• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سپریم کورٹ نےالگ الگ مواقع پر۵؍معاملات میں قبول کیاہےکہ’ذات‘ہندوستانی سماج کی ایک کھلی ہوئی سچائی ہے

Updated: August 12, 2024, 5:36 PM IST | Abdul Rahman | Mumbai

اس طرح کے تبصروں کے باوجود، عدالت عظمیٰ نے کبھی بھی عاملہ یا مقننہ کو اس حکم نامے میں ترمیم کرنے یا اسے ختم کرنے کا کوئی واضح حکم نہیں دیا۔عدلیہ اور حکومت کی لاپروائی کو دیکھ کر عیسائی اور مسلم دلت ذاتوں نے اب قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

The SCST issue has been politicized for a long time in the country, so the government and the court should try to find a suitable solution in this regard as soon as possible. Photo: INN
ایس سی ایس ٹی معاملے پر ملک میں طویل عرصے سے الگ الگ قسم کی سیاست ہورہی ہے، اسلئے حکومت اور عدالت کو اس سلسلے میں جلد از جلد کوئی مناسب حل تلاش کر نے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تصویر : آئی این این

ہندوستان کو جمہوریہ قرار دینے کے چند ماہ بعد۱۰؍ اگست ۱۹۵۰ء کو، اُس وقت کے صدر نےآئینی (شیڈیولڈ کاسٹ) آرڈر۱۹۵۰ء جاری کیا، جو آزاد ملک کا پہلا مذہب پر مبنی حکم بن گیا۔ یہ مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے درمیان امتیازی سلوک کرتا ہے اور تعلیم، ملازمت اور سیاست میں شرکت کے معاملات میں شہریوں کے درمیان امتیاز پیدا کرتا ہے۔ یہ مساوات، سیکولرازم کے اصولوں اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس حکم نامے کے پیراگراف۳؍ میں کہا گیا ہے کہ ہندو مذہب کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی پیروی کرنے والے کسی بھی شخص کو شیڈول کاسٹ کا رُکن نہیں سمجھا جائے گا۔ اس طرح ہندو مذہب میں موجود صرف دلت ذاتوں کو ہی ایس سی کا درجہ دیاگیا۔ اس کے بعد ۱۹۵۶ء میں ترمیم کر کے اس میں مذہبی سکھوں کو بھی ایس سی کا درجہ دینے کا راستہ ہموار کیا گیا۔ 
 ۱۹۹۰ء میں وی پی سنگھ کی حکومت نے اس میں ایک اور ترمیم کرکے ’نو بدھوں ‘ کو بھی ایس سی کا درجہ دیا۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ صرف مسلم اور عیسائی دلت ہی اس سے محروم ہیں .... اور اس مذہبی تفریق اور معاشرتی ناانصافی کے۷۵؍ سال مکمل ہونے کو ہیں۔ آئینی ماہرین کے مطابق یہ حکم آئین کے آرٹیکل۱۴، ۱۵، ۱۶؍ اور۲۵؍ کی خلاف ورزی ہے۔ سماجی ماہرین کے مطابق یہ حکم سماجی ناانصافی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی مہذب جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔ 
 ماہرین عمرانیات کے مطابق ہندوستان میں مسلم اور ہندو کمیونٹیز کا سماجی ڈھانچہ تقریباً ایک جیسا ہے یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کا عکس ہیں۔ مسلمانوں میں اعلیٰ ذات کے لوگوں کی موجودگی ہے یعنی سید، پٹھان، شیخ اور مغل وغیرہ جنہیں اشراف کہا جاتا ہے۔ مڈل کلاس میں پسماندہ ذاتیں ہیں جن کا پیشہ صاف ہے اور انہیں اجلاف کہا جاتا ہے۔ معاشرے کے انتہائی پسماندہ اور نچلے درجے میں کچھ ایسی ذاتیں بھی موجود ہیں جن کا پیشہ اُن کے ہندو اور دلت ہم منصبوں جیسا ہے، جنہیں ارذال کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ مسلمانوں میں دلت ذاتیں ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:آندھرا اور بہار پر نظر کرم یا حکومت بچانےکیلئے رشوت؟

کمار سریش سنگھ کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں میں ۳۵؍ ایسی ذاتیں ہیں جن کا تعلق ایس سی سے ہے۔ یہ ہندو دلت ذاتوں ہی کی طرح ایسے پیشوں میں مصروف ہیں جنہیں عام طور پر گندہ یا آلودہ سمجھا جاتا ہے۔ گڈھیری، گورکن، مہتر یا بھنگی یا حلال خور، دھوبی، باکھو، نٹ، پماریا، لال بیگی، موچی، مکیری، گروڈی، کھٹک یا چک، حجام، رائن، بھٹیارہ، موٹ اور میرثی کار جیسی وہ ذاتیں ہیں جن کو ارذال میں رکھا گیا ہے۔ 
 جیسے ہی۱۹۵۰ء کا حکم جاری ہوا، سکھ اور عیسائی تنظیموں نے ان مذاہب سے تعلق رکھنے والے دلتوں کو ایس سی کا درجہ دینے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ان کے وفود نے اُس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور اُس وقت کے صدر جمہوریہ راجندر پرساد کو میمورنڈم دیئے اور مذہب کی بنیاد پر بنائے گئے قانون کی مخالفت کی۔ ان دونوں نے اس ناانصافی کو دور کرنے اور سکھ اور عیسائی دلتوں کو بھی ایس سی زمرے میں شامل کرنے کا یقین دلایا۔ جس وقت ۱۹۹۰ء میں وی پی سنگھ کی حکومت نے ایس سی کے طور پر ’نو بودھوں ‘ کو ایس سی کا درجہ دیا، اس وقت ایک بار پھر پرزور مطالبہ کیا گیا تھا کہ مسلم اور عیسائی دلتوں کو بھی ایس سی کا درجہ دیا جائے۔ راجیو گاندھی نے بھی اپنے دور میں عیسائیوں کو انصاف کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ۵۰۰؍ ممبران پارلیمنٹ کے مطالبے پر نرسمہا راؤ کی حکومت نے اپنی کابینہ میں عیسائیوں کو ایس سی کا درجہ دینے کی تجویز پاس کی تھی اور اسے ۱۰؍ویں لوک سبھا کے آخری دن (۱۲؍ مارچ۱۹۹۶ء) لوک سبھا میں متعارف بھی کرایا گیا تھا لیکن کچھ تکنیکی وجوہات کی بنا پر اس پر بات نہیں ہو سکی تھی۔ ایسا فطری طور پر ہوا تھا یا جان بوجھ کر کیا گیا تھا، یہ تحقیق طلب معاملہ ہے۔ 
 پسماندہ ذاتوں اور محروم گروہوں کو مرکزی دھارے میں لانے کے مقصد سے بنائے گئے کئی کمیشنوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ دلت ذاتیں ہر مذہبی گروہ میں پائی جاتی ہیں اور مذہبی تبدیلی کے بعد ان کی معاشی، سماجی اور تعلیمی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔ ان ذاتوں کو پہچاننے اور انہیں ایس سی کے درجے میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان میں کاکا کالیکر کمیشن (۱۹۵۰)، منڈل کمیشن (۱۹۸۰)، الایا پیرومل کمیشن (۱۹۶۹)، سچر کمیٹی (۲۰۰۶)، رنگناتھ مشرا کمیشن (۲۰۰۷)، محمود الرحمان کمیٹی (۲۰۰۷)، سچر کمیٹی کی سفارت کا جائزہ لینے والی کمیٹی یعنی کنڈو کمیٹی (۲۰۱۴) کے نام قابل ذکر ہیں۔ قومی اقلیتی کمیشن نے اپنی کئی سالانہ رپورٹوں میں یہ مطالبہ اٹھایا ہے۔ نیشنل کمیشن فار شیڈیولڈ کاسٹس نے بھی ۲۰۰۷ء میں اپنے تعاون کا وعدہ کیا تھا۔ 
 اس معاملے میں عدلیہ کا نقطہ نظر کافی مثبت رہا ہے۔ کم از کم ۵؍ اہم معاملات میں سپریم کورٹ نے قبول کیا ہے کہ’ذات‘ ہندوستانی سماج کی ایک اہم سچائی ہے۔ انسان اپنا مذہب بدل سکتا ہے لیکن اپنی ذات نہیں بدل سکتا۔ آرٹیکل۳۴۱؍ کے تحت صدر کو آئین کے آرٹیکل ۱۵ (۲)، ۱۶ (۲) اور ۲۹(۲) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسا حکم جاری کرنے کا حق نہیں ہے۔ یہ حکم آئین پر سیاہ دھبہ ہے جو تحریری آئین کی خوبصورتی کو مسخ کرتا ہے۔ اس طرح کے تبصروں کے باوجود، عدالت نے کبھی بھی عاملہ یا مقننہ کو اس میں ترمیم کرنے یا اسے ختم کرنے کا واضح حکم نہیں دیا۔ 
 عدلیہ اور حکومت کی لاپروائی کو دیکھ کر عیسائی اور مسلم دلت ذاتوں نے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تمل ناڈو کی بڑی عیسائی تنظیموں نے مشترکہ طور پر ایک پی آئی ایل دائر کی ہے۔ ۲۵؍ جنوری۲۰۰۸ء کو آل مہاراشٹرمسلم کھٹک سماج نے بھی ایک پی آئی ایل دائر کی ہے۔ درخواست کا خلاصہ یہ ہے کہ صدر کا مذکورہ حکم امتیازی ہے اور مذہب کی بنیاد پر ناانصافی کرتا ہے۔ ان دونوں گروہوں کے ساتھ جو ناانصافی ہو رہی ہے اسے بند کیا جائے اور انہیں بھی ایس سی کے زمرے میں شامل کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے اسے بڑی بنچ کے حوالے کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ معاملہ کافی’حساس‘ ہے۔ عدالت نے سوالات بھی تیار کر لئے ہیں تاکہ میں تیزی لائی جاسکے۔ 

یہ بھی پڑھئے:’سماج وادی اراکین پارلیمان کی ممبئی آمد سے پارٹی کارکنان کا حوصلہ بلند ہوا ہے‘‘

افسوس کی بات ہے کہ اُس وقت کی کانگریس حکومت نے۱۰؍ سے زائد مرتبہ وقت مانگنے کے باوجود اپنا جواب داخل نہیں کیا تھا۔ ہندو بنیاد پرست تنظیمیں بالخصوص آر ایس ایس کا نقطہ نظر اس تعلق سے کافی منفی رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ اس مطالبے کی مخالفت کی ہے اور اس کا خیال ہے کہ اس سے مذہب کی تبدیلی کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ حکم عیسائی اور مسلم دلت ذاتوں کو ہندو، سکھ یا بدھ مت اختیار کرنے کی ترغیب نہیں دیتا؟بی جے پی حکومت نے۲۰۱۵ء میں اس تعلق سے ایک تحریری جواب داخل کرکے ان دونوں ہی درخواستوں کی مخالفت کی ہے۔ 
 انصاف ملنے میں تاخیر کو دیکھ کر مسلم اور عیسائی تنظیموں نے سیاسی طور پر بھی اس کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں سے ملنے، انہیں راضی کرنے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ ان کوششوں کا نتیجہ ہے کہ کئی بڑی سیاسی جماعتوں نے اس کی حمایت کی ہے۔ آندھرا پردیش، تمل ناڈو، اتر پردیش، بہار، پنجاب، مغربی بنگال اور پڈوچیری جیسی کئی ریاستوں نے قانون ساز اسمبلی میں قرارداد پاس کرکے اس کی حمایت کی ہے۔ 
 آج یہ دونوں گروہ سماجی انصاف سے محروم ہیں، اسلئے انہیں قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔ ان دونوں گروپوں کو ایک بڑے او بی سی گروپ میں رکھا گیا ہے جہاں انہیں زیادہ ترقی یافتہ ذاتوں سے مقابلہ کرنا پڑرہا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کی سماجی اور معاشی حالت انتہائی قابل رحم ہے۔ عدلیہ کو آئین کی تشریح کا حق حاصل ہے۔ مساوات اور بنیادی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ اسے منسوخ کرے یا پارلیمنٹ کو واضح حکم دے کہ اس حکم میں ترمیم کی جائے تاکہ تمام مذاہب کی دلت ذاتوں کو مساوی حقوق مل سکیں۔ ۲۰۲۴ء کے عام انتخابات میں ’انڈیا‘ اتحاد کی پوری مہم ذات پات کی مردم شماری، سماجی انصاف اور ’جتنی جس کی آبادی، اتنی اس کی حصہ داری‘ کے گرد گھومتی تھی۔ اس دور میں حزب اختلاف کافی مضبوط پوزیشن میں ہے۔ جب سماجی انصاف فراہم کرنے کی باری آئے گی تو عیسائی اورمسلم دلت سب سے پہلے لائن میں کھڑے نظر آئیں گے۔ اپوزیشن اس مطالبے کو پارلیمنٹ میں اٹھائے اور اس پر تفصیلی بحث کرے۔ ہندوستانی سماج کو بھی سماجی انصاف اور مساوات کے اصولوں پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عیسائیت اور اسلام باہر سے آئے ہیں، اسلئے ان کے ماننے والوں کو ایس سی کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ یہ دونوں مذاہب واضح طور پر مشرق وسطیٰ سے آئے تھے لیکن ان کے ماننے والے توہندوستان ہی کے بنیادی باشندے ہیں اور یہاں کے برابر کے شہری ہیں۔ کیا پورا ہندوستانی معاشرہ اپنے ہی لوگوں کو ایک خاص فائدے سے محروم کرکے اور انہیں قومی دھارے میں نہ لاکر ان کے ساتھ ناانصافی نہیں کررہا ہے؟ اس ظلم کو۷۵؍ سال گزر چکے ہیں، ایسے میں اب اس ناانصافی کو یہیں پر روکنے کی ضرورت ہے۔ پورےہندوستانی سماج کو ایک منصفانہ ذہنیت تیار کرنے اور محروم گروہوں کو سماجی انصاف فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ 
مضمون نگار آئی پی ایس افسر ہیں۔ قومی شہریت قانون کے خلاف احتجاجاً انہوں نےاپنےعہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK