میں انتخابی مہم چلانے کیلئے انجینئر رشید کو جیل سے رہائی ملی ہے۔  ضمانت ملنا ان کا بنیادی حق ہے لیکن کیا صرف انتخابی مہم چلانے کیلئے؟ انجینئررشید رکن پارلیمان ہیں، تو کیا انہیں لوک سبھا کی کارروائیوں میںشرکت کیلئے ضمانت نہیں ملنی چاہئے؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کیجریوال اور انجینئر رشید کے انتخابی مہم میں حصہ لینے سے مرکز کے حکمراں طبقے کو فائدہ مل سکتا ہے۔کرناٹک میںایک ہی طرح کے دو معاملے سامنے آئے ہیں۔ ایک میں  وزیر مالیات نرملا سیتا رمن کو عدالت سے راحت مل گئی ہے جبکہ دوسرے معاملے میں ریاستی وزیراعلیٰ سدارمیا کو راحت نہیں ملی ہے۔ 
یہ بات درست ہے کہ کسی بھی فیصلے سے  ہر کسی کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا، خواہ وہ عدالتی فیصلے ہوں یاحکومتی.... لیکن  قانون کا ایک معروف اصول ہے کہ انصاف  صرف ہونا نہیں چاہئےبلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے۔ اچھی بات یہ ہے کہ طلبہ کی طرح ملک کے مسلمان اور دیگر متاثرین بھی ہمت نہیں ہارے ہیں۔ حق کی لڑائی جاری ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK