دو دن بعد مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات ہیں، جہاں کئی سیٹوں پر مسلمانوں کو اپنی سیاسی حیثیت منوانے اور اپنی بقا کی جنگ جیتنے کا بڑا چیلنج ہے۔
EPAPER
Updated: November 18, 2024, 4:51 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
دو دن بعد مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات ہیں، جہاں کئی سیٹوں پر مسلمانوں کو اپنی سیاسی حیثیت منوانے اور اپنی بقا کی جنگ جیتنے کا بڑا چیلنج ہے۔
لوک ادب سے تعلق رکھنے والی یہ کہانی ہم سب نے پڑھی اور سنی ہوگی جس میں ایک بڑے میاں اپنے سات جوان بیٹوں کو سات لکڑیوں کا ایک بنڈل باری باری دیتے ہیں اور اسے توڑنے کیلئے کہتے ہیں۔ جب وہ لکڑیاں نہیں توڑ پاتے تو بڑے میاں بنڈل کھول کر لکڑیاں الگ الگ کردیتے ہیں اور پھر ایک ایک لکڑی توڑنے کیلئے کہتے ہیں۔ اس کے بعد لکڑیاں توڑنے میں ان کے سارے بچے کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پھربڑے میاں انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ بیٹا تم متحد رہوگے تو تمہیں کوئی توڑ نہیں پائے گا لیکن اگر الگ الگ رہے تو اسی طرح توڑ دیئے جاؤ گے۔ ‘‘
کچھ یہی کیفیت ہندوستانی مسلمانوں کی یعنی ہماری بھی ہے۔ ہم نے جب جب بھی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے، اپنی طاقت منوائی ہے اور جب جب اختلاف کیا ہے، اسی طرح توڑ دیئے گئے ہیں۔ مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے پیش نظر آج ایک بار پھر ہمارے سامنے یہی صورتحال ہے۔ ۲۰؍ نومبر کو ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم اپنی طاقت منوائیں گے یا خود کو اس طرح سے پیش کریں گے کہ توڑ دیئے جائیں۔ انتخابات کو عام طورپر امیدواروں کیلئے امتحان تصور کیا جاتا ہے لیکن آج کی تاریخ میں یہ رائے دہندگان بالخصوص ہم مسلمانوں کیلئے ایک بڑا امتحان بن گیا ہے۔ بی جے پی نےماحول کو ’ہندوتواوادی‘ بنا کر ہمارے سامنے ایک بڑا چیلنج پیش کردیا ہے۔ ہمارے سامنے ’کرو یا مرو‘ جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
کچھ یہی صورتحال ۶؍ ماہ قبل ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی تھی۔ اُس وقت ہم نے اتحادو اتفاق، ہوش و بیداری اور بہترین نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا تھا۔ ہم نے شاندار طریقے سے اپنی طاقت منوائی تھی، جس کااحساس فرقہ پرستوں کو بھی تھا اور سیکولر طاقتوں کو بھی۔ ہماری اُس حکمت عملی نے باطل طاقتوں کے اندر بے چینی پیدا کر دی تھی، جس کا توڑ نکالنے کی کوشش انہوں نے اُسی دن سے شروع کردی تھی۔ اس کا اندازہ انہیں پہلے دن سے ہوگیا تھا کہ مسلمانوں کو مسلمان ہی ہراسکتے ہیں، کوئی اور نہیں، اسلئے انہوں نے اسی لائن پر محنت کی۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک ایک حلقے میں کئی کئی مسلم امیدوار میدان میں ہیں اور ہر امیدوار کے پاس میرصادقوں اور میرجعفروں کی فوج بھی ہے۔ ان حالات میں ان تمام لوگوں پر جن میں قوم کا در د ہے، ایک بڑا چیلنج ہے۔
یہ بھی پڑھئے:چندرچڈ صاحب! آپ یاد رکھے جائیں گے
یہ انتخابی نتائج ثابت کریں گے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں یانہیں ؟ہم میں وقت و حالات کا ادراک ہے یا نہیں ؟ ہمارے اندر وقار کےساتھ رہنے کی رمق باقی ہے یا نہیں ؟ اور یہ کہ ہم میں اپنے اندر موجود میرجعفروں اورمیر صادقوں کی شناخت کی صلاحیت ہے یانہیں ؟ ان تمام سوالات کے جواب ۲۳؍ نومبر کو ملیں گےلیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی، اگر اس سے پہلے ہم نےبحیثیت ایک قوم ہوش کے ناخن نہیں لئے۔ لوک سبھا الیکشن ہی کی طرح یہ الیکشن بھی کوئی عام الیکشن نہیں ہے۔ اس کے نتائج اگر خوش آئند رہے تو ہماری وہ سیاسی حیثیت باقی رہے گی جو لوک سبھا انتخابات کے دوران قائم ہوئی ہے، بصورت دیگر ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کی طرح ہم ایک بار پھربے وقعت ہو کر رہ جائیں گے۔
۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق مہاراشٹر میں مسلمانوں کی شرح تقریباً ۱۲؍ فیصد ہے۔ صوبے کے ۳۶؍ اضلاع میں سے ۹؍ اضلاع میں ہماری آبادی ۱۵؍ فیصد سے زائد ہے اور ریاست کی ۲۸۸؍ نشستوں میں سے کم از کم ۶۰؍ نشستیں ایسی ہیں جہاں ہم ہار جیت میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انتخابات کے پیش نظر ہمیں مذکورہ ۶۰؍نشستوں کی نشاندہی کرکے اس پر خاص محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری وجہ سے فرقہ پرستوں کی جیت کا راستہ ہموار نہ ہو۔ عام طورپر ہر الیکشن میں ملک کو بچانے اور ملک میں جمہوریت کو قائم و دائم رکھنے کی ذمہ داری ہم پر ہی عائد ہوتی ہے اور ہم نے بڑی حدتک اس ذمہ داری کو نبھایا بھی ہے، لیکن اس بار کی صورتحال ذرا نازک اور امتحان سخت ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم اپنے ایک ایک ووٹ کا حساب رکھیں اور ان ووٹوں کانہایت شعور کے ساتھ بہترین استعمال کریں۔
اس بار حالات جہاں سخت ہیں، وہیں بیشتر حلقوں میں اس بات کی آسانی بھی ہے کہ ہمارے سامنے ووٹوں کی تقسیم کا خدشہ نہیں ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ریاست کے تمام رائے دہندگان کے سامنے بیشتر جگہوں پر پوری طرح واضح ہے۔ انہیں اِدھر رہنا ہے یا اُدھر، فیصلہ کرنے میں آسانی ہے البتہ ریاست کی دو درجن سے زائد نشستوں پر فرقہ پرست طاقتوں کی سازش کامیاب رہی ہے۔ ان حلقوں میں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے ہمارے درمیان موجودکالی بھیڑوں کو روپوں پیسوں کی طاقت سے لیس کرکے میدان میں اتار دیا ہے۔ ان حالات میں نہ صرف یہ کہ ان کے ساتھ جانے والوں کو روکنا ہے بلکہ ان کالی بھیڑوں کی شناخت بھی کرنی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ آج کی تاریخ میں مین اسٹریم کی کوئی ایسی پارٹی نہیں ہے جو ہماری ہمنوائی کرے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو پارٹی کھلم کھلا مسلم دشمنی کا اظہار کرتی ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ یہی وہ وقت ہے، جب ہم اسے اقتدار کے گلیاروں میں پہنچنے سے روک سکتے ہیں۔
