نوجوانو! ہمارے گھروں میں اکثر بڑے بزرگ وسائل کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں،ان حالات میں بھی آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ وسائل سے زیادہ بصیرت اہم ہے۔
EPAPER
Updated: October 28, 2024, 5:45 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
نوجوانو! ہمارے گھروں میں اکثر بڑے بزرگ وسائل کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں،ان حالات میں بھی آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ وسائل سے زیادہ بصیرت اہم ہے۔
نوجوانو! ہمارے گھروں میں اکثر بڑے بزرگ وسائل کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں،ان حالات میں بھی آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ وسائل سے زیادہ بصیرت اہم ہے۔ دسویں صدی میں کیا وسائل دستیاب تھے مگر اُس صدی میں ابن سیٖنا نے طب میں وہ تحقیقات کیں کہ اُن کی تحریر کردہ کتاب ’القانون فی الطب‘ ۴۷۵؍برسوں تک یورپ کے میڈیکل کالجوں کے نصاب میں شامل رہی۔اسی دوران ہمارے دانشوران، ہمارے محققین، ہمارے علماء اور ہمارے مبلّغین نے دینی وعصری علوم کی بیش قیمت خدمات انجام دیں۔اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھئے کہ انہی دنوں ہمارے حکمرانوں کے پاس کیاکچھ نہیں تھا مگر ان میں سے بیشتر کے پاس وہ جذبہ نہیں تھا اور وہ دُور اندیشی سے محروم اور بصیرت سے نابلد تھے۔
نوجوانو! سوچئے یہ دنیا اگر کسی پرچم سے ہی چلتی تو امیر تیمور کا ازبکستان زندہ رہتا، چنگیز خان کے منگولیا کا بھی کوئی نام و نشان ہوتا اور مشرق وسطیٰ سے افریقہ تک پھیلی ایوبی سلطنت کا ڈنکا اب تک بج رہا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ اِن سارے حکمرانوں کے مقابلے میں ہم اگر آج بھی بوعلی سیٖنا کو شدّت سے یاد کررہے ہیں اُس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے ہاتھ میں عِلم کا پرچم تھا۔ عزیز طلبہ! علم کے عَلَم برداروں کے مزید کچھ نام بھی جان لیجئے: فاطمہ الفریہ (مراکش کی پہلی یونیورسٹی کی بانی)ابنِ الہیشم(کیمرہ)، الخوارزمی(الجبرا)، احمد بن طولُون (دنیا کا پہلا اسپتال)، محمد ابن علی خراسانی(گھڑی)، ابوقاسم زہراوی (سرجری)، جابر بن حیان (کیمیا)۔
دراصل کئی صدیوں تک ہمارے حکمراں امریکہ ،برطانیہ اور فرانس کے صدور سے زیادہ طاقتور تھے مگر اُن کو اپنی ترجیحات کا عِلم نہیں تھا۔ ترجیحات سے لا علمی کتنی بڑی کوتاہی ہوتی ہے، اس کو سمجھنے کیلئے ہم تاریخ کے چند صفحات پلٹنا چاہیںگے:
(۱) مغل بادشاہ جہانگیر کی بینائی کمزور ہوئی تو ایک انگریز طبیب نے اُسے ایک عینک پیش کی جس پر بادشاہ بے حد خوش ہوا اور اُس عینک پر ہیرے جواہرات بھی لگادیئے مگر عینک بنانے کا کارخانہ قائم کرنے کا خیال بادشاہ کو نہیں آیا۔
(۲) مغل بادشاہ فرخ سیر کی بیٹی بیمارہوئی اوراُس کا علاج ایک انگریز ڈاکٹر نے کیا۔اُن دنوں ہمارے بادشاہوں کی ایک اسٹائل ہوا کرتی تھی۔ اُس کے مطابق بادشاہ نے کہا کہ ’’مانگوکیا مانگتے ہو؟ ‘‘ اور پھر یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ بادشاہ نے جنوبی ہند کے سارے محصولات ایسٹ انڈیا کمپنی کیلئے مختص کردئیے۔
(۳) شاہ جہاں نے اپنی بیگم کی یا دمیں آگرہ میںتاج محل بنایا۔ اس بادشاہ کے پاس دنیا کے بہترین آرکٹیکٹ کی ایک فوج موجود تھی۔ ایک بابصیرت حکمراںنے اُن کی مدد سے آگرہ میں تاج محل کے بجائے ’ممتاز محل یونیورسٹی آف آرکیٹکچر‘ بنائی ہوتی۔ اُس یونیورسٹی سے اب تک لاکھوں مسلم نوجوان آرکٹیکٹ تیار ہوئے ہوتے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہ جہاں کا تاج محل فنِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے لیکن اُس کے ذریعے حاصل ہونے والی کروڑوں کی آمدنی سے ایک روپیہ بھی اس قوم کو براہِ راست نہیں ملتا۔ اب کچھ لوگ شاید یہ کہیں گے کہ اُس زمانے میں یونیورسٹی وغیرہ کا چلن کہاںتھا؟ اُن لوگوں کی معلومات کیلئے ہم عرض کرنا چاہیں گے کہ شاہ جہاں کے دور سے ۵۳۲؍سال قبل آکسفورڈ یونیورسٹی، ۴۷۵؍سال قبل پیرس یونیورسٹی اور ۴۱۵؍سال قبل کیمبرج یونیورسٹی قائم ہوچکی تھی۔ اس ضمن میںایک بات اور سُن لیجئے۔ اپنی بیوی کی یاد میں ایک یا کئی اسپتال قائم کرنے کا جواز بھی شاہ جہاں کے پاس تھا، اسلئے کہ ممتاز محل کا انتقال بچّےکی زچگی کے وقت ہوا تھا۔ اسلئے شاہ جہاں دہلی کے ایمس اسپتال اور ممبئی کے کنگ ایڈورڈ میموریل (کے ای ایم) اسپتال سے کئی گنا بڑے اسپتال ملک بھر میں قائم کرسکتا تھا اور اُن اسپتالوں سے قوم کو ہزاروں ڈاکٹر ہر سال مہیّا ہوسکتے تھے۔
(۴) جدید علوم سے بیزاری کا انجام کیا ہوتا ہے، ہمارے طلبہ اس کو نوٹ کرلیں۔ بکسر کی جنگ سے قبل ہمارے شہنشاہ انگریزوں اور برطانیہ کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور کیوں کر لاتے، اُن کی نظر میں وہ ۴۰؍ لاکھ مربع کلومیٹر کے برِّ صغیر کے شہنشاہ تھے اور برطانیہ صرف ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا مگر صرف دوسو نفوس پر مشتمل ایسٹ اِنڈیا کمپنی نے مغلیہ سلطنت کی چولیں ہلادیں اور آخری شہنشاۂ ہند کو راجدھانی سے بہت دور ایک گودام میں قید تک کرلیا تھا جہاں ۸۲؍سالہ شہنشاہ انگیٹھی کے کوئلے سے دیوار پر اپنے اشعار لکھا کرتے تھے۔
پہلی جنگ آزادی میں مسلمانوں پر کیا بیتی، اِس کی ایک ہلکی سی جھلک راشد الخیری کی تصنیف ’غدر کی ماری شہزادیاں‘ سے ہمیں ملتی ہے۔ یہ خونچکاں داستان سرسید کے قلم سے بھی نہیںلکھی گئی مگر اُن رونگٹے کھڑے کرنے والی داستانوں سے سب سے زیادہ وہی متاثرہوئے البتہ اُس بھیانک رات کے دامن میں بھی سورج طلوع ہوگا اُس کی نوید بھی اُنھوں نے سنائی تھی اور جدید علوم اور ٹیکنالوجی سے وابستگی کیلئے اُنھوں نے سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس جیسی مثبت کوشش، اُن کے خوابوں کی تعبیر اور اُس کی اُمّیدافزاء تصویر ہم نوجوانوں کو پیش کرنا چاہیں گے:
(ا) برِّ صغیر کے سب سے بڑے سائنس داں اور میزائل مین اے پی جے عبدالکلام بھی علی گڑھ تحریک سے متاثر تھے۔ اپنی بہن کے زیورات بیچ کر ایرو انجینئرنگ کی گریجویشن کی فیس ادا کرنے والے اس عظیم سائنس داں کو دنیا بھر کی ۴۰؍سے زائد یونیورسٹیوںنے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈِگریاں دی تھیں۔
(۲) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے زولوجی میں پوسٹ گریجویشن کرنے والے ڈاکٹر سید ظہور قاسم آگے چل کر پہلے ہندوستانی سائنس داں بنے جنھوںنے ۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۸ء تک برفیلے انٹارٹیکا میں ملک کے مشن کی قیادت کی۔
(۳) اے ایم یو ہی سے فارغ فزکس داں ڈاکٹر اسرار احمد کے ۴۸؍ سے زائد تحقیقی مقالے عالمی سطح کے فزکس کے جرنل میںشائع ہوچکے ہیں۔
(۴) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہی سے تعلیم یافتہ ڈاکٹر عبید صدیقی کو ملک کے انتہائی مؤقرتحقیقی ادارے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈا مینٹل ریسرچ کے بانی ڈائریکٹر ہونے کا اعزازحاصل ہے۔نیوروجینٹک میں اعلیٰ درجے کی تحقیقات کی بناء پر ڈاکٹر صدیقی کو ایشیاء کا ایک ممتاز سائنس داں قرار دیا جاتا ہے۔
(۵) ڈاکٹر یوسف خواجہ حمید نے فارماسیوٹیکل سائنس میں اس قدر اعلیٰ درجے کی تحقیق کی کہ کیمبرج یونیورسٹی نے اپنے کیمیا کے شعبے کا نام اُن سے منسوب کردیا۔
(۶) ڈاکٹر یوسف حمید کے والد ڈاکٹر خواجہ حمید نے جرمنی میں جاکر سائنس کے میدان میں نمایاںتحقیق کی۔ یہاں یہ ذکر ہی اہمیت کا حامل ہے کہ اُن کے ایک شاگرد(جامعہ ملّیہ کے طالب علم)پروفیسر اخلاق الرحمان قدوائی کو یو پی ایس سی کے پہلے مسلم چیئرمین ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
(۷) جامعہ ملّیہ اسلامیہ اپنے وجود کے ۱۲۵؍سال پورے کر رہا ہے۔ اُس کے ایک پروفیسر عمران علی کو امریکہ کی سرکردہ یونیورسٹی اسٹین فورڈ یونیورسٹی نے اینا لیٹیکل کیمسٹری میںہندوستان کا نمبروَن سائنس داں قرار دیا ہے۔
(۸) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہی سے فارغ اور جامعہ ہمدرد کے پہلے پرووائس چانسلر ڈاکٹر احمد کمال کو نامیاتی کیمیا کی تحقیق میں ملک بھر میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔
عزیز طلبہ! کامیابی کے اس نئے دَور کو اب آپ کو مزید روشن کرنا ہے۔ہمیں یقین ہے کہ ہم میں سے ہر فرد، ہر گھر، ہر خاندان اگر اپنا ویژن اور اپنا حوصلہ بلند کرتا ہے، وقتی فائدوں کے پیچھے نہیں بھاگتا ہے اور ہر پل اُس کے سر پر یہ دُھن سوار ہو کہ بہرحال اپنی قوم کو سُرخرو کرنا ہے تو ہم اپنے پُرانے روشن و تابناک دَور میں لَوٹ سکتے ہیں۔