• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پرامن اور کامیاب سماج کی تشکیل کیلئے بچوں کو دوسروں کے اکرام کی تعلیم دیں!

Updated: August 30, 2024, 3:06 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہوسکتا کہ ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ رنگ و نسل اور ذات پات کے بھید بھاؤ سے بالکل دور، خالی الذہن اور فطرتاً پاک و صاف ہوتا ہے؛ لیکن جوں جوں وہ بڑا اور باشعور ہوتا ہےاور سیکھنے کی عمر کو پہنچتا ہے، وہ اپنے ارد گرد کو دیکھتا ہے اور اپنے بڑوں سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔

The training of children also includes teaching them respect for others. Photo: INN
بچوں کی تربیت میں انہیں دوسروں کے ادب و احترام کی تعلیم دینا بھی شامل ہے۔ تصویر : آئی این این

اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہوسکتا کہ ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ رنگ و نسل اور ذات پات کے بھید بھاؤ سے بالکل دور، خالی الذہن اور فطرتاً پاک و صاف ہوتا ہے؛ لیکن جوں جوں وہ بڑا اور باشعور ہوتا ہےاور سیکھنے کی عمر کو پہنچتا ہے، وہ اپنے ارد گرد کو دیکھتا ہے اور اپنے بڑوں سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ ایک حدیث میں اس تانے بانے کی بہت ہی جامع منظر کشی کی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی، یا مشرک بناتے ہیں۔ ‘‘ (ترمذی)
  ایک منصف تجزیہ نگار فطرت کی ڈگر سے دور بچے کی زندگی کا باریکی سے مطالعے کے بعد اس نتیجےپر پہنچتا ہے کہ خاندان اور گھر کا روایتی اثر اس بچے کے دل و دماغ پر شروع سے ہی مسلط ہوا ہے، اور اس تسلسل کے ساتھ مسلط ہوا ہے کہ آخر کار وہ بچہ عقل وشعور کی منزل میں داخل ہونے کے بعد خود کو اسی ماحول کا ایک لازمی حصہ سمجھنے لگا ہے، اور اپنی اصل فطرت کے تقاضوں سے دور جاپڑا ہے۔ اس دوران جو سب سے زیادہ خطرناک عنصر بچوں میں پنپتا ہے وہ ہے غیر مذہب، ذات برادری اور نسل کے تئیں دل کے اندر دوری اور نفرت۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دوریاں اور نفرت بچوں میں بڑوں سے منتقل ہوتی ہیں۔ یہ بچے سن شعور کو پہنچنے کے بعد سے ہی دوسروں کے تعلق سے قولا اور عملا اپنے بڑوں کے طرز عمل کو نوٹ کرتے ہیں اور اسی کو اپنے لئے اسوہ سمجھتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:قلب: قرآن کی دعوت کا مخاطب

مذکورہ بے راہ روی میں ایک اہم کردار خود ساختہ نظریئے کا بھی ہے۔ مثال کے طور پر فلاں مذہب والے فلاں مذہب والے سے نفرت کرتے ہیں، فلاں مسلک والے فلاں مسلک والے کو گمراہ سمجھتے ہیں، فلاں ذات والے فلاں ذات والے کو کمتر سمجھتے ہیں حتیٰ کہ اس ذہنیت کے لوگ مذہبی و غیر مذہبی اور امیر و غریب کے درمیان بھی خود ساختہ بنیادوں پر حد فاصل قائم کر دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں اگر ہم اسلام کے بتائے ہوئے صرف ایک اصول پر زندگی گزاریں اور عملاً بچوں کو اس کی تعلیم دیں تو نفرت اور دوری کی تمام دیواریں از خود زمین بوس ہو جائیں گی۔ اسلام کا وہ اصول ذیل کی قرآنی آیت میں موجود ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ تمام انسانوں کو اللہ رب العزت نے بحیثیت انسان معزز و مکرم بنایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں ) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا۔ ‘‘ (بنی اسرائیل:۷۰)
 یاد رکھیں ! مذکورہ خود ساختہ منفی سوچ جس سماج اور معاشرے میں بھی موجود ہوگی، وہاں امن و شانتی، اخوت و بھائی چارگی اور حقیقی کامیابی وترقی کا مفقود اور ناپید ہونا طے ہے۔ ایسے ماحول میں اگرچہ ہم ایکتا اور سد بھاؤنا کے اسٹیج پر مجموعی فائدے کے لئے اتحاد کا نعرہ دیں گے لیکن جب دل ہی نہیں ملے گا تو ایسے نعروں کافائدہ کیا ہوگا! اس تناظر میں اتحاد ملت کی کوششوں کی ناکامی کی وجہ بھی صاف سمجھ میں آجاتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے پلیٹ فارمس پر ہر ایک صرف اپنے منصوبوں پر دوسروں کو لانے کی کوشش کرتے ہیں چہ جائے کہ بیچ کا کوئی راستہ نکالیں۔ ظاہر ہے کہ اگر ہم اتحاد ملت کے اسٹیج پر بھی دوسرے مسلک کے امام کے پیچھے کبھی کبھار نماز نہیں پڑھیں گے اور ایک ہی اسٹیج پر دو جماعتیں بنائیں گے تو ہمارے بچے بھی ہم سے یہی سیکھیں گے اور دوریوں کی دیواریں مزید اونچی اور لمبی ہوتی جائیں گی۔ جس سماج اور معاشرے میں ہم رہتے ہیں جب اس کے افراد کے ساتھ ہمارا معاملہ ہو تو ہمیں ایک اورقرآنی اصول کو اپنا رہنما بنانا چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کریں اور برائی اور گناہ کے کاموں میں عدم تعاون کا معاملہ روا رکھیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں ) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں ) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہے۔ ‘‘ (المائدہ:۲)
 خلاصہ یہ ہے کہ ہم دوسروں سے محض اس وجہ سے نفرت اور دوری قائم نہ کریں کہ وہ کسی اور مذہب، مسلک، ذات، رنگ اور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ بحیثیت انسان ان سے اکرام کا معاملہ روا رکھیں اور مجموعی کامیابی کیلئے نیکی کے کاموں میں تعاون اور بدی کے کاموں میں عدم تعاون کا اصول اپنائیں۔ یہی اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔ اس سےجہاں ہم اپنے بچوں کی مثالی تربیت کر پائیں گے وہیں ایک پر امن سماج اور معاشرہ کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK