• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اسرائیل پر ایرانی حملہ اور مشرق وسطیٰ  کا بدلتا ہوا منظر نامہ

Updated: October 08, 2024, 4:12 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

تل ابیب کو چند مہینوں میں دوسری بار براہ راست نشانہ بنا کر اوراس کے دفاعی نظام ’آئرن ڈوم‘ کی قلعی کھول کر تہران نے پھر اسرائیل کے ’’ناقابل تسخیر‘‘ ہونے کے مفروضہ کی قلعی تو کھول دی ہے مگر مشرق وسطیٰ میں تیزی سے آنےوالی تبدیلیاں فیصلہ کن موڑ لیتی نظر آرہی ہیں، اس پورے منظر نامہ میں اگر کوئی مغلوب نظر آرہا ہے تو وہ عرب دُنیا ہے

Photo: INN
تصویر: آئی این این

چند مہینوں میں دوسری بار اسرائیل  پر براہ راست میزائلیں  برسا کر ایران نے ایک بار پھر نہ صرف اس کے انتہائی مہنگے فضائی دفاعی نظام ’’آئیرن ڈوم‘‘ کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے بلکہ اس کے ’’ناقابل تسخیر‘ ‘ ہونے کی  اُس شبیہ پر بھی بٹہ لگا دیا ہے جسے اس سے قبل مٹھی بھر لوگوں کی جماعت ’حماس‘ ۷؍ اکتوبر کے حملوں میں تار تار کرچکی ہے۔ حالیہ معرکہ میں  اسرائیل بھلے ہی امریکہ کی پشت پناہی  اور عالمی بے بسی و بے حسی نیز عرب ممالک کی بے غیرتی کا فائدہ اٹھا کر غزہ میں  ۴۲؍ ہزار کے قریب اور لبنان میں چند دنوں  میں ۲؍ ہزار سے زائد افراد کو قتل کرنے  میں  کامیاب رہا  ہو مگر یہ اس کی فتح ہے، نہ اس سے اسے خطے میں بالادستی حاصل ہوئی ہے۔
  حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے جاری غزہ پر اس کے حملوں  نے بین الاقوامی سطح پر اسے  برہنہ کردیا ہے۔ہندوستان میں بھلے ہی  ایک طبقہ مسلم دشمنی کی بنیاد پر’’آئی اِسٹینڈ وِد اسرائیل‘‘ ( میں  اسرائیل کے ساتھ ہوں) کا پرچم بلند کررہا ہو مگر عالمی سطح پرصہیونی ریاست  اوراس کے حکمرانوں کیلئے  عوامی  حمایت میں غیر معمولی کمی آئی ہے ۔اس نے اپنی حرکتوں  سے اپنی شناخت ظالم، بچوں اور خواتین کے قاتل اور بے قصور شہریوں کی نسل کشی کرنے والے ملک کے طور پر بنا لی ہے۔ جس ہٹلر کے مظالم کی دہائی دے کر صہیونیوں نے پوری دنیا کی ہمدردیاں بٹوریں اور  اس  ہمدردی  کے سہارے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کرکے اسرائیل بنایا،اب اس کے لیڈروں  کاموازنہ بجا طور پر اسی ہٹلر سے کیا جانے لگا ہے۔ اس جنگ میں اسرائیل اور اس کے ساتھ امریکہ کی یہی سب سے بڑی ہار ہے۔
 یہ بات بھی ایک سے زائد بار ثابت ہوچکی ہے کہ غزہ ہو کہ لبنان، آمنے سامنے کی لڑائی میں اسرائیل کی فوجیں ٹھہر نہیں پاتیں اور اس کے جوان اکثر  اسٹریچر پر واپس جاتے ہیں۔تکنیک اور فضائی حملوں کا سہارا نہ ہوتو اسرائیل  نہ   غزہ میں ایک انچ کی پیش رفت کرسکتاہے، نہ لبنان میں۔اپنے وطن کیلئے جان کی بازی لگادینے والے حماس کے جیالوں کا مقابلہ  اس کے فوجیوں  کے بس کی بات ہے، نہ  وہ حزب اللہ کے اُن  تربیت یافتہ لڑاکوں  کے سامنے ٹھہر سکتے ہیں جنہوں نے  اسرائیل کی  تمام تر طاقت کے باوجود ۲۰۰۶ء میں  اسے  شرمناک ہار سے دوچار کیاتھا۔ نیتن یاہو مزاحمتی تحریکوں کی قیادت کو ختم کرکے ان کی کمر توڑ دینے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں مگر وہ نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ اپنی ان حرکتوں سے وہ مزاحمت کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط کررہے  ہیں جو اپنے لیڈر خود پیدا کرلے گی جیسے اس نے شیخ یاسین ، عبدالعزیز الرنتیسی  اور دیگر کے بعد خالدمشعل اور اسماعیل ہانیہ کی شکل میں پیدا کئے۔ لبنان پر اسرائیل کا حملہ ظالمانہ حکمت عملی کے لحاظ سے  غزہ پر حملے کے مقابلے میں زیادہ سوچا سمجھاا ور منصوبہ بند تھا۔ پہلے  پیجر اور واکی ٹاکی کے ذریعہ حزب اللہ کے زیادہ سے زیادہ کارکنوں کو  نشانہ بنا یا گیا  انہیں اس لائق نہیں رہنے دیاگیا کہ وہ حملے کی صورت میں میدان میں جنگ کا حصہ بنیں۔اس طرح  لبنان میں حزب اللہ پر باقاعدہ حملہ سے قبل ہی اس کی ملیشیا کے ایک بڑے حصے کو ناکارہ بنادیاگیا اور بزعم خود ان کےدلوں پر خوف طاری کرنے کی کوشش کی گئی۔اس کے بعد تنظیم کی قیادت کو نشانہ بنایاگیا اور حسن نصراللہ کو شہید کردیاگیا۔  ہفتے بھر میں حزب اللہ کی قیادت کے ایک بڑے حصے کو ختم کردینے کے بعد بھی جب زمینی حملے شروع  ہوئے تو حزب اللہ  نےآمنے سامنے کی لڑائی میں اسرائیلی  فوجیوں کے دانت کھٹے کر دیئے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ سے لبنان تک جو کچھ ہورہا ہے اُس کے بعد کیا اقوام متحدہ کی ضرورت رہ جاتی ہے؟

 یہ اس بات کاایک اور ثبوت ہے کہ قیادت کو ختم کردینے کی حکمت عملی  ناکام ہے اور  اس سے اسرائیل کو تحفظ حاصل نہیں ہوگا۔ 
 اسرائیل کی اس سے بڑی اور کیا ناکامی ہوسکتی ہے کہ وہ خود کو خطے کا سپر پاور سمجھتا ہےاوراسے امریکہ جیسے عالمی سپر پاور کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، گزشتہ  ایک سال میں اس نے پورے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجاد ی مگر   دو ایک کو چھوڑ کر اُن یرغمالوں کواپنی طاقت کے بل پر  رہا نہیں کراسکا جن کی رہائی کو جنگ کا جواز بنایا ہے۔ اس کے باوجود کہ ۸۵؍ فیصد غزہ کھنڈر میں تبدیل ہوچکاہے، حماس کے جنگجوؤں نے اُسی کھنڈر میں آج بھی  یرغمالوں کو قیدکررکھا ہے۔ اسرائیل اس خطرہ کے باوجود فلسطینیوں پر بم برسا رہاہے کہ اس  کے اپنےشہری جو یرغمال کی شکل میں غزہ میں موجود  ہیں، اس کے بموں کا نشانہ بن سکتے  اور وہ بن بھی رہے ہیں۔ اب اس کی توجہ حزب اللہ پر ہے مگر ایران  کے ساتھ براہ راست لڑائی کے امکان بھی بڑھنے لگے ہیں۔  پوری دنیا  منتظر ہے کہ ایران کے حملے کا اسرائیل کس طرح جواب دیتاہے۔

یہ بھی پڑھئے: جنوری کے الیکشن میں ہی شیخ حسینہ کیلئے نوشتہ ٔدیوار موجود تھا

اسرائیل متبادلات پر غور کررہاہےمگر امریکہ کے مشورہ کے بغیر وہ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکتا۔ اس بیچ جمعہ کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے لاکھوں کے مجمع  سے خطاب میں جس طرح اسرائیل کو چیلنج کیا ہے اور امریکہ تک کو للکارا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خطے کا منظر نامہ تیزی سے بدل رہاہے۔ ایران کا یہ اعلان کہ ’’یکطرفہ تحمل‘‘اپنے نقطہ عروج کو پہنچ چکا ہے اور اگر اسرائیل نے ایران کے خلاف کوئی کارروائی کی تو پہلے سے زیادہ سخت جواب ملےگا،اس بات کا اشارہ ہے کہ جنگ کا دائرہ وسیع ہوسکتاہے۔غنیمت  ہے کہ عرب ممالک نے ایسی کسی صورت میں ایران کو غیر جانبداررہنے کی یقین دہانی کرائی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنی عزت نفس کھو چکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ  میں  اگراس وقت کوئی مغلوب ہے تو وہ عرب ممالک ہیں۔ یہ ممالک اپنا سب کچھ گنوا کر بھی ڈٹے رہنےوالے اہل غزہ   سے بھی کمزور اور سراسیمہ نظر آتے  ہیں۔  یہ اُس ا مریکہ اور برطانیہ  کے اتحادی ہیں  جو یہ تاثر دینے کی کوشش تو کر رہے ہیں کہ وہ اس جنگ کا حصہ نہیں ہیں مگر ان کےبغیر یہ جنگ جاری نہیں رہ سکتی۔ وہ نہ صرف پردے کے پیچھے سے ہتھیار کی فراہمی کے ذریعہ سرگرم ہیںبلکہ وقفہ وقفہ سے یمن پر انصار اللہ  (حوثی باغیوں ) کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کرنیزاسرائیل کیلئے ذرہ سا خطرہ بڑھنے پر خلیج میں  اپنی فوجی موجودگی کو بڑھا کر  یہ ثابت کرتے ہیںکہ اسرائیل جو کچھ کررہا ہے ان کی کھلی چھوٹ کی وجہ سے کررہاہے۔  امن وانصاف کے ان دشمنوں کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK