حج مبروروہ حج ہے جس کی ادائیگی شریعت اور سنت کی روشنی میں ہوگی، اپنی من مانی اور رخصتوں کو، گنجائشوں کو تلاش کرکے خلافِ سنت نہ کیا گیا ہو، نہ دم اور صدقہ واجبہ سے تلافی کی گئی ہو۔
EPAPER
Updated: June 14, 2024, 12:47 PM IST | Maulana Muhammad Ijaz Mustafa | Mumbai
حج مبروروہ حج ہے جس کی ادائیگی شریعت اور سنت کی روشنی میں ہوگی، اپنی من مانی اور رخصتوں کو، گنجائشوں کو تلاش کرکے خلافِ سنت نہ کیا گیا ہو، نہ دم اور صدقہ واجبہ سے تلافی کی گئی ہو۔
حج کی ایک ظاہری شکل ہے کہ حاجی محرم ہو، مرد ہے تو احرام کی علامت دو چادروں میں لپٹا ہو، زبان پر تلبیہ کا ترانہ، بیت اللہ کا طواف، حجر اسود کا استلام، طواف کے بعد مقامِ ابراہیم کے پاس دوگانہ واجب الطواف، پھر استلام کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی اور دعائیں ہوں، آٹھ ذی الحجہ سے نو ذی الحجہ کی صبح تک منیٰ میں قیام اور پانچ نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام ہو، نو ذی الحجہ زوال سے مغرب تک عرفات میں وقوف ہو، غروبِ آفتاب کے بعد مزدلفہ کی طرف کوچ ہو، مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا دھیان اور فکر ہو۔ دس ذی الحجہ کی صبح کو سورج نکلنے سے پہلے منیٰ کی طرف روانگی، پھر جمرہ عقبہ کی رمی، قربانی، حلق، طوافِ زیارت، طوافِ وداع۔ یہ سب اعمال حج کی شکل اور صورت ہیں اور اس شکل وصورت کاہر لحاظ سے خیال رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح ان افعال واعمال کو کرنا جس طرح آپؐ اور صحابہ کرامؓ نے کیا ہے، انہیں ایام میں کرناجو اس کےلئے مخصوص ہیں، اسی ترتیب سے کرنا جس ترتیب پر آپؐ نے کیا ہے اور انہی مقامات: بیت اللہ، صفا، مروہ، منیٰ، عرفات، مزدلفہ پر ان کو کرنا حج کہلاتا ہے، جیسا کہ آپؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر انہیں مقامات اور انہیں ایام میں حج کے افعال واعمال کرکے بتلایا اور فرمایا تھاکہ ’’کہ مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: قربانی کی معراج اور ظاہری و باطنی اعمال
اسی طرح حج کی ایک روح بھی ہے اور اس کی رعایت کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، اور جو (اس کا) منکر ہو تو بیشک اللہ سب جہانوں سے بے نیاز ہے۔‘‘ (آل عمران:۹۷) حضور اکرمؐ کا ارشاد ہے: ’’جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے حج کیا اور کوئی بے ہودگی اور گناہ کا کام نہیں کیا تو وہ اس دن کی طرح لوٹے گا جس دن اس کی ماں نے جنا۔‘‘ (مشکوٰۃ) اس طرح جب حج کی ظاہری شکل وصورت کا بھی خیال رکھا جائے اور اس کی روح کو بھی اپنایا جائے تو ایسا حج ‘ حج مبرور کہلاتا ہے، جس کا ثواب جنت ہے، جیسا کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’حج مبرور کی جزاء جنت کے علاوہ کچھ نہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ) اس لئے صحابہ کرامؓ جمرات کرتے ہوئے یہ دعائیں کرتے تھے: ’’اے اللہ! ہمارے حج کو حج مبرور بنادے اور ہمارے گناہوں کو معاف فرمادے۔‘‘ (بیہقی)
حج مبرور کے بارے میں علمائے کرام کے کئی اقوال ہیں : حج مبروروہ حج ہے جس کی ادائیگی شریعت اور سنت کی روشنی میں ہوگی، اپنی من مانی اور رخصتوں کو، گنجائشوں کو تلاش کرکے خلافِ سنت نہ کیا گیا ہو، نہ دم اور صدقہ واجبہ سے تلافی کی گئی ہو۔ حج مبرور وہ حج ہے جس میں ریا اور شہرت نہ ہو۔ حج مبرور وہ ہے جو قبول ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ حج میں مقبولیت کی شان اسی وقت پیدا ہوگی جب اس میں حرام یا ملاجلامال یا مشتبہ مال نہ لگایا ہو، خالص اللہ کی رضا کے لئے کیا گیا ہو۔ حج مبرور وہ حج ہے جس میں کوئی گناہ شامل نہ ہو۔ حج مبرور کی علامت یہ ہے کہ حج کے بعد گناہوں سے بچتا ہو، حج کے بعد دنیا سے زہد، بے پرواہی اور آخرت کی جانب رغبت ہو۔