• Thu, 26 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اسلام میں عام انسان کی عظمت

Updated: May 17, 2024, 3:24 PM IST | Shahid Moin Qasmi | Mumbai

دنیا کے عام انسانوں کی عظمت جتنی اسلام میں ہے اتنی شاید ہی کہیں اور ہو۔ انسانی حقوق اور احترام کا جو بھی کوئی موقع ہوتا ہے اسلام وہاں مسلمان اور غیرمسلمان کا کوئی فرق نہیں کرتا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

دنیا کے عام انسانوں کی عظمت جتنی اسلام میں ہے اتنی شاید ہی کہیں اور ہو۔ انسانی حقوق اور احترام کا جو بھی کوئی موقع ہوتا ہے اسلام وہاں مسلمان اور غیرمسلمان کا کوئی فرق نہیں کرتا۔ اس کی کوئی ایک مثال بھی، قرآن پاک، احادیث مبارکہ یا صحابہ ٔ کرام ؓ کے عمل اور سیرت میں نہیں ملتی۔ اور ایسا اس لیے نہیں ہوسکتا کہ : (۱) مسلمان ایک داعی قوم ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ کسی کے غیر مسلم ہونے کو بے دلی اور لاپروائی کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے، اسے پیا ر و محبت کے ساتھ اللہ کے صحیح دین کی طرف بلائیں، وہ اپنے اخلاق وخدمات سے انسانوں کو متاثر کرکے انہیں دعوت کی باتوں کو سننے کیلئے بیتاب کر یں، راتوں کو رو روکر ان کی ہدایت کیلئے اللہ سے دعا مانگیں اوردن میں اپنے اخلاق وکردار کی بلندی اور اچھائی کے ذریعے اس کا کامل اور مؤثر مداوا کریں۔ (۲) اگر چہ اللہ کے سچے دین کوقبول نہ کرنا اللہ تعالی کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے لیکن اس جرم کی سزا دینا نہ تو مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور نہ ان کا حق۔ (۳) اسلام اپنے اصل کے لحاظ سے دنیا میں تمام انسانوں اور دوسری مخلوقات کیلئے امن وسکون پیدا کرنا چاہتاہے جو عام غیرمسلموں سے بھی اچھابرتاؤ کئے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ہم قرآن کریم کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس نے کس طرح انسان ہونے کے ناطے دنیا کے تمام انسانوں کو باعزت اوربزرگ بتایا ہے:
اللہ تعالی فرماتے ہیں :ــــ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی اورہم نے ان کو خشکی اور دریامیں سوار کیا اور ہم نے ا پنی پیدا کی ہوئی اکثر مخلو ق پر انہیں بڑائی عطاکی۔ (سورہ ٔ بنی اسرائیل آیت: ۷۰)۔ اس آیت سے رہنمائی ہوتی ہے کہ قرآن کی نظر میں دنیا کے تمام انسان اس لحاظ سے عزت اور عظمت کے مستحق ہیں کہ وہ انسا ن ہیں چاہیں وہ مسلمان ہوں یا نہ ہوں، انسان ہونے کے ناطے اللہ تعالی نے جو بزرگی انسانوں کو دی ہے اس میں ہر مذہب کے ماننے والے برابر ہیں اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا کہ وہ تمام انسان جو آدم کی اولاد ہیں ہم نے انہیں عزت دی، سمندر اور سمندر کے باہر انہیں بہت ساری سواریاں عطا کیں اور اپنی بے شمار مخلوقات کے مقابلے میں ان تمام کو بڑائی اور بزرگی دی۔ ظاہر ہے کہ دنیا کے تما م انسا ن ہی حضرت آدم کی اولاد ہیں اور تمام انسا ن خو د کو آدم کی اولاد مانتے بھی ہیں تو یہ بھی ماننا ہو گا کہ قرآن نے اس آیت میں بزرگی کی جوبات کی ہے وہ تمام انسانوں کیلئے ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: جب آپؐ نے کچھ کہا اور حضرت فاطمہ ؓرونے لگیں، پھرکچھ کہا اور آپؓ ہنسنے لگیں

اسی طرح ایک دوسری جگہ قرآن ِپا ک نے کہا کہ: اے انسا نو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک ہی جاندار سے پیدا کیا اور اس سے اس کاجوڑا پیدا کیا پھر ان دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلادیا۔ (سورہ ٔ نساء)۔ تیسری آیت میں فرمایا گیا: اے لوگو ہم نے تم کوالگ الگ قوموں اور خاندان والا بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہو، اللہ تعالیٰ خوب جاننے والے اور خوب خبر رکھنے والے ہیں۔ (سورہ ٔ حجرات آیت:۱۳)
ان تین آیات میں اللہ تبارک وتعالی نے دُنیا جہان کے تمام انسانوں کو، چاہے وہ جس کسی زمانے میں پیداہوئے ہوں، جہاں کہیں پید اہوئے ہوں، چاہے ان کا دین و مذہب کچھ بھی ہو، وہ پیشے کے لحاظ سے کچھ بھی کہلاتے ہوں اور کسی بھی خاندان سے تعلق رکھتے ہوں، مالدارہوں یاغریب، بیمارہوں یا صحت مند، موٹے ہوں یا دبلے پتلے، لمبے ہوں یا چھوٹے قد کے، گورے ہوں یا کالے وغیرہ وغیرہ لیکن ان تمام کے باوجود تمام انسان انسان ہی ہیں، سب ایک ماں باپ کی اولاد ہونے میں یکساں ہیں، آدم اور حواکی اولاد ہونے کی وجہ سے جو فضیلت ہے وہ سب کے لئے ہے۔ جس طرح آسانی سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک ماں باپ کی اولاد اپنے ماں باپ کی طرف نسبت کرتے ہوئے ایک ہی ہوتی ہے، ماں کی طرف سے جو بزرگی اور مرتبہ انہیں حاصل ہوتا ہے اس میں سبھی برابر ہوتے ہیں پھر اپنے اپنے عمل اور صلاحیتوں کے لحاظ سے ان میں سے کوئی کسی سے کم اور کسی سے زیادہ ہوتا ہے لیکن اصل نسبت بہرحال باقی رہتی ہے۔ 
پوری دُنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے نبی ٔ آخر الزماں ؐ کا ارشاد مبارک ہے: اے لوگو! خوب سمجھ لو! تم سب کا رب ایک ہے اور تم سب کے باپ بھی ایک ہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے، سوا ئے تقویٰ، کسی بھی دوسری وجہ سے نہ تو کسی عرب کے رہنے والے کو کسی غیر عرب پر بڑائی حاصل ہوگی اور نہ ہی کسی غیر عربی کو کسی عربی پر، نہ ہی کسی گورے انسان کو کسی کالے پر بڑائی حاصل ہوگی، اللہ تعالی کے نزدیک تم میں کا سب سے بڑ اانسان وہ مانا جائے گا جو اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ ڈرتاہو۔ (مجمع الزوائد للہیثمی ج؍۳ص؍۲۶۶۔ مسند الامام احمدج؍۵ص۴۱۱ )۔ 
 اسلام میں آپؐ کے خطبۂ حجۃ الوداع کی بھی بڑی اہمیت ہے جس میں آپؐ نے تمام انسانوں کی عظمت کو بیان کرنے کیلئے جوانداز اور الفاظ اپنائے ہیں ان پہ غور کریں ! اللہ کے نبیؐ نے ’’اے مسلمانو‘‘ نہیں کہا بلکہ ’’اے انسانو‘‘ فرمایا، اس طرح نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ پوری دنیا کے تمام انسانوں کو یہ نصیحت کی کہ تم آپس میں بھائی بھائی ہو، تم میں کوئی بڑا چھوٹا نہیں، بڑا یا چھوٹا ہونے کی ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے اور وہ یہ کہ جو انسان اللہ کے حکموں پہ جتنا زیادہ عمل کریگا و ہ اللہ کی نظر میں اتنا ہی بڑا ہوگا مگر اس کی یہ بڑائی بھی آخرت کے ثواب کے لحاظ سے اوردینی اُمور میں ہوگی اسے یہ حق نہیں ہوگا کہ اس بنیاد پر دوسروں کو گھٹیا سمجھنے لگے۔ 
 قرآنی رہنمائی یہ ہے کہ جو لو گ مسلمانوں کو تکلیف نہ پہنچاتے ہوں ان سے تعلق اور اچھے برتاؤ کو اسلام نہیں روکتا بلکہ جو لوگ مسلمانوں کی زندگی کو اجیرن کردیں انہی کے ساتھ ہمدردی اور اچھے برتاؤ سے روکتاہے۔ قرآن کہتاہے: اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ اچھے برتاؤ اور انصاف سے نہیں روکتا جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تمہارے ساتھ لڑائی نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں البتہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ دوستی سے منع کرتے ہیں جنہوں نے تمہارے دین کی وجہ سے تمہارے ساتھ لڑائی کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا یا تمہارے نکالے جانے پر نکالنے والوں کی مدد کی۔ جو ایسے لوگوں سے دوستی کرینگے وہ گنہگار ہونگے۔ (سورۂ ممتحنہ آیت :۸؍۹) 

یہ بھی پڑھئے: اشاعت ِدین کیلئے دین کی تڑپ ضروری

ادب و احترام اور خدمت میں مسلمان ماں باپ اور غیرمسلم ماں باپ کا کوئی فرق نہیں : قرآن کریم نے سورہ ٔ بنی اسرائیل آیت ۲۳؍ اور آیت: ۲۴؍ میں ماں باپ کے ادب و احترام کوبیان کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان اس طرح بیان کیا:’’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو، اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔ ‘‘
ماں باپ کے ساتھ ادب و احترام اور خدمت کا جو حکم ہے وہ تما م ماں باپ کیلئے ہے چاہے ماں باپ مسلمان ہوں یا غیر مسلم چنانچہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کاحکم اس طرح بیان کرتا ہے: اور ہم نے انسانوں کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھے برتاؤ کاحکم دیا ہے اور یہ بھی حکم دیا ہے کہ اگر وہ لوگ تمہیں اس بات پہ مجبور کریں کہ تم میرے ساتھ ایسی چیز کو میرا شریک مانو جس کے بارے میں تمہارے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو ان کی یہ بات نہ مانو۔ ایک دوسری آیت میں قرآن کریم یہی بات اس طرح بیان کرتا ہے: اور ہم نے انسان کو اس کے ماں با پ کے بارے میں تاکید کی ہے اس کی ماں نے کمزوری پہ کمزوری برداشت کر کے اسے پیٹ میں رکھا اور دوبرس میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے کہ تم میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کیا کرو، میری طرف تم کو لوٹ کرآناہے اور اگروہ دونوں اس بات کا زور ڈالیں کہ تم میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہر اؤجس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو تم ان کی بات نہ مانو لیکن دنیا میں ان کے ساتھ خوبی سے بسر کرنا۔ (سورہ ٔ لقمان آیت:۱۴۔ ۱۵) ان آیتوں میں یہ بات بالکل صاف انداز میں بیان کی گئی ہے کہ اگر کسی مسلمان کے ماں باپ مسلمان نہ ہو ں اور ساتھ ہی اس مسلمان کو بھی اسلام سے پھر جانے کے لئے مجبور بھی کرتے ہوں پھر بھی ان سے دشمنی نہیں کرنی ہے بلکہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ ہی کرنا ہے یہ دنیا میں ان کا حق ہے جوا ن کے غیرمسلم ہونے سے ختم نہیں ہوجاتا۔ 
بخاری شریف اورحدیث کی دوسری کتابوں میں بھی یہ واقعہ موجود ہے کہ دوسرے خلیفہ حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی حضرت اسماءؓ کی ماں ان کے پاس آئیں۔ تب تک وہ مسلمان نہیں ہوئی تھیں۔ حضرت اسماءؓ نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ میری ماں مجھ سے ملنے آئی ہیں ( انہوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا ہے) میں ان کی عزت اور خاطرتواضع کروں یا نہ کروں اور تعلق نبھاؤں یا نہ نبھاؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :ہاں۔ 
علمائے اسلام نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ جس طرح محتاجی اور ضرورت کے وقت ایک مسلمان کے لئے اپنے مسلم ماں باپ کی دیکھ ریکھ اور انہیں ہر ضروری چیز مہیا کرنا واجب ہے اسی طرح غیرمسلم ماں باپ کی ہر ضرورت کو پوری کرنا بھی ضروری اور اولاد کی ذمہ داری ہے۔ 
اسلام میں ماں باپ کے بعد دوسرا درجہ خونی رشتہ داروں کا ہوتاہے۔ اس میں بھی مسلمان اور غیر مسلمان رشتہ داروں کا کو ئی فرق نہیں ہے۔ نسائی، طبرانی، بزار اور حاکم وغیرہ نے حضرت ابن عباسؓ کا قول نقل کیا ہے کہ مسلمان اپنے غیر مسلم رشتہ داروں پر خرچ کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ یہ جب بات حضور ﷺ سے دریافت کی گئی تو آپؐ نے رشتہ داروں کو دینے کی اجازت دی۔ تب ہی یہ آیت نازل ہوئی تھی: ’’ان کو ہدایت دینا آپ کے ذمہ نہیں بلکہ اﷲ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو سو وہ تمہارے اپنے فائدے میں ہے۔ ‘‘  (البقرہ: ۲۷۲)۔ ابن حاتم ؓ نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ صرف اہل اسلام کو خیرات دینے کاحکم دیتے تھے اس پر یہ آیت اتری اس کے بعد حضورؐ نے ہرمذہب کے لوگوں کو خیر ات دینے کا حکم دے دیا۔ 
 حضورؐ کا خود اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ بڑا اچھا برتاؤ رہا۔ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا: میر ے باپ کے خاندان کے لوگ میرے اولیاء (یعنی میری حقیقی محبت کے مستحق) نہیں ہیں بلکہ میرے ولی تو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ہیں ہاں میرے باپ کے خاند ان والوں کے لئے خونی رشتہ داری ہے میں اس لحاظ سے ان کا خوب خو ب خیال کروں گا۔ 
(بخاری کتاب الادب باب تبل الرحم ببلالہا ج؍۲ ص؍۸۸۶ )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK