• Mon, 21 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ریاستی وزیر بابا صدیقی کو جس طرح سے گولی ماری گئی، اس سے نظم ونسق کی ابترصورتحال پوری طرح واضح ہوگئی

Updated: October 20, 2024, 4:52 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

ان دنوں مہاراشٹر میں نظم ونسق کا مسئلہ ہر کس وناکس کی زبان پر ہے۔ بالخصوص بدلاپور سانحہ اور سابق رکن اسمبلی بابا صدیقی کا قتل مہاراشٹر سرکار کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

The police have detained several accused in connection with the murder of Baba Siddiqui, but the final reason for the murder has not been revealed yet. Photo: INN
بابا صدیقی کے قتل کے الزام میں پولیس نے کئی ملزمین کو حراست میں لیا ہے لیکن ابھی تک قتل کی حتمی وجہ سامنے نہیں آئی ہے۔ تصویر : آئی این این

ان دنوں مہاراشٹر میں نظم ونسق کا مسئلہ ہر کس وناکس کی زبان پر ہے۔ بالخصوص بدلاپور سانحہ اور سابق رکن اسمبلی بابا صدیقی کا قتل مہاراشٹر سرکار کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ رشوت ستانی، قتل، آبروریزی اور تشدد کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ بڑھتے جرائم کی وجہ سے کچھ لوگ مہاراشٹر کا موازنہ یوپی اوربہار سے کررہے ہیں۔ سابق ریاستی وزیر بابا صدیقی کے سرعام قتل سے ممبئی کے شہری خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس پر غیر اردو اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے؟
یہ بڑے شرم کی بات ہے
مراٹھی اخبار’لوک ستہ‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ’’این سی پی (اجیت پوار) کے لیڈراور سابق وزیر بابا صدیقی کا سنیچر کی شب ممبئی کے باندرہ میں پولیس سیکورٹی کے باوجود بہیمانہ قتل نہ صرف حیران کن ہے بلکہ کئی سوالات بھی کھڑے کررہا ہے۔ دسہرہ کے دن ممبئی میں دو بڑے اجلاس تھے۔ جہاں بڑی تعداد میں بھیڑ جمع ہوئی تھی۔ اس کا ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ پورے ممبئی میں جگہ جگہ پولیس فورس کو تعینات کیا گیا تھا۔ حملہ آوروں نے اس کی بھی پروا نہیں کی اور پہلے سے طے شدہ پلان کے مطابق قتل کی واردات کو انجام دیا۔ یہ ممبئی پولیس، مہاراشٹر پولیس اور ریاستی حکومت کیلئے بڑے شرم کی بات ہے۔ صدیقی حکمراں جماعت کے لیڈر تھے۔ وہ اگر اپوزیشن میں ہوتے تو ریاستی حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا۔ اگر ہم ممبئی سمیت بڑے شہروں میں پچھلے چند ماہ میں ہوئے واقعات پر نظر ڈالیں تو یہ بات یقینی ہے کہ مہاراشٹر کے حکمراں، جو ہمیشہ بہتر لا اینڈ آرڈر اور قابل پولیس انتظامیہ کا دعویٰ کرتے ہیں، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ریاست میں عنقریب اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اسلئے انتخابی مہم میں معمول کے موضوعات جیسے ذات پات، سہولیات اور ترقی وغیرہ اٹھائے جائیں گےلیکن قانون کے نفاذ کی بات کون کرے گا؟ ریاست بالخصوص ممبئی، پونے، ناگپور جیسے میٹرو شہروں میں قانون توڑنے والوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہیں کہ ہم نے اترپردیش، بہار اور راجستھان جیسی بدنام ریاستوں کو کچھ بھی برا بھلا کہنے کا اخلاقی جواز کھو دیا ہے۔ بابا صدیقی سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل بائیکلہ میں این سی پی(اجیت پوار) کے ایک اور عہدیدار کا قتل کردیا گیا تھا۔ ناگپور شہر کو لوگ `خونیں شہر ` کہنے لگے ہیں۔ پونے میں ایک نابالغ کار ڈرائیور نے بائیک سوار کو کچل دیا۔ بدلاپور میں نابالغ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی نے پوری ریاست کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ فہرست یہاں مکمل نہیں ہوتی، یہ کافی طویل ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے:ہریانہ اور جموں کشمیر کے انتخابی نتائج ماہرین، سیاسی جماعتوں کیلئے نہیں، عوام کیلئے بھی حیران کن ہیں

انٹیلی جنس محکمہ بھی ناکام رہا
مراٹھی اخبار’ آپلے مہانگر‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ’’سابق وزیر بابا صدیقی کے قتل کے بعد وہی رٹے رٹائے جملے جیسے، مجرموں کو بخشا نہیں جائے گا، امن وامان کو بگڑنے نہیں دیا جائے گا، قتل پر سیاست نہیں ہونی چاہئے وغیرہ دہرائے جا رہے ہیں۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا ریاست کی سیاست جرائم پیشہ عناصر سے پاک ہوگئی ہے؟جبکہ سچائی یہ ہے کہ سیاست کو مجرموں کی آخری جائے پناہ کہا جاتا ہے۔ بابا صدیقی کا قتل سیاسی ہے یا اس کا مقصد دہشت پھیلانا ہے؟ یہ جانچ کے بعد ہی واضح ہو گا۔ ممبئی میں ایک لیڈر کے قتل، جس کی حفاظت تین پولیس اہلکار کررہے تھے، نے ریاست میں امن وامان کے ساتھ ساتھ شہریوں کی حفاظت پر بھی سوالات کھڑے کر دیئےہیں۔ ممبئی کی سڑکوں پر قتل کی واردات کو اس طرح سے انجام دینا، انتہائی پریشان کن ہے۔ حکمراں اور اپوزیشن کو مذہب اور ذاتیات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھالنے سے بالاتر ہوکر اس واردات پر غور کرنا چاہئے۔ بابا صدیقی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں ایک گروہ کی جانب سے دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔ اس کے باوجود ان کی حفاظت کا معقول انتظام کیوں نہیں کیا گیا؟یہ ذمہ داری ریاست کے محکمہ داخلہ پر عائد ہوتی ہے، لیکن یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ صوبے کا انٹیلی جنس محکمہ بھی ناکام رہاکیونکہ مارنے والے ستمبر سے ممبئی میں رہ رہے تھے۔ ‘‘
امن و امان کی صورتحال پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے
ہندی اخبار’جن ستہ‘ نے ۱۵؍ اکتوبر کے اداریہ میں لکھا ہے کہ’’ این سی پی لیڈر بابا صدیقی کا ممبئی میں جس طرح سے قتل ہوا، اس نے مہاراشٹر میں امن وامان کی صورتحال پر ایک بار پھر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ اس قتل کے حوالے سے جو لوگ زیر بحث آرہے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جیل میں بند مجرم کس طرح آسانی سے مجرمانہ سازشوں کو انجام دے سکتا ہے اور پولیس بے بسی سے دیکھتی رہتی ہے۔ بابا صدیقی اجیت پوار گروپ کے لیڈر تھےجن کا سیاست کے ساتھ ہی فلم انڈسٹری پر بھی کافی اثر رسوخ تھا۔ سوال یہ ہے کہ اتنے ہائی پروفائل لیڈر کو سر عام قتل کرنے میں کوئی خاص رکاوٹ نہیں آئی تو پھر عام لوگ کس بنیاد پر اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں ؟ گرفتار ملزمین کے ذریعہ جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ جرم کرتے وقت انہیں پولیس یا قانونی کارروائی کا کوئی خوف نہیں تھا۔ کسی زمانے میں سب سے زیادہ مستعد سمجھی جانے والی ممبئی پولیس کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ بابا صدیقی کے قتل کے پیچھے لارینس بشنوئی گینگ کا ہاتھ ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے تو یہ لا اینڈ آرڈر کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ جیل کے اندر بیٹھا مجرم کس طرح ایک معروف شخصیت کو قتل کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ‘‘
بشنوئی کے دعوے پر یقین کرنامشکل ہے
انگریزی اخبار’ دی ٹائمز آف انڈیا‘اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’سابق کانگریسی اور حال ہی میں این سی پی (اجیت پوار ) کی پارٹی میں شامل ہوئے بابا صدیقی کو دسہرہ کی رات قتل کردیا گیا۔ پٹاخوں کی آواز کے بیچ گولیوں کی آواز سے پورا علاقہ گونج اٹھا۔ ابتدائی تفتیش میں قتل کرنے اور اس کی ذمہ داری لینے کی بنیاد پر لارینس بشنوئی گینگ کو ذمہ دار بتایا جارہا ہے۔ یہ سچ ہوسکتا ہےلیکن اس پر یقین کرنا مشکل ہے کہ سلمان خان کی حمایت کرنا، اتنی بڑی واردات کی وجہ بنے گا۔ آنے والے دنوں میں صاف ہوجائے گا کہ قتل کی واردات کو کیوں انجام دیا گیا۔ سڑکوں پر شوٹ آوٹ، گینگ واراور قتل ممبئی کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 
۹۰ء کی دہائی کے وسط میں ممبئی کے تین بڑے حلقے انڈر ورلڈ سے متاثر تھے۔ شمال مشرقی ممبئی میں چھوٹا راجن، جنوبی ممبئی میں چھوٹا شکیل اور جنوب وسط میں ارون گاؤلی۔ اس کے بعد یہ دیکھا گیا کہ انڈر ورلڈ کا دبدبہ ختم ہوگیا۔ ممبئی پولیس کی مستعدی اور تیزی سے بڑھتی معاشی سرگرمیوں نے اُس دور کو ماضی کا حصہ بنا دیا لیکن ایک بار پھر بابا صدیقی کو وائی لیول کی سیکوریٹی کے باوجود ماردیا گیا۔ یہ خوفناک ہے۔ حملہ آوروں نے آسانی سے پولیس کا گھیرا توڑ دیا۔ بابا صدیقی بھی ای ڈی کی جانچ کے گھیرے میں تھے۔ ان پر مہاراشٹرہاؤسنگ بورڈ کے چیئرمین کے عہدے کا غلط استعمال کرنے کا الزام تھا۔ ممبئی کے سیاست داں اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کرائم کوئی برادری یا مسلک نہیں جانتا ہے۔ بابا صدیقی کے قتل کے بعد وزیر اعلیٰ شندے نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ گینگ وار جیسی صورتحال کسی قیمت پر برداشت نہیں کریں گے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK