• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

۱۹۶۰ء میں جب ممبئی آیا تودادراسٹیشن پرٹرین سےاُترکررانی باغ تک سامان کابوجھ اٹھاتےہوئے پیدل گیا تھا

Updated: December 24, 2023, 1:47 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

گھاٹ کوپر کے ۸۰؍سالہ سیدابراہیم دوران ملازمت بھی اور اب سبکدوشی کے بعد بھی سیاسی ،سماجی اورملّی سرگرمیوں میں پیش پیش ہیں اور متعدد مساجد کے ٹرسٹ اور سماجی اداروں سے وابستہ ہیں، راجیو گاندھی کی قیادت میں ۱۹۸۰ء میں یوتھ کانگریس سے بھی جڑے رہے ہیں۔

Syed Ibrahim Bijapuri. Photo: INN
سید ابراہیم بیجاپوری۔ تصویر : آئی این این

اس کالم کی ایک خاص بات یہ بھی ہےکہ متعددمعمر افراد جواس کا پابندی سے مطالعہ کرتےہیں ، اپنی یادیں اور تجربات اس کالم کے ذریعے قارئین تک پہنچانےکی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اس کا اظہار نہیں کرتے۔ایسے ہی سن رسیدہ افراد میں گھاٹ کوپر ،نیتانند نگر کے ۸۰؍ سالہ سید ابراہیم بیجاپوری کا بھی شمار ہوتا ہے۔وہ نہایت پابندی کے ساتھ اس کالم کو پڑھتےہیں۔ اس کا احساس ان کے گھر پہنچ کر ہوا۔ میں نے دیکھا کہ ان کے بسترپرگوشہ ٔ بزرگاں کے کئی تراشے رکھے ہوئے تھے۔
سید ابراہیم نے گزشتہ دنوں اپنے ایک دور کے عزیز آصف پلاسٹک والا کےمعرفت کالم نویس سے رابطہ کیا۔ ۱۹؍دسمبر کو طے شدہ وقت پر نتیا نندنگر واقع ان کے گھر پہنچنے پرانہوں نےراقم کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ گھر کے ایک علاحدہ گوشے میں ان سے ۴۷؍منٹ ۲۴؍ سیکنڈ تک ہونےوالی گفت وشنید انتہائی معلوماتی اور دلچسپ رہی۔ 
 بیجاپور میں ۹؍دسمبر۱۹۴۴ءکو پیداہونےوالےسیدابراہیم نے ابتدائی تعلیم وہاں کے انجمن اسلام اسکول سے حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے ممبئی آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ممبئی میں ان کے بڑے بھائی محمدحنیف اپنی والدہ کے ساتھ نتیانندنگر میں رہائش پزیر تھے ۔ محمد حنیف نے پڑھائی سے زیادہ کام کو ترجیح دی ۔ وہ نیواسٹینڈرڈ انجینئرنگ نامی کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔ سیدابراہیم کو بھی انہوں نے اسی کمپنی میں ملازمت پر لگادیا جہاں وہ پوری زندگی اسی کمپنی سے وابستہ رہے۔ دوران ملازمت بھی وہ سیاسی ،سماجی اورملّی سرگرمیوں میں پیش پیش تھے اور اب سبکدوشی کے بعد بھی متعدد مساجد اور سماجی اداروں سے وابستہ ہیں۔ اسی طرح سیاست سے بھی تعلق بنا رکھا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:والد صاحب نے مجھے فوراً گاہک کے پیچھے دوڑایا کہ وہ ایک پیسہ واپس کرکے آؤں جومیں نے زیادہ لے لیاتھا

 یہ ۱۹۸۰ء کی بات ہے۔ راجیوگاندھی کی قیادت میں یوتھ کانگریس کا قیام عمل میں آیاتھا۔ اسی تعلق سے باندرہ میں ایک جلسہ منعقد کیاگیاتھا۔ جلسہ کےبعد راجیوگاندھی کو سانتاکروز ایئر پورٹ رخصت کرنےکیلئے جانے والوں میں سید ابراہیم بھی شامل تھے۔ راجیوگاندھی کوگھیرے میں لے کرلوگ ایئرپورٹ کی راہداری سے گزر رہے تھے۔ راجیوگاندھی کا دیدار کرنےوالوں کی بھیڑکے دبائو سے اچانک راہداری کی شیشےکی ایک دیوار ٹوٹ کر گرگئی۔ دیوار کے گرنے کی آواز کےساتھ ہی سیدابراہیم جو راجیوگاندھی کے بالکل قریب تھے ،نے راجیو گاندھی کواپنی آغوش میں لے لیا۔سید ابراہیم کے اس حسن سلوک سے راجیوگاندھی بہت متاثر ہوئےتھے۔انہوں نےاسی وقت سیدابراہیم کی پیٹھ تھپتھپائی اور بعد ازیں فوٹوگرافرکو بلاکر ان کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر ایک تصویر نکالی تھی۔ یہ تصویر اب تک محفو ظ ہے۔
  نتیانند نگر میں مسلمانوں کی خاصی آبادی ہونےکےباوجودیہاں کےمسلمانوں میں مسجد کی کمی کا شدت سے احساس تھا۔ علاقےمیں ایک چھوٹی سی جگہ پر برائے نام مسجد تھی۔برائے نام اس لئے کہ لوگ مسجد کے قریب آکر مسجد دریافت کرتےتھے۔ٹوٹی پھوٹی جگہ پر بے ترتیب چھوٹے سے کمرے میں ایک مسجد تھی۔ایسے میں یہاں کےلوگوں نے سید ابراہیم کو ایک بڑی مسجد قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ سیدابراہیم نے مسجد کی تعمیر اورمرمت کیلئے مقامی وارڈ آفس میں درخواست کی لیکن مہینوں پرمشین نہ ملنے سےمایوسی بڑھتی گئی ۔اسی دوران وہ اپنے ایک ساتھی کےہمراہ اجمیر شریف زیارت کیلئے گئے تھے۔ وہاں خواجہ اجمیری کی درگاہ پر مسجد کے قیام سے متعلق دعاکی۔ وہاں سےگھر واپس ہونے کے بعد معلوم ہواکہ وارڈ آفیسر نے طلب کیاہے۔ وارڈ آفیسر سے ملاقات کیلئے گئے ۔ اس نے سیدابراہیم سے کہاکہ میرا یہاں سے ٹرانسفر ہو رہاہے ، اس لئے میری کوشش تھی کہ یہاں سے جانے سے پہلے آپ لوگوں کی مسجد کی مرمت کا پرمیشن دیتا جائوں ۔ یہ کہتےہوئے اس نے مسجد کی مرمت کا پرمیشن تھما دیا۔سیدابراہیم نے اس دورکے ۱۱؍ معروف علمائے کرام کے ہاتھوں ۱۷؍ویں رمضان المبارک کو غوثیہ مسجد کی بنیاد ڈالی۔اپنی اس کوشش کو وہ اپنی زندگی کا اہم کارنامہ تصورکرتےہیں ۔یہ ۸۰ء کی دہائی کامعاملہ ہے۔
 سیدابراہیم یکم مئی ۱۹۶۰ءکو ممبئی آئے تھے۔اس وقت بیجاپور سے ممبئی کا ٹرین کا کرایہ صرف ۱۱؍روپے تھا۔ ان کی والدہ اور بڑے بھائی محمد حنیف نتیانندنگر میں رہائش پزیرتھے۔ نیتانند نگر جانے کا راستہ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے وہ دادراسٹیشن اُتر کر ہاتھوں میں اپناسامان لئے بائیکلہ تک پیدل گئے تھے۔بائیکلہ کے رانی باغ کے پیچھے واقع اسٹینڈرڈ انجینئرنگ کمپنی میں ان کے بھائی محمدحنیف ملازمت کرتے تھے۔ ڈیڑھ گھنٹے سامان کا بوجھ اُٹھا کر پیدل چلنے کی وجہ سے دقت بھرا سفر انہیں اب بھی یاد ہے۔دادر سے بائیکلہ لوکل ٹرین سے جانے کی سہولت ہونے کا انہیں علم نہیں تھا، اس لئے وہ پیدل ہی چلے گئے تھے۔ 
 سید ابراہیم اسٹینڈرڈ انجینئرنگ کمپنی کی جوگیشوری شاخ میں ملازمت کرتےتھے۔ یہ ۱۹۶۱ء کی بات ہے، معمول کےمطابق ایک روزصبح وہ جوگیشوری اسٹیشن اُتر کر پٹری کےراستے سے ہوتےہوئے ایک مقام پر کچھ جنگل جھاڑیوں سے گزرکر کمپنی جارہےتھے۔اسی جگہ ان کی نظر ایک لاش پر پڑی، جس کا دھڑ سر سے جدا تھا۔ اس کا سر،جسم سے غائب تھا۔ لاش کی حالت بہت خراب تھی۔ وہ دیکھ کر وہ خوف زدہ ہوگئے تھے، ان کے حوصلوں نے کچھ دیر کیلئے جواب دے دیا تھا۔ وہ غش کھاکر گرنے ہی والےتھے کہ کسی طرح خود کو سنبھالا اور وہاں سے سیدھے کمپنی پہنچے لیکن پورے دن ان کادل کام میں نہیں لگا۔ ایسا منظر انہوں نے زندگی میں اس سے قبل کبھی نہیں دیکھاتھا۔
 بابری کی شہادت کےبعدپھوٹ پڑ نے والے فرقہ وارانہ فسادات کےدوران نتیانندنگر میں کسی طرح کی بدامنی نہ ہونے میں سیدابراہیم اور ان کے رفقاء کا اہم رول رہاہے۔ اسی وجہ سے گھاٹ کوپر کےمتعدد علاقوں میں لوٹ ماراور تشدد کےواقعات ہونےکےباوجود یہاں کچھ نہیں ہواتھا۔ سیدابراہیم نے یہاں کے مسلمانوں اوربرادران ِ وطن کے ساتھ مل کر علاقے میں امن وامان قائم کرنےکی ایک اہم مثال پیش کی تھی۔ اس کیلئے انہوں نےنتیانندنگر کو ۶؍حصوں میں تقسیم کرکے ہر ایک حصے کی ذمہ داری ۱۰؍رکنی کمیٹی کو سونپی تھی۔ اس کمیٹی میں مسلمانوں کے ساتھ برادران وطن بھی شامل تھے۔یہ کمیٹی اپنے حصے کی نگرانی اور حفاظت پر مامور تھی۔ کمیٹی کے اراکین رات بھر اپنے حصے کی نگرانی کرتے اور علاقے کی فضاکو پُرامن رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔
 گھاٹ کوپر کے سائی ناتھ نگر میں ایک شراب کی بھٹی ہواکرتی تھی۔ بٹر نامی شخص اس کامالک تھا۔ ۱۹۷۲ءمیں ایک دن یہاں کی زہریلی شراب پی کی ۱۱۰؍افراد کی موت ہو گئی تھی جس کی وجہ سے پورے ملک میں ہاہاکار مچ گیاتھا۔ اس دور میں ممبئی میں پوسٹ مارٹم کی سہولت صرف جے جے اور ولے پارلے کےکوپر اسپتال میں تھی۔ مرنےوالوں کی لاشوں کو راجاواڑی اسپتال میں رکھاگیاتھا۔انہیں دیکھنےکیلئے جب میں اسپتال پہنچاتو روح کانپ اُٹھی ۔ایک لاش پر دوسری لاش اس بدنظمی سے رکھی ہوئی تھی جیسے کہ انسان نہیں ہوں بلکہ جانوروں کو ایک دوسر ے پر پھینکاگیاہو۔ اس وقت گھاٹ کوپر کے رکن اسمبلی دتاسامنت تھے۔ ان تک بات پہنچائی گئی تو انہوں نے کافی برہمی کا اظہار کیا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے ان لاشوں کوٹھکانے لگانےمیں بڑی مدد کی تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK