یہ اندیشوں کو جنم دیتا ہے ، یہ جواز بھی نہیں دیا جاسکتا کہ ووٹنگ مشینوں کو گنتی کے مراکز تک پہنچنے میں دیر لگے گی
EPAPER
Updated: January 19, 2025, 9:33 PM IST | Jagdeep Chhokar | Mumbai
یہ اندیشوں کو جنم دیتا ہے ، یہ جواز بھی نہیں دیا جاسکتا کہ ووٹنگ مشینوں کو گنتی کے مراکز تک پہنچنے میں دیر لگے گی
۷؍ جنوری کو ایک گھنٹہ طویل پریس کانفرنس میں الیکشن کمیشن آف انڈیا نے دہلی میں ۵؍ فروری کو الیکشن منعقد کرانے اور ۸؍ فروری کو ووٹوں کی گنتی کا اعلان کیا۔ یہ بظاہر بے ضرر سا یہ اعلان کچھ سوالات کو جنم دیتا ہے۔ بنیادی سوال یہی ہے کہ کیا کسی ایسی ریاست میں نتائج کے اعلان کیلئے ۳؍ دن درکار ہونے چاہئیں جس میں صرف۷۰؍ اسمبلی حلقے ہوں اور زیادہ تر شہروں پر مشتمل ہو اورمعقول حد تک اچھا انفرااسٹرکچر موجود ہو۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ا ی وی ایم) کے استعمال کے حق میں جو دلیلیں دی جاتی ہیں ان میں سے ایک یہ اور بہت توانا دلیل یہ ہے کہ اس سے نتائج کا اعلان جلد کیا جا سکتا ہے کیونکہ کاغذی بیلٹ کی گنتی میں بہت وقت لگتا ہے۔
جب دیگر ریاستوں کےاسمبلی انتخابات کے بعد نتائج پولنگ کے کئی دن بعد یا کئی مراحل میں الیکشن کی صورت میں آخری مرحلے کے بعد ظاہر کئے جاتے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ای وی ایم کو دور دراز کے پولنگ بوتھ سے گنتی کے مراکز تک پہنچانے میں وقت لگتا ہے۔ دہلی میں تو ایسے دور دراز علاقے ہیں ہی نہیں کیونکہ دہلی کے جو دیہی علاقے ہیں وہ بھی معقول حدتک اچھی سڑکوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اگر کچھ پولنگ مراکز میں طویل قطاروں کی وجہ سے ۵؍ فروری کو ووٹنگ رات ۱۱؍بجے تک بھی چلتی ہے، تب بھی بڑی آسانی سے تمام ای وی ایم دوسرے دن صبح ۸؍بجے تک گنتی کے مرکز تک پہنچائی جاسکتی ہیں۔ اس طرح گنتی دوسرے دن یعنی ۶؍ فروری کو آسانی سے صبح۸؍ بجےشروع ہو سکتی تھی اور اسی دن دوپہر تک نتائج کا اعلان بھی ممکن تھا۔
کبھی کبھی پولنگ اورووٹوں کے گنتی کے درمیان ایک دن کا وقفہ اس لئے رکھا جاتا ہے تاکہ اگر کسی بوتھ پر دوبارہ پولنگ کی ضرورت پڑے تو وہ کروائی جاسکے۔ مگر موجودہ حالات میں ۲؍ حقائق ایسے ہیں جو نشاندہی کرتے ہیں کہ نتائج کے اعلان کو ۸؍ فروری تک ملتوی کرنے کی یہ وجہ قطعی نہیں ہے۔ اوّل موجودہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کا ٹریک ریکارڈ ہے۔ الیکشن کمیشن ہمیشہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ انتخابات اتنے پرفیکٹ طریقے سے منعقد کرواتا ہے کہ دوبارہ پولنگ کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ الیکشن کمیشن کے اس بزعم خود بے عیب کارکردگی کو دیکھتے ہوئے کسی بھی مرکز پر دوبارہ پول کے امکانات نہ کے برابر ہیں۔ دوم یہ کہ بالفرض محال اگر کہیں کسی پولنگ مرکز پر دوبارہ پولنگ کا حکم دے بھی دیا جاتا ہے تو چند ایک اسمبلی حلقے کے نتائج کا اعلان بعد میں کرنے کا متبادل تو موجود ہی ہے۔ یعنی ۶۸ یا ۶۹؍ اسمبلی حلقوں کے نتائج کا اعلان ہوجاتا اور جس حلقے کے کسی مرکز میں دوبارہ پولنگ کی نوبت آتی وہاں کا نتیجہ دوسرے دن ظاہر کردیا جاتا۔ اس لئے ظاہر ہے کہ پولنگ اور انتخابی نتائج کے اعلان کے درمیان ۳؍ دن کے وقفے کی کوئی منطقی وجہ نہیں ہے۔ تاہم، یہ بھی یقین نہیں کیا جا سکتا کہ الیکشن کمیشن نے ایساکسی وجہ کے بغیر کیا ہو۔
یہ بھی پڑھئے: دہلی فسادات :اصل مجرموں کاکہیں نام تک نہیں
چونکہ الیکشن کمیشن نے اس کی وجہ ظاہر نہیں کی جو(موجودہ) الیکشن کمیشن سے غیر متوقع بھی نہیں ہے، اس لیے اس سلسلے میں قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہونا عین فطری ہے۔ گزشتہ چند انتخابات کے تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، بطور خاص ۲۰۲۴ءکے لوک سبھا انتخابات سے پولنگ کے بعد دھیرے دھیرے پولنگ فیصد بڑھنے کا جو رجحان شروع ہوا ہے ، اس نے ان اندیشوں کو ہوا دی ہے کہ دہلی اسمبلی کے الیکشن اور نتائج کے اعلان میں ۳؍ دنوں کے موقفہ میں بھی کچھ حلقوں میں ایسا ہی ہوگا۔ یہ محض قیاس آرائیاں اوراندیشے ہیں تاہم ایسے شکوک و شبہات کو دور کرنے اور عوام میں یقین پیدا کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی جانی چاہئے۔
اس کا ایک واضح تریاق ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ چیف الیکشن کمشنراکثر کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کےرہنما اصول میں ہر چیز کو عوام کے سامنے کھول کر رکھ دینا شامل ہے، اس لئے ان سے یہ توقع غلط نہیں ہے کہ وہ ووٹنگ کے ۳؍ دن بعد نتائج کے اعلان کے پیچھے کی حکمت عملی کو بھی عام کریں۔ اس طرح تمام قیاس آرائیوں اور خدشات کا سد باب ہوجائے گا۔ ظاہر ہے، یہ جتنی جلدی ہو جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ مگر کیا چیف الیکشن کمشنر ایسا کریں گے؟
قوم کوا س کا انتظارہے!