عام طور سے تقویم کی بنیاد تین چیزوں پر رہی ہے: شمس، قمر اور نجم، جنہیں قمری، شمسی اور نجومی نظام کہا جاتا ہے۔
EPAPER
Updated: July 12, 2024, 1:30 PM IST | Muhammad Zubair Roorkee | Mumbai
عام طور سے تقویم کی بنیاد تین چیزوں پر رہی ہے: شمس، قمر اور نجم، جنہیں قمری، شمسی اور نجومی نظام کہا جاتا ہے۔
اس کائنات میں انسان کے قدم رنجہ ہونے سے لے کر آج تک ہر دور میں ہر قوم نے زمانے میں امتیاز کرنے اور اہم واقعات کو محفوظ کرنے کے لئے کسی نہ کسی تقویم یعنی کلینڈر کا سہارا لیا ہے، اس بابت میں امام طبریؒ نے اپنی تاریخ میں امام زہریؒ اور امام شعبیؒ سے روایت نقل کی ہے کہ ان دونوں حضرات نے کہا: جب حضرت آدم علیہ السلام جنت سے اتارے گئے اوران کی اولاد ادھر ادھر پھیل گئی تو ان کی اولاد نے ھبوط آدم ؑ(آدم کا زمین پر آنا) کے واقعہ سے تاریخ کا شمار کیا، اور یہ تاریخ حضرت نوح علیہ السلام کی بعثت تک جاری رہی، پھر لوگوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی بعثت سے غرق کے واقعہ تک تاریخ شمار کی، پھر طوفان نوح کے واقعہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے تک تاریخ شمار ہوتی رہی، پھر اس واقعہ سے حضرت یوسف علیہ السلام کی بعثت تک اور پھر وہاں سے موسیٰ علیہ السلام کی بعثت تک، پھر وہاں سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور حکومت تک، اور پھر وہاں سے بعثت عیسیٰ علیہ السلام تک، اور پھر بعثت عیسیٰ علیہ السلام سے بعثت محمد صلی اللہ علیہ و سلم تک تاریخ کا سلسلہ چلتارہا۔ امام طبریؒ کہتے ہیں کہ یہ تاریخ کا جوسلسلہ امام شعبیؒ نے بتایا ہے یہ یہود کے مابین رائج تھا۔
(تاریخ طبری:۱۲۰/۱)
عام طور سے تقویم کی بنیاد تین چیزوں پر رہی ہے: شمس، قمر اور نجم، جنہیں قمری، شمسی اور نجومی نظام کہا جاتا ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً ۱۵؍ طرح کے کیلنڈررائج ہیں جن میں سے آٹھ تقویمات اسلامی دنیا میں مستعمل ہوئی ہیں : (۱) مصری کیلنڈ ر (۲) بَربَرکیلنڈر (۳) کُردی کیلنڈر(۴) ا یرانی کیلنڈر (۵) ہجری کیلنڈر (۶) جدولی کیلنڈر (۷) جلالی کیلنڈر اور (۸) فصلی کیلنڈر-
ہماری روز مرہ کی زندگی میں شمسی اور قمری تاریخ کا بڑا دخل رہتا ہے اس لئے، اِس مضمون میں شمسی و قمری نظام کا مختصراََ جائزہ مقصود ہے تاکہ دونوں نظاموں کے مابین فرق اوران کی خصوصیات کو سمجھا جاسکے۔
یہ بھی پڑھئے: زندگی اللہ کی امانت ہے، جان دینا اور جان لینا اللہ ہی کا حق ہے
قمری نظام ایک فطری نظام ہے کیونکہ اس میں انسانی دخل نہیں ہے۔ یہ محض چاند کی گردش سے مربوط ہے اسی وجہ سے اس نظام میں تبدیلی اور اصلاح کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نیز قمری مہینوں کا ذکر قرآن پاک میں صرا حتاً موجود ہے، جیسے شھر رمضان الذی (البقرۃ) اس آیت میں قمری سال کے ایک ماہ رمضان کا نام اور ذکر موجود ہے۔ کہیں کہیں ضمناً اس کا ذکر ہے جیسے الحج اشھر معلومات (البقرۃ:۱۹۷)۔ اس میں اشہر سے مراد شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ہیں۔ ایک دوسری آیت میں اسلامی سال کے تمام مہینوں کا ذکر ضمناً آیا ہے :’’ بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے (لکھی) ہے۔ ‘‘ (التوبۃ: ۳۶)۔ اس آیت میں جن بارہ مہینوں کا ذکر آیاہے ان سے مراد قمری مہینے ہیں، اس کی دلیل بھی یہی آیت ہے، وہ اس طرح کہ ان بارہ میں سے جو چار ماہ ادب کے لئے خاص کر دیئے گئے ہیں، وہ ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب ہیں جنہیں ’’اشھر حرم‘‘ کہا جاتا ہے۔ جب یہ چار ماہ قمری کے ہیں تو باقی آٹھ ماہ بھی یقیناً قمری کے ہوں گے!
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قمری مہینوں کی ترتیب اور ان کے اسماء جو اسلام میں معروف ہیں یہ انسانوں کی بنائی ہوئی اصطلاح نہیں بلکہ رب العالمین نے جس روز زمین و آسمان کو پیدا کیااسی دن سے یہ ترتیب، نام اور ہر ماہ کے ساتھ خاص خاص احکام متعین فرما دیئے ہیں، جس کی تعبیر’’ دین قیم‘‘ کے ساتھ فرمائی ہے توگویا قمری تقویم اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ اسلامی تقویم ہے۔
سنہ ہجری کی ابتداء کیسے ہوئی اس کے متعلق علامہ شبلی نعمانیؔ’’الفاروق‘‘ میں تحریر کرتے ہیں :
’’۲۱ھ میں حضرت عمرؓ کے سامنے ایک تحریر پیش ہوئی، جس پر صرف شعبان کا لفظ تھا۔ حضرت عمرؓ بول اٹھے کیسے معلوم ہو کہ گزشتہ شعبان کا مہینہ مراد ہے یا موجودہ؟ اسی وقت مجلس شوریٰ طلب کی گئی اورہجری تقویم کے مختلف پہلو زیربحث آئے جن میں سے ایک بنیادی پہلو یہ بھی تھاکہ کون سے واقعہ سے سن کا آغاز ہو؟ اسی دوران حضرت علیؓ نے ہجرت نبوی کی رائے دی او راس پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ حضور اکرم ﷺ نے ۸؍ربیع الاوّل کو ہجرت فرمائی تھی۔ چونکہ عرب میں سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے؛ لہٰذا دو مہینے ۸؍دن پیچھے ہٹ کر شروع سال سے سن ہجری قائم کیا گیا۔ اس طرح اس سن کا آغاز یکم محرم الحرام بروز جمعہ ۱ھ مطابق ۱۶؍جولائی ۶۲۲ء سے ہوا۔
یہاں ایک امرقابل غور ہے کہ صحابہ کرامؓ نے تقویم کے لئے ہجرت کا انتخاب کیوں کیا حالانکہ بظاہر یہ شکست اور مجبوری میں اٹھایا ہوا قدم تھا۔ انہوں نے دیگر قوموں کی طرح فتح وظفر کو مبداء تاریخ کیوں نہیں بنایا؟
اس سلسلہ میں ایک معروف اسلامی اسکالر سیّد اسعد گیلانی لکھتے ہیں کہ ’’حضوراکرمؐ کی عظیم اسلامی تحریک کی جدوجہد میں واقعہ ہجرت بظاہر تو ایک نا خوشگوار واقعہ ہے لیکن حقیقتاً یہ اسلامی انقلاب کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔ مسلمانوں نے اسی لئے اپنی تقویم کو کسی شخصیت، خاندان یا قوم کی طرف نسبت دینے کے بجائے ایک نظریہ کی جدوجہد کے مخصوص مرحلے سے نسبت دی ہے۔
سنہ ہجری ہے جو ہجرت کے واقعہ سے شروع ہوتا ہے چنانچہ ہردفعہ جب مسلمان اپنے سالِ نو کا آغاز کرتے ہیں تو وہ عظیم ترین اسلامی تاریخ کی جدوجہد کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ یہ اللہ کی حکمت ہے کہ ہجرت کی تاریخ نئے سال کی یکم کے ساتھ اس طرح منطبق ہوگئی کہ ہجرت ہی مسلمانوں کے لئے سال نو کا موضوع بن کر رہ گئی ہے۔ بلاشبہ ہجرت مدینہ کا واقعہ اپنی تاریخی اہمیت کے لحاظ سے فتح مکہ سے کسی صورت کم نہیں ہے؛‘ (ہجرت رسولؐ، از قلم سید اسعد گیلانیؒ، نقوش سیرت نمبر ج ۸، ص۲۵۰-۲۵۱)
قمری تقویم اور اس کے فوائد
ہجری سنہ کا دوسرے مروجہ سنین سے تقابل کریں تو یہ سنہ بہت سی باتوں میں دوسروں سے منفرد وممتاز نظر آتا ہے۔ ہجری سن کی ابتداء چاند کے اعتبار سے کی گئی اور اسلامی مہینوں کا تعلق چاند سے جوڑا گیا تاکہ چاند کو دیکھ کر ہر علاقے کے لوگ، خواہ پہاڑوں میں رہتے ہوں یا جنگلوں میں، شہروں میں بستے ہوں یا دیہاتوں میں، حتیٰ کہ دور دراز جزیروں میں رہنے والے بھی چاند دیکھ کر اپنے معاملات بہ آسانی طے کرسکیں اور انہیں کسی طرح کی کوئی مشکل درپیش نہ ہو۔ اس لئے کہ نہ اس میں کسی کا پڑھا لکھا ہوناشرط ہے نہ دیگر کسی مادّی سبب کی یہاں ضرورت ہے۔
اسلام کی اعلیٰ خصوصیات میں سے ایک مساوات ہے اور دوسری ہمہ گیری۔ اسلام نے ان خصائص کی حصانت و حمایت میں یہ پسند فرمایا کہ اسلامی مہینے ادلتے بدلتے موسم میں آیا کریں۔ ماہ رمضان کے روزوں پر غور کریں کہ اگر اسلام میں شمسی مہینہ مقرر کیا جاتا تو نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ آسانی میں اور نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ تنگی وسختی میں رہتے۔ اسلام کی مساواتِ جہاں گیری کا اقتضاء یہ تھا کہ اسلامی سال قمری نہج پر ہو۔ (رحمۃ للعالمینؐ)