ووٹ دیتے ہوئے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں ہمارے ووٹوں سے بالواسطہ یا بلا واسطہ اُسے فائدہ نہ پہنچے جس کی خوراک ہی مسلم دشمنی ہے۔ ہمیں صرف آج یا آئندہ کا پانچ سال ہی نہیں دیکھنا ہے بلکہ ہماری آنکھوں کے سامنے اپنا، اپنےبچوں کا، اپنے حلقے کا، اپنی ریاست کا اوراپنے ملک کا مستقبل بھی ہونا چاہئے۔ چند سکوں کی خاطر اپنا ایمان بیچنے سے قبل ہمیں حالیہ چند برسوں میں ہونےوالی اپنے دگرگوں حالات کا جائزہ لینا چاہئے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہمارا ایک غلط ووٹ، ہماری مخالف طاقت کو دُہری قوت عطاکرے گا۔ غلطی ہم آج کریں گےلیکن اس کا خمیازہ ہماری نسل صدیوں بھگتےگی۔
آج ہمیں ۲؍ محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا یہ کہ ووٹنگ سے قبل ہی درجنوں امیدواروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں اور دوم یہ کہ اپنے اپنے بوتھ پر زیادہ سے زیادہ پولنگ کی منصوبہ بندی کریں۔
اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی فرد ووٹ دینے کے حق سے محروم نہ رہ جائے۔ اس کیلئے ایک ایک گھر، ایک ایک بلڈنگ، ایک ایک محلہ اور ایک ایک بوتھ پر نظر رکھنی ہوگی اور اس کا حساب کتاب رکھنا ہوگا۔ اس طرز حکمرانی میں، جہاں ’بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے‘ وہاں ایک ایک ووٹ کی بڑی قیمت ہوتی ہے۔ ایک ایک ووٹ سے ہار جیت ہوتی ہے۔ ایسے میں نتائج آنے کے بعد سر پکڑ کر بیٹھنے سے کچھ نہیں ہوگا، جو کچھ کرنا ہے، آج ہی کرنا ہے اورسوچ سمجھ کرکرنا ہے۔
۲۰۱۹ء کے اسمبلی انتخابات میں ۲۸۸؍ میں ۳۴؍ اسمبلی حلقے ایسے تھے جہاں ہار جیت ۵؍ ہزار ووٹوں کے کم فرق سے ہوئی تھی جن میں سے ۵؍ امیدوار محض ایک ہزار سے بھی کم ووٹوں کے فرق سے ہارے تھے۔ انہیں میں سے ایک سیٹ چاندیولی کی تھی جہاں کانگریس کے سینئر لیڈر عارف نسیم خان محض ۴۰۹؍ ووٹوں سے ہار گئے تھے جبکہ اُسی حلقے میں ایک مسلم امیدوار کو تقریباً ۹؍ ہزار ووٹ مل گئے تھے۔ ہمارے انتشار نے جہاں وہ ایک سیٹ گنوائی تھی، وہیں اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرکے اسی طرح کے سخت مقابلے میں ہم نے ایک سیٹ حاصل بھی کی تھی۔ وہ سیٹ تھی بھیونڈی مشرق کی جہاں سے سماجوادی پارٹی کے امیدوار رئیس قاسم شیخ نے محض ۱۳۱۴؍ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔ تصور کیجئے کہ اگر ۳۴؍ سیٹوں کے نتائج ادھر کے ادھر ہوتے تو کیا ہوتا؟
کچھ یہی صورتحال ہمارے سامنے آج بھی ہے۔ اگر ہم نے شعور کے ساتھ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا تو بھیونڈی مشرق کی طرح خوشگوار نتائج برآمد ہوں گے، بصورت دیگر چاندیولی جیسے نتائج ہمارا منہ چڑائیں گے۔ اب یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ وقت رہتے کچھ کرنا ہے یا پھر وقت گزرنے کے بعد لکیر پیٹنی ہے۔ وقت ابھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اسلئے ہمیں اپنی صفوں کو درست کرنا ہوگا، اپنی طاقت کو پہچاننا ہوگا اور صحیح سمت میں صحیح طریقے سے اپنی توانائی کا بھرپور استعمال کرنا ہوگا۔ یاد رہے، ووٹ نہ دینے والے، ووٹ غلط دینے والے، ووٹرس کو بہکانے والے اور صرف زبانی جمع خرچ کرنے والوں کو آئندہ کچھ بولنے اور شکایت کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ بقول شاعر:
ہو بے گناہ تو ہونے سے کچھ نہیں ہوگا:ثبوت دیجئے رونے سے کچھ نہیں ہوگا
دیا دیئے سے جلاؤ تو روشنی ہوگی:دیا زمین میں بونے سے کچھ نہیں ہوگا