• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مودی کو تیسری میعاد میں اپنی شبیہ بچانے کا چیلنج

Updated: July 15, 2024, 5:32 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

نئی حکومت کی تشکیل کے بعد پہلے ایک ماہ میں اپوزیشن کئی محاذ پر کامیاب نظرآتا ہے جبکہ حکومت اکثر معاملوں میں دفاعی رُخ اختیار کرنے پرمجبور ہے۔

In its third term, the Modi government has to be continuously accountable to the people. Photo: INN
اپنی تیسری میقات میں مودی حکومت کو عوام کے سامنے مسلسل جوابدہ ہونا پڑرہا ہے۔ تصویر : آئی این این

میڈیا مینجمنٹ میں مہارت کی بنیاد پر اپنی مقبولیت کو برقراررکھنے اور لگاتار تیسرے پارلیمانی الیکشن میں اکثریت کھودینے کے بعد بھی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے والی مودی اور امیت شاہ کی بی جے پی نے تیسری میعادکیلئے حکومت تو بنالی مگر راوی اب اُس کیلئے چین نہیں  لکھتا۔ ایک طرف جہاں حکومت کومضبوط اپوزیشن کا سامنا ہے تو وہیں دوسری جانب میڈیا مینج کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود نئی حکومت کے پہلے ایک مہینے میں حکومت کےحصے میں مثبت خبریں  کم اور منفی خبریں زیادہ آئی ہیں۔ 
ایسا نہیں ہے کہ پارلیمانی الیکشن میں عوام کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے میڈیا نے عقل کے ناخن لے لئے ہوں یا اب حقیقت بیانی شروع کردی ہو، میڈیا کے بڑے ادارے اور حکومت نواز اینکر اب بھی بی جے پی پر پہلے ہی کی طرح  مہربان ہیں اور اسی رفتار بے ڈھنگی کا مظاہرہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ایک بڑا طبقہ صحافی ماننے کے بجائےکچھ اور کہہ کر پکارنےلگا ہے مگر وہ تمام تر کوششوں  کے باوجود اِن منفی خبروں سے حکومت کو بچانے میں کامیاب نہیں  ہو پائے۔ اس طرح  مودی حکومت کی تیسری میعاد کے پہلے ایک مہینے کا جائزہ لیں تو حکومت یکے بعد دیگرے مختلف موضوعات پر دفاعی پوزیشن میں ہے اور اپوزیشن جارحانہ انداز میں اسے گھیرتا ہوا نظر آرہاہے۔ وزارت داخلہ، وزارت دفاع، وزارت تعلیم اور اسپیکر کے عہدے پر پرانے چہروں کو برقرار رکھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش بھلے ہی کی گئی کہ اس تیسری میعاد میں (جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی کی بیساکھیوں کی مجبوری کے باوجود )حکومت کے تیور وہی ہیں  جو پہلی اور دوسری میعاد میں رہے ہیں مگر حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ اس میں  کوئی شک نہیں کہ جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی کے مفادات کی وجہ سے حکومت کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے مگر ۱۸؍ ویں لوک سبھا میں  اپوزیشن کو اگر ملک کے عوام نے مضبوطی عطا کی ہے تووہ اس مضبوطی کا حق ادا کرتے ہوئے بطور حزب اختلاف اپنا رول پوری ذمہ داری سے ادا کررہا ہے اوربڑی حد تک کامیاب بھی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: مودی کومضبوط ہی نہیں مربوط اور منظم اپوزیشن کا سامنا ہے

یہی وجہ ہے کہ صحافیوں اور میڈیا اداروں کی مہربانیوں کے باوجود کبھی نیٹ پیپر لیک کی وجہ سے، کبھی یوجی سی -این ای ٹی امتحان کی منسوخی کی بنا پر، کبھی بہار میں یکے بعد دیگرے پُلوں کے انہدام کی شکل میں تو کبھی ایئرپورٹس کی چھتوں  کے ڈھے جانے کی وجہ سے مودی حکومت کو ۴؍ جون(لوک سبھا انتخابات کے نتائج کےاعلان) کے بعد سے مسلسل منفی خبروں کا سامنا ہے۔ اگر یہ کہیں  کہ مودی حکومت کا پہلا ایک مہینہ ڈیمیج کنٹرول میں  ہی گزرا تو غلط نہ ہوگا۔ اس میں ایودھیا میں رام مندر میں پانی بھر جانے، چھت کے ٹپکنے اور ۱۴؍ کلومیٹر طویل رام پتھ جس کا افتتاح بڑے شور شرابہ کے ساتھ کیاگیاتھا، پر جابجا گڑھے پڑ جانے کو بھی جوڑ لیں تو یہ فہرست طویل ہوجاتی ہے۔ قدم پیچھے نہ لینے اور الزامات میں گھرنے کے بعد بھی ڈھٹائی پر قائم رہنے میں یقین رکھنے والی مودی حکومت کو نیٹ پیپرلیک معاملہ نے کچھ اس طرح گھیرا کہ ابتداء میں اپنے پرانے تیوروں  کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیپرلیک کو تسلیم ہی نہ کرنے کے بعد اسے نہ صرف یہ ماننا پڑا کہ پیپر لیک ہوا ہے بلکہ امتحان کا انعقاد کرانے والی مرکزی ایجنسی ’این ٹی اے ‘ کے سربراہ کو ہٹانا پڑا، دیئے گئے اضافی مارکس واپس لینے پڑے اور سپریم کورٹ میں یہ تسلیم کرنا پڑا کہ پرچہ لیک ہوا ہے۔ اپوزیشن کے الزامات کو قابل اعتناء نہ سمجھنے والی حکومت پر پرچوں  کے لیک ہونے کے معاملے میں خوف کچھ ایسا طاری ہوا کہ یکے بعد دیگرے کئی امتحانات کو کبھی منسوخ تو کبھی ملتوی کرنا پڑا۔ 
 ۲۰۱۴ء میں  اقتدار میں آتے ہی وزیراعظم نے ’’نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا‘‘ کا نعرہ دے کر یہ تاثرقائم کرنےکی کوشش کی تھی کہ وہ بدعنوانی کو برداشت نہیں  کریں  گے۔ ان کی حکومت کی اڈانی نوازی کی وجہ سے سمجھدار طبقہ بہت پہلے اس نعرہ کی حقیقت کو سمجھ چکا تھامگر تیسری میعاد کے پہلے ایک مہینے میں  بہار میں  یکے بعد دیگرے کم وبیش ۱۵؍ پلوں  کے گر جانے اور دہلی کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی چھت سمیت تین ہوائی اڈوں کی چھتوں  کے ڈھے جانے کےبعد عام آدمی بھی یہ سمجھنے لگا ہے کہ ترقی کے نام پر جو تعمیری کام ہوئے ہیں  وہ معیاری نہیں ہیں۔ فوٹو کھنچوا کر واہ واہی تو لوٹ لی جاتی ہے مگر کوالیٹی کے ساتھ کیسا سمجھوتہ کیا جاتا ہے وہ بہار کے پلوں اور ملک کے مختلف حصوں  میں  ہوائی اڈوں کی چھتوں  کے گرنےسے واضح ہوچکا ہے۔ ملک کی سیکوریٹی کے محاذ پر بھی یہی صورتحال ہے۔ کشمیر میں ۳۷۰؍ کی منسوخی کے بعد یہ دعویٰ کیاگیاتھا کہ اس کی وجہ سے وادی میں جنگجوئیت کی بیخ کُنی ہوجائے گی، یہ تاثر بھی دیا گیا کہ کشمیر میں  تشدد میں  کمی آئی ہے مگر نئی حکومت کے بنتے ہی کشمیر میں  جنگجوؤں  کے حملوں  میں   اضافہ واضح طور پر دیکھا جارہاہے جن پر قابو پانے میں  وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ ناکام ہیں۔ کانگریس کی ترجمان سپریہ شرینیت نے ۱۰؍ جولائی کو مودی حکومت کی تیسری میعاد کا ایک ماہ مکمل ہونے پر اس کا جو رپورٹ کارڈ پیش کیا ہے اس میں  نشاندہی کی ہے کہ جنگجوؤں  کے حملے میں ۸؍ فوجی شہید اور ۱۰؍ عام شہری فوت ہوچکے ہیں۔ ریل آمدورفت کے محاذ پر حکومت نہ مسافروں  کی سلامتی کو یقینی بناسکی نہ ان کے سفر کو آسان کرسکی۔ یہ وزیراعظم مودی کیلئے فال بد ہی کہلائےگا کہ تیسری میعاد کیلئے عہدہ سنبھالتے ہی جلپائی گوڑی میں دردناک ٹرین حادثہ پیش آیا جو انتظامی ناکامی کا نتیجہ تھا۔ مسافروں  کیلئے ریل سفر کس قدر دشوار گزار ہوچکاہے، یہ ایک الگ بحث ہے۔ 
گزشتہ ایک مہینے میں حکومت نے اگر کوئی بڑا قدم اٹھایا ہے تو وہ نئے تعزیری، فوجداری قوانین اور قانون شواہد کے نفاذ کا ہے جس میں ۱۸؍ ویں  لوک سبھا کا کوئی رول نہیں تھا۔ یہ قوانین گزشتہ لوک سبھا میں ہی منظور کرالئے گئے تھے۔ البتہ حکومت نے اسے دوبارہ لوک سبھا میں پیش کرنے کے اپوزیشن کے مطالبے کو ٹھکرا کر یہ تاثر دینے کی کوشش ضرور کی کہ وہ اب بھی اپوزیشن کے مطالبات کو اسی طرح سنجیدگی سے نہیں لیتی جس طرح  پہلے نہیں لیتی تھی۔ 
  اس کے برخلاف اس ایک مہینے میں  ر اہل گاندھی کی قیادت میں اپوزیشن ’انڈیا‘اتحاد کی شکل میں نہ صرف خود کو متحد رکھنے کامیاب رہا بلکہ کئی محاذ پر اس نے غیر معمولی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ نیٹ پرچہ لیک معاملے میں اس نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا، منی پور پر مسلسل خاموش رہنے والے وزیراعظم مودی کو لوک سبھا میں  اپوزیشن کے غیر معمولی احتجاج کی وجہ سے اپنی چپی توڑنی پڑی اور راجیہ سبھا میں بیان دینا پڑگیا۔ اس طرح کی رپورٹین بھی آرہی ہیں کہ جو مودی پرائیویٹائزیشن پر یقین رکھتے ہیں اورجن کے دور میں اڈانی گجرات سے نکل کر پورے ملک کے صنعتکار بن گئے، وہی مودی اب ۲۰۰؍ سرکاری کمپنیوں پر توجہ مرکوز کرکے انہیں منافع بخش بنانے کی کوشش کریں گے۔ اگر یہ صحیح ہے تو یہ بھی اپوزیشن کی ہی بڑی کامیابی ہے۔ 
انتخابی محاذ پر مختلف ریاستوں میں ۱۳؍ اسمبلی حلقوں  کے ضمنی الیکشن میں اپوزیشن نے جس طرح کامیابی حاصل کی ہے اور زعفرانی پارٹی کو چاروں شانے چِت کیا ہے، وہ عوام کے مزاج میں آنے والی تبدیلی کا اشاریہ ہے۔ وزیراعظم مودی کیلئے اس تیسری میعاد میں اپنی اُس شبیہ کو بچانے کا چیلنج ہے جو یوں  ہی نہیں بن گئی بلکہ جس میں  کروڑہا کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں  کیوں  کہ حکومت کیلئے چیلنج ابھی شروع ہوئے ہیں جن میں کمی کم اور اضافہ زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK