• Wed, 16 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آپ یہ عہد کرلیں کہ آپ کا ایک گروہ اخلاقی اقدار، پیش رفت اور معاشی خوشحالی کیلئے سرگرم ہو

Updated: October 15, 2024, 5:26 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

 عزیز طلبہ! معاشیات و اقتصادیات اسکول /کالج میں پڑھایا جانے والا صرف ایک مضمون نہیں ہے بلکہ اس کا زندگی سے کچھ ایسا تعلق ہے کہ کسی بھی باخبر معاشرے میں اسے ریڑھ کی ہڈّی سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہمارے معاشرتی علوم کی ایک انتہائی اہم شاخ ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اقتصادیات کی اہمیت و افادیت
 عزیز طلبہ! معاشیات و اقتصادیات اسکول /کالج میں پڑھایا جانے والا صرف ایک مضمون نہیں ہے بلکہ اس کا زندگی سے کچھ ایسا تعلق ہے کہ کسی بھی باخبر معاشرے میں اسے ریڑھ کی ہڈّی سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہمارے معاشرتی علوم کی ایک انتہائی اہم شاخ ہے۔ اسلئے اپنے نوجوانوں کو ہم یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں جتنے بڑے واقعات یا سانحات پیش آئے، ان کے اسباب سیاسی کم اور اقتصادی زیادہ تھے۔ اگرکوئی ہم سے جنگ کی تعریف پوچھے تو ہم کہیں گے کہ معاشی، سماجی اور سیاسی بحران کو جنگ کہتے ہیں۔ زرعی و صنعتی انقلاب، انقلابِ فرانس، پہلی و دوسری جنگ عظیم، تقسیم ہند اور خلیجی جنگیں بظاہر تو اِن میں سے کوئی مذہبی جنگ دکھائی دی اور کوئی سیاسی البتہ اُن سب کا حقیقی جائزہ لیں تو واضح ہوجائے گا کہ وہ ساری جنگیں معاشی بحران کا نتیجہ تھیں۔ اقتصادی بدحالی کئی سلطنتوں اور کئی قوموں کو لے ڈوبی ہے۔ پلاسی کی جنگ میں شکست کے تعلق سے ہم بتا ہی چکے ہیں کہ اُس کی ایک وجہ تھی ’میر جعفر‘البتہ بڑی وجہ تھی اُس دَور کی معاشی بدحالی۔ 
بدحواسی، ہڑ بڑاہٹ اور بوکھلاہٹ؟ 
 ٹیکنالوجی اور معاشیات کے محاذ پر بڑی حد تک پچھڑنے اور کچھ حد تک اُس پچھڑے پن کو اپنے اوپر لادے رہنے کے نتیجے میں اب مُسلم ممالک کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کریں، لہٰذا اُن کی اکثریت نے صرف بھونڈی تقلید شروع کردی ہے۔ مثلاً کسی مغربی یا یورپی ملک نے اُنھیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے ملکوں کو سیاحوں کی جنّت بنادیں۔ اسی کے ساتھ اُن ملکوں نے سیاحت یا عالمی سطح کے پروگرام اور تقریبات وغیرہ کو کامیاب کرنے کی شہ کلید بھی دے دی کہ مسلم ممالک کو ٹورزم کے مراکز بنانے کیلئے اُنھیں اپنے اہم شہروں کو ’عالمی معیار‘کا بنانا پڑے گا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلم ممالک یہ کہتے کہ ان کے ملکوں کواُن کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ قبول کیا جائے، اس کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، عالمی معیار کو مسلم ممالک میں رائج معیار پر آنا پڑے گا اور مسلم ممالک کے معیار ہی کوعالمی معیار قبول کرناپڑے گا لیکن اتنا دم خم کہاں اِن ملکوں میں .... صورتحال یہ ہے کہ اپنی صلاحیتوں پر بھی اُنھیں اعتبار نہیں رہا۔ دنیاکو اپنی شرطوں پر کسی بات کو منوا پانے کی صلاحیت سے عاری ہونے کی بناء پر مغربی ممالک نے جو ’معیار‘ طے کیا اُس کی ہوبہو اور بھونڈی نقل شروع کردی۔ جی ہاں نوجوانو! صحیح پڑھا آپ نے بعض مسلم ممالک نے جوئے خانے، شراب خانے اور بے حیائی کو ’عالمی‘ معیار تسلیم کرلیا ہے۔ جدید علوم سے دُوری کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ سارے ممالک آج ایسی بدحواسی، ہڑبڑاہٹ و بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں کہ اپنے اپنے ملکوں کی معیشت کو بچانے کیلئے اِن ملکوں کے احکام بجالانے کے سوائے ان کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ اس ضمن میں حالانکہ قطرنے ایک زبردست مثال قائم کی۔ فیفا عالمی کپ کے دوران نہ صرف اپنی دینی، تہذیبی و ثقافتی روایتوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ کھیل کے اِسٹیڈیم کو دین کی اشاعت کا ذریعہ بھی بنایا۔ 

یہ بھی پڑھئے:عالمی سطح پر مسلمانوں کی پسماندگی کی بڑی وجہ جدید ٹیکنالوجی اور معاشیات کے محاذ پر غفلت ہے

اب سیاحت کے کاروبارہی کی بات کرلیجئے۔ ہمارے مسلم اکثریتی پڑوسی ملک کے ایک اہم سیاحتی مقام ’مری‘ کی جہاں برف باری کے موسم میں سیاحوں کا اژدہام رہا کرتا تھا مگر چند سال قبل وہاں ایک دردناک واقعہ پیش آیا۔ وہاں اس قدر اور شدید برف باری ہوئی کہ اُس میں سیاح اپنی گاڑیوں کے ساتھ پھنس گئے اورکئی سیاح اپنی گاڑیوں ہی میں دم توڑ دئیے۔ اس سانحہ کے دو پہلوئوں پر غور کیجئے جس سے عالمی سطح پر ہماری دو کمزوریاں عیاں ہوجائیں گی۔ (۱) دنیامیں آج نفی ۲۵؍سے نفی ۶۰؍ ڈِگری سینٹی گریڈ والے مقامات بھی ہیں۔ وہاں پر بھی لوگ زندگی گزارتے ہیں۔ مری سیاحت کا ایک ایسا مقام ہے جہاں سے اُس ملک کو کئی ملین ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے البتہ اُس ملک کی معیشت کا عالم یہ ہے کہ برف پگھلانے کیلئے جو ہزاروں ٹن نمک استعمال ہوتا ہے، وہ بھی خرید نے سے وہ قاصر ہے۔ (۲) ٹیکنالوجی کے شعبے میں کمزور ہونے کی وجہ سے ایسے بحران میں کاربن مونو آکسائیڈ پر قابو پانے کی ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کرسکا۔ (۳)اس سانحے کے اس پہلو کو بھی دیکھ لیجئے کہ دنیا کو انسانیت کا درس دینے پر مامور اس قوم کے نمائندوں نے جانتے ہیں کیا کیا؟ جب ہزاروں لوگ برف کی چادر میں لپٹے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے اُس وقت اُن مصیبت زدہ لوگوں کو پانی کی ایک بوتل ۶۰۰؍روپے اور ایک اُبلا ہوا انڈا ۵۰۰؍روپے میں بیچاگیا۔ عالمی سطح پر سیاحت انتہائی اہم کاروبار ہے۔ اُس محاذ پر بھی ہمارا یہ حال ہے! 
چیلنج قبول کریں 
 ہمارے یہاں جب جب معیشت کی بات کی جاتی ہے، تب تب ہمارے کچھ بڑے میدان میں اُترتے ہیں اور نوجوانوں کو ایک جملہ کہہ کر گویا بری الذمہ ہوجاتے ہیں کہ مغربی اور یورپی ممالک کی ترقی سودی نظام کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ نوجوانو! آپ اُن سے یہ دریافت کیجئے کہ ہماری قوم کو غیر سودی نظام رائج و قائم کرنے سے کس نے روکاہے؟ دوسری قوموں کو سُود کی بلاء پر کچھ آگہی نہ ہو، ہمیں تو اُسے سخت الفاظ میں ’اللہ سے جنگ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، اسلئے ہمیں غیر سودی نظام قائم کرنے کی کتنی شدید اور سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئے تھیں ؟ کاش ہم اپنا ایک مثالی غیر سودی نظام قائم کرتےاور پھر دنیا اُس کو اپناتی۔ ربِّ کائنات نے سُود کو ایک بڑی لعنت قرار دے کر ہم لوگوں کو صرف ایک ذمہ داری سونپی ہے کہ ہم ایک غیر سُودی نظام قائم کریں۔ اب اُس سے غفلت کے نتیجے میں سودی اژدہا دنیا کی ساری معیشت کو جکڑے ہوئے ہے۔ اس کے حصار میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ جن کی اکثریت آج انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے دروازے پر عرضیاں لے کر ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں تاکہ اُنھوں نے جو قرض لیا ہے اُس کا سُود ادا کرنےکیلئے مزید قرض ملے۔ 
تعمیرِ نو کا آغاز کہاں سے کریں ؟
 عزیز طلبہ! اس تعلیمی کالم میں ہم سیاسیات، عالمی منظر نامہ و حالاتِ حاضرہ کا تفصیلی جائزہ اسلئے لیتے ہیں کہ نئی نسل تک یہ دو اہم پیغام پہنچے:
 (۱) اوّل یہ کہ کسی بھی عمارت کی بنیاد کی اینٹ اگر ٹیڑھی ہوگی تو کتنے ہی وسائل سے کتنی ہی بڑی عمارت تعمیر کی جائے وہ ہرگز پائیدار نہیں ہوگی۔ ہمارے’بڑے‘ خدانخواستہ کتنا ہی فلسفہ جھاڑیں، ہر فرد، قوم اور ملک کی عمارت کی بنیاد کی پہلی اینٹ کا نام علم ہے، تعلیم ہے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہی کچھ لوگوں نے ’کون سا علم، کیسی تعلیم‘کے لاحاصل بحث میں قوم کو اُلجھا کر رکھ دیاہے اوراس دوران دوسری قوموں نے علم و ہُنر کے مضبوط قلعے تعمیرکرلئے۔ (۲) ہمارا دوسرا پیغام یہ ہے کہ ۱۸؍سال کی عمر کے بعد ہر طالب علم کو اپنے اپنے نصاب کے مطابقسارے مضامین میں عالمی منظر نامہ اور حالاتِ حاضرہ کا بھرپور مطالعہ کرنا ہی چاہئے۔ سارے مقابلہ جاتی امتحانات میں اِن واقعات کا تجزیہ کرنا ہے اور تبصرے بھی کرنے ہیںاور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ نئی نسل کو تاریخ سے لے کر حالاتِ حاضرہ تک کے سارے واقعات کی حقیقی جانکاری ہونی لازمی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK