جس طرح جے شری رام کے نعرہ کےساتھ اسمبلی میں بل کو پیش کیاگیا اس نے اس کے مقصد کو روز روشن کی طرح عیاں کردیا ہے مگر آرٹیکل مذہب پر عمل کی آزادی کا کیا ہوگا؟
EPAPER
Updated: February 11, 2024, 4:58 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
جس طرح جے شری رام کے نعرہ کےساتھ اسمبلی میں بل کو پیش کیاگیا اس نے اس کے مقصد کو روز روشن کی طرح عیاں کردیا ہے مگر آرٹیکل مذہب پر عمل کی آزادی کا کیا ہوگا؟
آرٹیکل ۳۷۰؍ کی منسوخی اور رام مندر کی تعمیر کےبعد بی جےپی نے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے اپنے انتخابی وعدہ کی تکمیل کی جانب بھی پیش رفت کردی ہے۔ اتراکھنڈ آزادی کے بعد یکساں سول کوڈ کو منظور کرنے والی ملک کی پہلی ریاست بن گئی ہے۔ جے شری رام اور وندے ماترم کے نعروں کے ساتھ اسمبلی میں جس طرح بل پیش کیاگیا، اس سے یہ واضح ہوگیا تھاکہ اس کا مقصد عائلی قوانین میں یکسانیت پیدا کرنا کم اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’یکساں سول کوڈ‘ کے نام سے پاس کئے گئے اس مسودہ قانون میں ’’یکسانیت ‘‘ کم اور مسلم دشمنی زیادہ نظر آتی ہے۔ ’’یکسانیت‘‘ کے نام پر بنائے گئے اس سول کوڈ سے جہاں قبائل کو مستثنیٰ کردیا گیا ہے وہیں ’مشترکہ ہندوخاندان‘ کواس میں چھیڑنے کی جرأت نہیں کی گئی بلکہ ساری توجہ مسلمانوں کے عائلی قوانین پر ہی مرکوز رکھی گئی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک نظر ڈال لیتے ہیں کہ اتراکھنڈ کا یکساں سول کوڈ کیا ہے اور مسلمانوں کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟
اتراکھنڈ کے یکساں سول کوڈ میں کیا ہے؟
اتراکھنڈ کایکساں سول کوڈ کئی معاملوں میں شرعی قوانین سےمتصادم ہےاور مسلمانوں کو اپنے مذہبی قوانین پر عمل کرنے سے روکتانظر آتا ہے۔ اس طرح یہ بادی النظر میں آئین میں فراہم کردہ مذہب پر عمل کی آزادی کے خلاف ہے جو بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ مثال کے طور پر اس قانون کے تحت جہاں دوسری شادی کو قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے وہیں مسلمانوں کو طلاق کے شرعی حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے بلکہ طلاق حاصل کرنے کیلئے کورٹ جانے کو لازمی کردیاگیا اور وہ بھی شادی کو ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد ہی ممکن ہے۔
یہ بھی پڑھئے: گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ میں پوجا کی اجازت کیا عبادتگاہ قانون کے خلاف نہیں ہے؟
طلاق کے معاملے میں میاں اور بیوی دونوں کو یکساں حق فراہم کردیا گیا اور گزارا بھتہ کے معاملے میں یہی طرز عمل اختیار کیا گیا ہے یعنی جس طرح بیوی گزارا بھتہ کا مطالبہ کرسکتی ہے اسی طرح مرد بھی بیوی سے گزارا بھتہ کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ طلاق سے متعلق قانون کی خلاف ورزی (اس کا مطلب یہ بھی سمجھا جاسکتاہے کہ عدالت نہ جاکر اسلامی شریعت کے مطابق طلاق دینے) پر ۳؍ سال کی سزا کا التزام کیا گیا ہے۔ اسی طرح نئے قانون میں طلاق کے بعد عدت پر بھی ایک طرح سے پابندی عائد کردی گئی ہے اور عورت کو طلاق کے فوراً بعد دوسری شادی کیلئے آزاد کیاگیا ہے۔
اکثریتی فرقے کے اصول تھوپنے کی کوشش
نئے قانون میں اکثریتی فرقے کے اصولوں کو تمام فرقوں پر تھوپتے ہوئے چچازاد، پھوپھی زاد، خالہ زاد اور ماموں زاد بھائی بہنوں کی شادی پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ نیز میراث کی تقسیم کے معاملے میں بھی اکثریتی فرقے کے قانون کو ہی سب پر تھوپتے ہوئے بیٹے اور بیٹی کیلئے میراث میں یکساں حصہ طے کیاگیا ہے جبکہ شریعت محمدیؐ کے مطابق باپ کی میراث میں بیٹی کا حصہ بیٹے کا نصف ہوتا ہے۔ وصیت کے معاملے میں بھی شرعی قانون کے برخلاف یہ اختیار دیاگیاہے کہ پوری ملکیت کے تعلق سے وصیت کی جاسکتی ہےجبکہ شرعاً کوئی بھی شخص اپنی ایک تہائی ملکیت کے تعلق سے ہی وصیت کرسکتاہے۔
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اترا کھنڈ کے یکساں سول کوڈ کو’’ہندو کوڈ‘‘قراردیتے ہوئے صحیح نشاندہی کی ہے کہ ’’ہندو غیر منقسم خاندان کو اس میں کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ اگر آپ وراثت کیلئے یکساں قانون چاہتے ہیں تو ہندوؤں کو اس سے باہر کیوں رکھا گیا ہے؟ کیا کوئی قانون اس صورت میں بھی یکساں ہو سکتا ہے، جب ریاست کی اکثریت پر وہ نافذ ہی نہ ہوتا ہو؟‘‘ قبائلیوں کو اس سے مستثنیٰ رکھنے پر بھی سوال اٹھنا لازمی ہے کیوں کہ پھر یہ سوال قائم ہوتاہے کہ ’’ اگر ایک کمیونٹی کو استثنیٰ حاصل ہے تو قانون سب کیلئے یکساں کیسے رہ گیا؟
سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش
اس طرح اتراکھنڈ حکومت نےا ن اندیشوں کو درست ثابت کردیا جو یکساں سول کوڈ کے تعلق سے ایک عرصے سے ظاہر کئے جا رہے تھے۔ وہ یہ ہیں کہ اس کے ذریعہ اکثریتی فرقے کے عائلی قوانین کو اقلیتوں پر تھوپنے کی کوشش کی جائے گی۔ اتراکھنڈ نے یکساں سوِل کوڈ ملک کے ۲۱؍ ویں لاء کمیشن کی اس رپورٹ کے باوجود نافذ کیا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’ ملک میں اس وقت یہ نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب ہے۔ ‘‘ لاء کمیشن کی یہ رپورٹ جن امور کو ملحوظ رکھ کر تیار کی گئی تھی ان میں سر فہرست برادران وطن (ہندوؤں ) کی رسم و رواج کا پیچیدہ جال تھامگر اتراکھنڈ سرکار نے بڑی ہی چالاکی سے یکساں سول کوڈ کچھ اس طرح ترتیب دیا ہے کہ اس کی زد پر صر ف مسلمان آئیں۔ اہم بات یہ ہے کہ آئین کے جس آرٹیکل ۴۴؍ کو یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے جواز کے طور پر استعمال کیاگیاہے اس میں کہیں بھی اسے مسلط کرنے یا تھوپنےکی وکالت نہیں کی گئی بلکہ ملک میں اس کیلئے ماحول تیار کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ ا گر مسلط ہی کرنا ہوتا تو آئین بناتے وقت ہی اسے اس میں شامل کر دیاگیا ہوتا۔ دوسری طرف ملک کا آئین آرٹیکل ۲۱؍ کے تحت مذہبی آزادی کو بنیادی حقوق میں شمار کرتاہے اور یکساں سول کوڈا س سے متصادم ہے۔ سوال یہ ہے کہ بنیادی حقوق جن کی ضمانت آئین دیتا ہے، انہیں ترجیح دی جائے گی یاان رہنما خطوط کو ترجیح دی جائے گی جو آئین سازوں نے بطور مشورہ آئین میں شامل کئے ہیں اور جن میں یونیفارم سول کوڈ بھی شامل ہے۔
عدالتوں سے توقع
ایسے وقت میں جبکہ عام انتخابات کو مشکل سے ۳؍ مہینے بچے ہیں، ایک طرف جہاں اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کا بل پیش کرکےاسے منظور کرالیا گیا وہیں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اعلان کیا ہےکہ پارلیمانی الیکشن سے قبل شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے )کو نافذ کر دیا جائےگا۔ مقصد بہت واضح ہے۔ بی جےپی کو کسی بھی صورت میں ۲۰۲۴ء کا پارلیمانی الیکشن جیتنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کی امید کم ہے کہ یکساں سول کوڈ کا معاملہ اتراکھنڈ تک محدود رہے گابلکہ جس طرح ’’بلڈورز ایکشن ‘‘ اور ’’لوجہاد‘‘ کے نام پر بنائے گئے قوانین کے معاملے میں بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں نے ایک دوسرے کی پیروی کی اسی طرح یو سی سی کے معاملے میں بھی بھیڑ چال کا قوی امکان ہے۔ ایسے میں یہ معاملہ یقیناً عدالتوں میں پہنچے گا۔ اب ایسے میں کورٹ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ آئین کے رہنما خطوط اور بنیادی حقوق کے درمیان تصادم میں کس کے حق میں فیصلہ سناتا ہے۔