• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سورہ علق کی اوّلین پانچ آیتیں رہتی دنیاتک ایک مشعل راہ کافرض انجام دیتی رہیں گی

Updated: August 23, 2024, 3:45 PM IST | Professor Badruddin Al-Hafiz | Mumbai

قرآن کریم ’سب کیلئے تعلیم‘کا پہلا علمبردار ہے۔ آپ ﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی میں خلقت ِ انسانی اور سارے عالم کے عدم سے وجود میں لانے کا ذکر کرکے خالق کائنات اور اس کی اَن گنت مخلوق پر غور کرنے کی دعوت دے دی گئی ہے۔

"Tajweed" means knowing the correct way of reciting the Qur`an, correct pronunciation and other rules and regulations. Thanks be to God, now children are being taught Tajweed. Photo: INN
’’تجوید ‘‘ یعنی قرأت قرآن کا صحیح طریقہ، تلفظ کی درست ادائیگی اور دیگر اصول و قواعد سے باخبری۔ خدا کا شکر ہے کہ اب بچوں کو تجوید کی تعلیم کا نظم کیا جاتا ہے۔ تصویر : آئی این این

آج بین الاقوامی سطح پر تمام ممالک میں ’’سب کے لئے تعلیم‘‘ کے عنوان پر مختلف سمینار منعقد کئے جارہے ہیں، لاکھوں کروڑوں روپے کے خرچ سے تعلیم بالغاں اور غریبوں کے لئے عام تعلیم کی کوششیں جاری ہیں جو ترقی یافتہ دور کی باتیں ہیں ، مگر ذرا پندرہ سوسال قبل کے اُس دَور پر نگاہ ڈالئے جب عرب کے ریگ زاروں میں جہاں عام طور پر پڑھنے پڑھانے کا کہیں رواج نہ تھا، صرف شعر و شاعری اور خطابت سرمایۂ افتخار سمجھے جاتے تھے، اس عالم میں جب نبی برحق حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر قرآن کریم کی سورہ علق کا نزول ہوا تو اس کی ابتداء لفظ ’’اقراء‘‘ یعنی ’’پڑھو‘‘ سے ہوئی اور صرف یہی نہیں بلکہ ان ابتدائی ۵؍ آیات میں جو اس سورہ اور قرآن کریم کی اولین آیات ہیں، دو جگہ ’’اقراء‘‘ اور دو جگہ ’’علم‘‘ (اس نے سکھایا) کے کلمات استعمال کئے گئے۔ گویا ۵؍ آیات میں چار الفاظ پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے سکھانے سے متعلق تھے اور اسی ذیل میں ’’علّم بالقلم‘‘ ’’جس نے سکھایا قلم کے ذریعے‘‘ کہہ کر اس بات کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا تھا کہ تعلیم کا پہلا ذریعہ اگر پڑھنا ہے تو دوسرا واسطہ قلم ہے۔ 
  اسی ذیل میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام کی پہلی پکار ’’اقراء‘‘ پر جب آپﷺ نے عذر ظاہر کیا کہ میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں تو حضرت جبریل ؑ نے یہ سننے کے باوجود پھر کہا ’’پڑھئے۔ ‘‘ آپؐ نے جب دوسری بار بھی معذرت ظاہر کی تو بھی حضرت جبریل ؑ نے اپنا مطالبہ جاری رکھا مگر ذرا سے اضافے کے ساتھ۔ اب آپؑ نے کہا ’’پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے سب کو پیدا کیا۔ ‘‘ اس جملے میں ایک تسکین بھی تھی اور تخلیق عالم کی طرف اشارہ بھی۔ یعنی جس پروردگار نے سارے عالم کو عدم سے وجود بخشا، تخلیق عالم کا عمل انجام دیا، کیا وہ اَن پڑھ کو تعلیم یافتہ نہیں بناسکتا؟ اس نے اگرچہ عوامی علم کے لئے قلم کو ذریعہ اور واسطہ بنایا مگر وہ اس کا محتاج نہیں ہے۔ وہ چاہے تو ایک اُمّی کو، جس کا نہ دنیا میں کوئی استاد بنا نہ اس نے قلم کا ذریعہ اختیار کیا، اپنے فضل و کرم سے زمین و آسمان کے سارے علوم کے خزانے عطا کردے۔ 

یہ بھی پڑھئے:قرآن مجید میں رب العالمین نے جن چیزوں کی قسم کھائی ہے ان میں وقت بھی شامل ہے

میرے خیال میں قرآن کریم کی ان ابتدائی آیات میں ’’سب کے لئے تعلیم‘‘ کی اہمیت پر جو بنیادی اشارے کئے گئے وہ رہتی دنیا تک ایک مشعل راہ کا فرض انجام دیتے رہیں گے۔ اس کے بعد سورہ الرحمٰن کی آیت نمبر۴؍ میں ہمیں علم حاصل کرنے کے تیسرے ذریعے ’’بیان‘‘ کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لئے بیان کی قوت بھی عطا کی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ انسان کے لئے تعلیم ضروری اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے پڑھنا لکھنا اور بیان کرنا لازمی ہے۔ 
 اس کے بعد آج کی ترقی یافتہ الیکٹرانکس کی دنیا میں ذرائع ابلاغ  ِ عامہ یا ماس کمیونکیشن کے لامتناہی پھیلے ہوئے ریڈیائی شعاعوں کے جال پر آپ غور کریں تو قرآن کریم کے ان ہی تین بنیادی ذرائع تعلیم کا جلوہ نظر آئے گا، انہی کے محور پر مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال تک کی دنیا سمٹ کر ایک شہر یا گاؤں بن چکی ہے۔ دن رات ہم دیکھتے ہیں چاہے وہ لاتعداد زبانوں کے رسائل و اخبارات یا کتابوں کے بحر بے کراں ہوں اُن میں باہم پیغام رسانی کا ذریعہ تو وہی قلم، تحریر یا تقریر ہے، صرف ذریعہ ٔ ابلاغ تیز سے تیز تر ہوگیا ہے۔ پہلے زبان و بیان یاتحریروں کا سفر اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے ہفتوں اور مہینوں میں طے ہوتا تھا، اب وہی قلمی تحریر چند سکنڈ میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچائی جاسکتی ہے۔ اس طرح گوناگوں صلاحیت، قابلیت اور اہلیت کی بے مثال شخصیات سب مطالعہ تحریر اور تقریر یا زوربیان ہی کے  ذریعے اس روئے زمین پر اپنے جوہر دکھاتی نظر آتی ہیں۔ 
  یہ ہے قرآن کریم کا وہ عالمی تعلیمی پیغام جس نے صرف پڑھنے لکھنے ہی کی طرف متوجہ نہیں کیا بلکہ سورہ علق کی ان ہی ۵؍ آیات میں خلقت ِ انسانی اور سارے عالم کے عدم سے وجود میں لانے کا ذکر کرکے خالق کائنات اور اس کی اَن گنت مخلوق پر غور کرنے کی دعوت دے دی۔ ذہنوں میں ایک ہلچل مچا دی، فکری قوت کو جھنجھوڑ دیا، سائنس کی مختلف شاخوں کے دروازے کھول دیئے اور کھلا اعلان کردیا کہ پڑھو اور اس عالم ارض و سما، سمندر و صحرا، پہاڑ اور رہ گزر ہر ایک کی کھوج میں سرگرداں ہوجاؤ تاکہ تمہارے علم میں اضافے کے ساتھ قدرت کی بے پناہ نشانیوں پر یقین حاصل ہوجائے اور تم ایک لازوال قوت، ایک محور سے وابستہ رہتے ہوئے اشرف المخلوقات قرار دیئے جانے کے مظہر بن سکو۔ 
قرآن کریم کی عمومی تعلیم 
اور خصوصی مطالعہ
 اسلام اور قرآن کی تاریخ تو یکساں ہی شروع ہوتی ہے جو عملاً اس دعوے کی دلیل ہے کہ قرآن کریم ’’سب کے لئے تعلیم‘‘ کا پہلا علمبردار ہے۔ اس سلسلہ میں تاریخ شاہد ہے کہ مختلف تاجروں اور سیاحوں کے ذریعے دنیا کے جس گوشے میں اسلام کی شعاعیں پہنچیں وہاں ساتھ ہی کلام اللہ کی تعلیم کی اشد ضرورت محسوس کی گئی، کیونکہ اسلام قبول کرنے کے بعد نماز کا ادا کرنا اولین فریضہ ہے اور نماز بغیر قرآن کے ممکن ہی نہیں ہے چاہے وہ جزوی تعلیم ہو۔ اِس طرح جس نے اسلام قبول کیا اس نے کچھ نہ کچھ قرآن کریم پڑھا اور یاد کیا۔ اس کے بعد قدرتی طور پر قرآن سیکھنے والے کے دل و دماغ میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ وہ اس کو اپنی استطاعت کے مطابق سمجھے۔ اس طرح قرآن کے ذریعے دنیا کے کونے کونے میں عربی زبان پہنچی اور ایک دینی ذریعہ ٔ تعلیم ہونے کی وجہ سے لوگوں میں اس کے سیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کے ہر ملک میں ہر مسلمان کو اپنی مادری زبان کے علاوہ ایک نئی زبان سے کسی نہ کسی درجے میں واقفیت حاصل ہوگئی اور اسی کے ذیل میں ’’تجوید ‘‘ یعنی قرأت قرآن کا صحیح طریقہ، تلفظ کی درست ادائیگی اور دیگر اصول و قواعد کا علم حاصل ہوا اور اس مقصد کی خاطر گاؤں گاؤں شہر شہر ناظرہ کلام پاک کے مکاتب قائم ہوئے۔ معمولی اخراجات پر ان میں تعلیم ہونے لگی اور رفتہ رفتہ یہ نظام پورے عالم ِ اسلام میں جاری ہوگیا جس میں دینی مسائل اور کسی حد تک تاریخ اسلام وغیرہ کا درس بھی دیا جانے لگا۔ اس طرح ناظرہ کلام پاک کی تعلیم کے طفیل ہر بچہ کسی نہ کسی سطح پر تعلیم یافتہ ضرور بن گیا۔ 
  ہندوستان میں ہماری بنیادی تعلیم کا آغاز لاکھوں بچوں کی طرح اسی شکل میں ہوا جہاں یہ منظر بھی ہماری نگاہوں کے سامنے سے گزرا کہ جو والدین اپنی لڑکیوں کو مدرسہ یا اسکول بھیجنا پسند نہ کرتے تھے وہ بھی گھر پر ناظرہ کلام پاک اور معمولی اردو ضرور پڑھا دیا کرتے تھے تاکہ لڑکیاں بہشتی زیور وغیرہ پڑھ کر زندگی کے تمام اہم مسائل سے واقفیت حاصل کرسکیں۔ 
 یہ سلسلہ آج بھی دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں جاری ہے جو مسلمان بچوں کی عمومی تعلیم کا اہم ذریعہ ہے جس کے بعد بچہ غیرتعلیم یافتہ یا اَن پڑھ نہیں رہتا۔ 
 اس کے بعد دوسرے طبقہ کو ہم خصوصی زمرے میں شمار کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن فہمی اور ترجمہ کی گہرائیوں کو سمجھنے کی صلاحیت عطا کی ہے اور غالباً اسی طبقے کو مخاطب کرکےعلامہ اقبالؒ نے بھی کہا ہے:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردمسلماں 
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّت ِ کردار
کیونکہ اس طرح کے کام کے لئے تو کچھ خاص دل و دماغ مخصوص ہوتے ہیں اور یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا۔ چنانچہ نزول قرآن سے لے کر آج تک جتنے مفسرین، مترجمین اور شارحین پیدا ہوچکےہیں ان کا شمار میں آنا ہی مشکل ہے۔ 
  اس کے علاوہ قرآن کریم نے اپنے معانی و مطالب کو سمجھنے کے لئے اپنے الفاظ میں جو اشارے سمو دیئے ہیں ان کے ذریعے خود علوم کے سوتے کھل گئے ہیں، غور و فکر کی راہیں نکل آئی ہیں۔ مثلاً سورہ ’’القریش‘‘ جیسی مختصر سورہ کی ابتدائی دو آیتوں میں قبیلہ قریش کی سردی اور گرمی کے سفر سے انسیت کا ذکر، یہ سفر کیوں ، کس سمت میں ، اور سردی گرمی میں ایک جہات میں تھا تو کیوں تھا، یہ سب ہر قاری کو دعوتِ فکر دیتا ہے کہ اس کی تاریخی اور جغرافیائی معلومات حاصل کرے۔ سورہ الرحمٰن کی آیت نمبر ۲۲؍ (اِن سمندروں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں ) میں موتی اور مونگے کا ذکر سمندری معلومات، وہاں کی مخلوق اور پانی میں بسی ہوئی ایک نرالی دنیا کا حال جاننے کی طرف رغبت دلاتا ہے۔ پھول، پھل، سبزیاں اور مختلف درختوں کا تذکرہ، نباتات کی تحقیق پر ذہن کو آمادہ کرتا ہے۔ عاد و ثمود، قوم صالح، اصحاب السبت، اصحاب الفیل اور اصحاب الکہف نیز دیگر اقوام کا ذکر ان کے محل وقوع اور زماں و مکاں معلوم کرنے کی جستجو پیدا کرتا ہے۔ قرآن کریم میں انبیاء کرامؑ کے واقعات صرف ان کے حالات کا آئینہ نہیں ہیں بلکہ اپنے عہد کے سیاسی، اقتصادیاور سماجی ماحول کی کھلی کتاب ہیں جن کا تحقیقی مطالعہ کرتے ہوئے ہر ذوق کا ریسرچ اسکالر ایشیاء اور افریقہ کے بحر و بر، کوہ و صحرا کا احاطہ کرسکتا ہے۔ 
  یہ تو محض چند اشارے ہیں ورنہ قرآن کریم کے علوم کو ایک مختصر مضمون میں سمیٹ لینا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہاں اب ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ہم نے موجودہ دور کے ’’سب کے لئے تعلیم‘‘ کے مقابلے میں قرآنی تعلیم کا موازنہ کرنے کی جوشش کی ہے اس میں عمومی اور خصوصی تعلیم کا فرق نمایاں نظر آتا ہے یعنی قرآنی تعلیم عالمی ضرور ہے مگر صرف مسلمانوں کے لئے اور ’’سب کے لئے تعلیم‘‘ کا منصوبہ بلاتفریق مذہب و ملت ہے۔ اس سلسلہ میں ایک جواب تو یہ ممکن ہے کہ قرآن کریم کا نزول صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ہوا بلکہ ساری دنیا قیامت تک کے لئے اس کی مخاطب ہے اور اسی مفہوم میں قرآن کریم نے یا ایّھا الناس، اے لوگو! کہہ کر سب کو مخاطب کیا ہے اور سب کو برائیاں چھوڑ کر پرہیزگار بننے کی دعوت دی ہے۔ اسی لئے جو اسے قبول کرے وہی استفادہ کرسکتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK