• Thu, 13 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

چرواہا بانسری کی مدھر دُھن چھیڑتا اور اس کے پیچھے پیچھے بھیڑیں چلنے لگتیں

Updated: February 13, 2025, 5:33 PM IST | Ahsanul Haque | Mumabi

سردی کا موسم اب رخصت ہونے کو ہے۔ہوا میں ہلکی خنکی ابھی باقی ہے البتہ دن گرم ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ برگ و بار نے پرانے پتے جھاڑ کر سبزے کی نئی اوڑھنی اوڑھ لی ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

کھیتوں میں سرسوں کے پھول کھلے ہیں، گیہوں کے ہرے بھرے کھیت دور تک نظر آرہے ہیں، کہرے اور دھند بھرے دن ختم ہوئے،سورج اپنی تمازت سے تازگی بخش رہا ہے، طویل کہرے کے دنوں کے بعد چمکدار دنوں میں  مَرد و زَن اپنے کاموں کو سمیٹنے کیلئے گھروں سے نکل  پڑے ہیں۔ ہر سو چہل پہل ہے، جانور دھوپ کی حدت میں انگڑائیاں لے رہے ہیں۔ کھلے آسمان کے نیچے بچھی چارپائیاں،رنگ برنگے دیسی کھانے اورگنے کا تازہ رس تو کہیں دور چرواہا بانسری کی مدھر دھن چھیڑ رہا ہے اور اس کے پیچھے پیچھے بھیڑیں چلی جارہی ہیں۔ ان کے پائوں میں بندھے گھنگھروبج رہے ہیں،پگ ڈنڈی اور کھیتوں کے راستے پر چھائی خاموشی کو توڑ رہے ہیں۔ یہ اُن دنوں کے مناظر ہیں جب ہمارے گائوں کے آس پاس جنگل ہوا کرتے تھے ۔ ہر طرف ہریالی تھی ۔ آموں کے بڑے بڑے باغ تھے ۔ تو اُس قت گڈریے(بھیڑ بکریاں پالنے والے)ہمارے گائوں کا رُخ کرتے تھے ۔ دن بھر وہ بھیڑیں باغوں میں چراتے اور رات کو وہیں قیام کرلیتے تھے۔ ان کی بھیڑیں کسی کسان کے کھیت میں ٹھہرائی جاتی تھیں۔ اس کیلئے لوگ گڈریا سے منت سماجت کرتے کہ بھیا!اپنی بھیڑیں ہمارے کھیت میں ہی روکنا ...تو گڈریا بیچارگی میں کہتا بھیا ہم ضرور ٹھہراتے لیکن نمبر دار ناراض ہو جائیں گے ، ان کی باغ میں پھر ہماری بھیڑوں کا داخلہ مشکل ہو جائے گا۔ بھیڑیں ٹھہرانے کیلئے اتنی مارا ماری اسلئے ہوتی تھی کہ بھیڑوں کی لینڈ کھیتوں میں کھاد کا کام کرتی  تھی،اُس سے پیدا وار بڑھ جاتی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کے دور میں بچوں سمیت سیکڑوں ماورائے عدالت قتل: اقوام متحدہ

اُن دنوں آج کی طرح پیداوار بڑھانے کیلئے مختلف قسم کی کھادیں بازار میں نہیں آئی تھیں۔ اُس وقت گڈریا اپنی بھیڑوں کا ریوڑ لئے کئی کئی روز تک ایک گائوں میں ٹھہرا کرتے تھے ۔ وہ اپنے ساتھ میں لوٹا اور ڈوری بھی لے کر چلتے تھے ۔ گائوں کے کنویں پر پانی بھرتے، مہوے کے درختوں کے نیچے اپنا چولہا جلاتے اور کھانا کھا کر وہیں آرام کرتے تھے۔روٹی پکاتے ہوئے دیکھ کر کبھی کسی خاتون کو ترس آجاتا تو  وہ کہتی کاکا کل سے آپ روٹی نہ پکائیے گا ہم بچوں کے ہاتھ بھجوا دیں گے ۔نہیں بٹیا ہم پکا لیں گے، بیٹھے بٹھائے کاہے اپنا کام بڑھا رہی ہو ۔ کیسی بات کرتے ہیں کاکا جب پورے گھر کیلئے روٹی پکاتی ہوں تو دو روٹی آپ کیلئے بھی سہی ۔ اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔  چنانچہ شام کو کاکا کے پاس روٹیاں پہنچ جاتی تھیں۔
 بھیڑیں لے کر آنے والےچرواہے حقہ پینے کے بہت شوقین ہوتے تھے۔بھیڑوں کے ساتھ ساتھ سردیوں میں گلے میں حقہ ٹانگے کش لگایا کرتے تھے ۔ حقہ کے گُڑ گُڑ کرنے کی آواز دور تک جاتی تھی ۔ اسی طرح سئی ندی پار کرکے بشیر پور گائوں شروع ہونے سے پہلے پیپل کے درخت کے نیچے ایک ماسٹر صاحب گائوں کے کچھ بچوں کو جمع کرکےپڑھاتے تھے ۔ درخت کے نیچے بیٹھ کر پڑھنے والے اُن بچوں کی آوازبڑی دور تک کانوں سے ٹکراتی تھی ۔ دوا ِکم دو، دو دونی چارکی رٹ بارہا سننے کو ملتی تھی۔ ہمارے گھر کے پاس ایک چچارہا کرتے تھے، وہ اپنے بیٹھک نما کمرے میں چارپائی پر لیٹے ریڈیو پر گانے سنا کرتے تھے ۔شام کو ان کی حقے کی محفل سجتی تھی۔ جہاں دیر رات لوگ حقے پر کش لگاتے تھے ۔رات کے سنّاٹے میںحقے کی گُڑگڑاہٹ کی آواز دور تک جاتی تھی ۔ کئی بار اُدھر سے گزر رہے لوگ حقے کی آواز سن کر ان کے حجرے کا رُخ کرتے اور دو چار کش لگا کر آگے بڑھتے تھے ۔مغرب بعد سے ہی وہ اپنا حقہ درست کرنے میں لگ جاتے ۔ چلم صاف کرتے اس کی ٹنکی میں پانی بھرتے اور پھر حقے کی تمباکو آنے کا انتظار کرتے تھے ۔ عشا ء کی نماز سے پہلے ان کی تمباکو آ جاتی تھی اور بعد نماز عشاءالائو میں دہکتی آگ کے ٹکڑے چلم میں بھرتے اور پھر تمباکو ڈالتے ۔ پہلا کش لگانے کے بعد کہتے تمباکو صحیح ہے، گپتا کی دکان کی ہی معلوم ہوتی ہے ۔ اُس روز بیٹا تم جلدی میں کسی دوسری دکان سے تمبا کو لائے تھے، مزہ نہیں آیا۔ چچا میاں تمبا کو سے اندازہ لگالیتے تھے کہ آیا وہ گپتا کے دکان کی ہے یا کسی اور کے یہاں سے لائی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: سماجوادی پارٹی کی حکمت عملی میں تبدیلی کےآثار

صبح کے وقت کئی بار گائوں کے بچوں کو دیکھا، وہ چچا کی نظروں سے بچ کر حقے کا کش لگالیتے۔ حالانکہ اُس وقت چلم ٹھنڈی ہو چکی ہوتی تھی لیکن پائپ کھینچنے پر آنے والی سوندھی خوشبوسے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ پہلےگائوں میں گھر کے چھوٹے بچے بڑوں کا حقہ لگاتے اور محفل میں بیٹھنے کے آداب سیکھتے تھے۔ حقہ پانی بند ہونے کا محاورہ تو ہم نے سنا ہی ہے۔ بچپن میں بوجھنےوالا قصہ بھی خوب سنا ہے ۔ ’تَر دھمکا اوپر چمکا‘(یعنی نیچے سے دھمکنے کی آواز آئی او پر سے چمکنے کی) بچے اسے بڑی جلدی بوجھ لیا کرتے تھے ۔ ہر طرف سے آواز آتی حقہ حقہ ۔ چچا میاں کا حقہ یکم اکتوبر سے محفل کی زینت بنتا اور فروری کی آخری تاریخ تک گُڑ گُڑاہٹ کی دھن بکھیرتا تھا ۔ مارچ کے پہلے ہفتے سے حقہ دالان سے غائب ہو جاتا اورپھر محفل حجرے کے باہر پڑی چھپر میں سجنے لگتی تھی ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK