• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

قلب: قرآن کی دعوت کا مخاطب

Updated: August 30, 2024, 2:58 PM IST | Nighat Hussain | Mumbai

دل کی ا س قوت کا اندازہ صرف اسی وقت ہوسکتا ہے، جب کہ انسان کوقرآن کی نگاہ سے دیکھتے ہو ئے رہنمائی لی جا ئے۔

In the Qur`an, the importance and position of the human heart is not that of the mind. Photo: INN
قرآن میں انسانی دل کو جو اہمیت و مقام حاصل ہے، وہ دماغ کو نہیں۔ تصویر : آئی این این

انسانی شخصیت یوں توبہت پیچید ہ ہے لیکن اس کے دو نمایاں پہلو انسان کی پوری ذات پر حکمرانی کرتے ہیں ۔ انسا ن درا صل ذہن و قلب کا مجموعہ ہے اور ہمارے اعمال پر قلب و ذہن ہی کا اثر ہوتا ہے۔ انسان کے ذہن میں طرح طرح کے خیا لا ت جنم لیتے ہیں ا ور مختلف جذبات دل میں طوفاں بپا کئے رکھتے ہیں ۔ ہر خیا ل کسی نئے جذبے ا ور ہر جذبہ کسی نئے خیا ل میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ جذبوں ا ور خیالات کے ا س حسین مجموعے کا نام انسان ہے۔ دیکھا جائے تو جذبات و خیالات کے اس امتزاج ہی نے دنیا میں بڑے بڑے انقلاب بپا کئے ہیں ۔ 
دل و دما غ کی یہ ہم آہنگی ا نسا ن کو ایک نئی قوت عطا کرتی ہے۔ قرآن کا مطالعہ کیا جا ئے تو یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ قرآن میں انسانی دل کو جو اہمیت و مقام حاصل ہے، وہ د ما غ کو نہیں، ا ور اگر ہم مغربی طرز فکر کا مطا لعہ کریں تو وہ انسانی شخصیت کوصرف دماغ کی نظر سے تولتی ہے۔ نظریات کا یہ فرق جہا ں سوچ و فکر کے زاویے تبدیل کرتا ہے وہاں اس کے اعمال و اخلاق میں بھی تبدیلی رونما کرتا ہے جس کا مظاہرہ پورا مغربی معاشرہ کر رہا ہے۔ 
یہا ں ہم ایک دا عی کی حیثیت سے اس دل کو دیکھیں گے جس کو قرآن بارہا مختلف انداز میں مخاطب کرتا ہے اور انسانی شخصیت کا مرکز بھی قرار دیتا ہے۔ دل کیا ہے؟ قرآن کبھی اس دل کو فواد کے نام سے مخاطب کرتا ہے ا ور کہیں قلب کے نام سے۔ قرآن کے مطا بق دل محض گوشت کے ایک لوتھڑے کا نام نہیں جس کا کام جسم میں خون کی فراہمی ہے بلکہ قرآن دل کے لئے نہا یت وسیع مفہو م رکھتا ہے۔ ’’و ہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں سننےا ور دیکھنے کی قوتیں ا ور سوچنے کو دل دیئے۔ ‘‘ (مومنون :۷۸) 
قرآن کی یہ آیت دل کو سوچنے سمجھنے والا قلب قرا ر دیتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:سورہ علق کی اوّلین پانچ آیتیں رہتی دنیاتک ایک مشعل راہ کافرض انجام دیتی رہیں گی

سورئہ سجدہ ( آیت:۹)میں ہے کہ ’’اور تم کو کا ن دیئے، آنکھیں دیں اور دل دیئے۔ ‘‘ یعنی سمع، بصر اور فواد۔ یہا ں انسانی دل کو فواد کا نام دیا گیا ہے۔ گویا ا یسا دل جو اصل میں ذہن کا کام کرتا ہے، حواس کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کو مرتب کر کے ان میں سے نتائج نکالتا ہے ا ور کوئی ایک راہ کا انتخا ب کر کے اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ جبھی ا قبا ل کہتے ہیں ؎
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب=آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں 
سائنس و تکنالوجی کے ا س تیز رفتار دور میں انسان کو جس مادیت کی قید میں جکڑ کر رکھ دیا ہے، اس انسان کے لئے دل محض ایک خون فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں انسان کم ا ور انسان نما مشینیں زیادہ نظر آتی ہیں۔ آج انسان ا پنے احساسا ت و اخلا ق کو پس پشت ڈال کر جس مادی ترقی کا دعویٰ کرتا ہے اس ترقی نے ایک نئی ذلت و اخلاقی بربادی سے روشناس کرا کر ہر اس احساس کو کچل دیا ہے جو انسانیت کی پہچان ہے۔ قرآن جگہ جگہ انسان کے دل کو مخاطب کر کے ا س احسا س کو بیدار کرتا ہے۔ خود قرآن کے لئے ا للہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے۔ ‘‘ (یونس : ۵۷) حدیث نبویؐ کے مطابق ابتدا میں گناہ سے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگتا ہے اور مسلسل گناہوں سے بڑھتے بڑھتے پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ دلوں کا زنگ بھی صرف قرآن ہی سے اترتا ہے۔ انقلاب بھی دراصل دلوں کو تبدیل کرنے ہی کا نام ہے۔ حضور اکرمؐ کا بے مثا ل انقلاب انسانی دلوں کی تبدیلی سے شروع ہوا تھا جس نے سوچ کے زاویے تبدیل کر دیئے تھے، نفع و نقصان سے لے کر کامیابی و ناکامی کے معیار تک کو نئے معنوں سے روشناس کر دیا۔ 

یہ بھی پڑھئے:قرآن مجید میں رب العالمین نے جن چیزوں کی قسم کھائی ہے ان میں وقت بھی شامل ہے

دلوں کی بدلتی کیفیات کو سمجھنا اور حکمت کے ساتھ دعوت کا سلیقہ دراصل نبی کریمؐ کی سنت ہے کیو نکہ دل میں پیدا ہونے والے جذبا ت ہی دراصل ہمارے ہر عمل کا محرک ہیں۔ امید، خوف، غم اور خوشی جیسے جذبات دل ہی میں اُبھرتے ہیں۔ اسی لئے قرآن کہیں خوف دلاکر ا ور کہیں امید دلا کر اپنی دعوت پہنچاتاہے۔ یہی خوف تقویٰ کے حصول کا ذریعہ بھی بنتا ہے ا ور کہیں ابلیس کے ہاتھوں انسان کو مایوسی میں بھی پہنچا دیتا ہے۔ اسی طرح ا میدشکر گزاری کی کیفیت بھی پید اکر تی ہے اور حد سے بڑھ جا ئے تو غفلت بھی۔ 
ہم دعوت کے کام کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ا کثر اوقا ت یہ کام بھی ایک مشینی انداز میں ڈیوٹی کی طرح کرتے ہیں ۔ لوگوں کی مطلوبہ تعداد رپورٹ فارم، اجتماعات، ملاقاتیں سب کچھ ہورہا ہوتا ہے لیکن ہمارے قلوب میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ ہمارے مخاطب ہمارے الفاظ سن کر دماغ میں تو محفوظ کر لیتے ہیں لیکن پیغام دلوں میں جذب نہیں ہوتا۔ سننے والوں کی جانب سے قابل ترین مدرسین و مقررین کی فرمائش تو پوری ہورہی ہوتی ہے لیکن دلوں کی دنیا ویسی ہی غیرآباد اور ویران رہ جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟کہیں دعوت دین کا کا م کرنے والے بھی مردہ دل تو نہیں ہوگئے ہیں ؟ دل کی ا س قوت کا اندازہ صرف اسی وقت ہوسکتا ہے، جب کہ انسان کوقرآن کی نگاہ سے دیکھتے ہو ئے رہنما ئی لی جا ئے اور لوگوں کے جذبات و احساسات کو ا للہ کے سپرد کرنے کی ترغیب پیدا کی جا ئے۔ قرآن انسانی قلب کو اپنے پیغام کا مرکز اس لئے قرا ر دیتا ہے کہ یہ کلا م اللہ تعالیٰ نے قلب پر نازل کیا، دماغ پر نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ اسے (قرآن )روح الامین ؑ لے کر اترا ہے، آپ کے قلب پر تاکہ آپ (نافرمانوں کو) ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیں۔ ‘‘ (شعراء : ۱۹۴)
حق کے پیغام کو قلب پر چھا جا نے کی قلبی کیفیات کوچا ر مرحلوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک کیفیت حق کو جذب کرنے کی ہے، یعنی حق قلب میں ایسا رچ بس جا ئے کہ وہ قول و عمل کی دنیا میں نظرآئے۔ (قرآن کا راستہ، خرم مراد)کلا م اللہ کو پڑھنے کا تقا ضا بھی یہی ہے کہ قلب کو : حمد، شکر، حیرت، ر عب، محبت اعتما د، صبر، ا میدوخو ف، رنج و حسرت، تدبر و یاددہانی، اطاعت و تسلیم و رضاکی تما م کیفیات سے گزرنے دیا جائے۔ جب تک یہ نہ ہوگا، تلاوت صرف ہونٹوں کی حرکت اور دعوت صرف رپورٹ فارموں کو بھرنے تک ہی محدود رہے گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK