انسان کی زندگی میں خوشی و غم ہر طرح کے مواقع آتے ہیں، اہل ایمان پریشانیوں پر صبر کرتے ہیں جبکہ وہ لوگ جن کا عقیدہ کمزور ہوتا ہے وہ اللہ کی حکمتوں کو سمجھ نہیں پاتے۔
EPAPER
Updated: October 18, 2024, 5:08 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai
انسان کی زندگی میں خوشی و غم ہر طرح کے مواقع آتے ہیں، اہل ایمان پریشانیوں پر صبر کرتے ہیں جبکہ وہ لوگ جن کا عقیدہ کمزور ہوتا ہے وہ اللہ کی حکمتوں کو سمجھ نہیں پاتے۔
جہاں تک دنیاوی کاموں میں کامیابی اور کامرانی کا سوال ہے تو ہمیں اسلام اور دیگر مذاہب میں ایک نہایت واضح فرق نظر آتا ہے۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ ایک ایمان والا کامیابی اور ناکامی، مقصد پورا ہونے اور مقصد ادھورا رہنے، بیماری اور شفا، امیری اور غریبی، خوشی اور غم، نفع و نقصان، فتح اور شکست، زندگی اور موت، غرضیکہ ہر صورت میں اللہ تعالی سے راضی رہتا ہے۔ اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ رب کریم جو کرے گا اس میں خیر ہوگا۔
اگر انسان کا وحدہٗ لا شریک لہٗ پر ایمان اور یقین نہ ہو تو پھر وہ ناامیدی اور مایوسی کے ویرانوں میں بھٹکتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنے آباء واجداد کے دین سے بھی بدظن ہوجاتا ہے۔ اس لئے کہ اس کی سوچ ایسی مادہ پرست بن چکی ہوتی ہے کہ جس میں صرف نفع کی صورت میں ہی وہ اپنے خدا سے راضی ہوتا ہے اور ذرا سا نقصان پہنچنے پر غم سے بلبلاکر اپنے خدا سے روگردانی شروع کردیتا ہےاور کہنے لگتا ہے کہ میرے مشکل وقت میں میرے خدا نے میری مددنہیں کی۔جبکہ اہل ایمان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ظاہر کی آنکھ سے پہلے ، دل کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ زندگی میں صورت حال چاہے فتح کی ہو یا شکست کی، کامیابی کی ہو یا ناکامی کی، بہ ہر صورت اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے اور ’’اور اہل ایمان کی مدد کرنا تو ہم پر ایک حق تھا ‘‘ (الروم:۴۷) کی خوشخبری سے ان کا دل ہر وقت ہر لحظہ گونجتا ہی رہتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:ہماری مضبوطی کیلئے امام کا ہر اعتبار سے مضبوط ہونا ضروری ہے!
یہاں پر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ مدد صرف اور صر ف زندگی کے بڑے کاموں میں نہیں، بلکہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں بھی اورچھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی ایک غیر محسوس طریقے سے شامل رہتی ہے۔اسی لئے اللہ کے رسول کریم ﷺ نے ہماری ہر چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لئے بھی اللہ کی جانب رجوع کرنے کی ہدایت ہم کو دی ہے کہ جوتے کا تسمہ بھی اگر ٹوٹ جائے تو ہم اللہ تعالیٰ کے در کے ہی سوالی بنیں اور اسی سے مانگیں۔ لیکن اس سوال کے ساتھ شرط یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی جانب سے ملنے والی مدد سے مایوس نہ ہو۔ اس لئے کہ بعض اوقات کچھ نعمتوں کا نہ ملنا بھی بہت بڑی نعمت ہوتا ہے۔
بعض اوقات نفع کے بدلے نقصان ہونا بھی بہتر ہوتا ہے۔ بعض اوقات فتح کے بدلے شکست ملنے میں ہی انسان کی عافیت ہوتی ہے۔ کبھی کبھارشفاءکے بجائے بیماری میں ہی خیر ہوتا ہے۔ اس طرح کی بیشمار صورتیںہوتی ہیں جو ظاہر کی آنکھ سے ہمیں بھلی معلوم ہوتی ہیں، لیکن ہمارے خالق ومالک کا منشاء کچھ اور ہوتا ہے جس سے انسان وقتی طورپر پریشان ضرور ہوتا ہے، لیکن آگے چل کر اس کو احساس ہوتا ہے کہ بیشک رب کریم نے جو کیا خیر کیا، یہی بات میرے حق میں زیادہ بہتر تھی۔
کتنے ہی نوجوان تھے جنہوں نے شادی کے وقت اپنے والدین سے خوب لڑائی کی تھی کہ فلاں لڑکی سے شادی نہیں کرنا ہے، لیکن بعد میں جب زندگی کے مشکل حالات میں وہی لڑکی ایک آہنی چٹان بن کر ساتھ میں کھڑی ہوئی تو محسوس ہوا کہ اس سے بہتر زندگی کا کوئی ہمسفر نہیں ہوسکتا تھا۔ کتنے ہی لوگ تھے جنہوں نے حتی المقدور کوشش کی کہ فلاں نوکری چھوڑ دیں، فلا ں تجارت نہ کریں، لیکن مجبوراً کرنا پڑا۔ لیکن جب اسی ملازمت یا تجارت سے بابرکت حلال رزق کی خوب کثرت ہونے لگی تو محسوس ہوا کہ اس سے بہتر کوئی اور کام نہیں ہوسکتا تھا۔ قرآن مجید میں اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لئے مضر ہو اور الله ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘
ایک صاحب ممبئی کی لوکل ٹرین میں چڑھے۔ بے تحاشہ گرمی، شدت کی بھیڑ، ڈیڑھ تا دو گھنٹے کا سفر، پسلیاں اس طرح دبی ہوئیں کہ جیسے قبر میں کسی کو عذاب ہورہا ہو، ایسے میں وہ صاحب شکایت کرنے لگے کہ روزی روٹی کیلئے ہر دن یہ سفر کرنا پڑتا ہے، بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہوئی؟ تبھی قریب میں بیٹھے ایک شخص نے کہا: ’’ یہی تو زندگی ہوئی، جناب۔ماشاء اللہ ، آپ کو تو خوش ہونا چاہئے کہ اللہ عزوجل نے آپ کو ایسی اچھی صحت دی ہے کہ اس قدرمشکل سفر آپ ہر دن کرپاتے ہیں ۔ ورنہ کتنے لوگ ایسے ہوں گے جن کی صحت ایسی ہے کہ اگر وہ زندگی میں ایک مرتبہ یہ سفر کرلیں تو اسپتال میں بھرتی ہوجائیں۔ اور آئندہ پھر یہ سفر کبھی نہ کرسکیں۔ ‘‘
یعنی یہ بات ہم کو سمجھنا چاہئے کہ زندگی میں مشکل اور آسانی ، غم اور خوشی کا ہر مرحلہ آتا جاتا رہتا ہے۔ اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں فرمایا کہ ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں۔ ہر کسی پر الگ الگ مرحلے آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ یہ انسان پر منحصر ہےکہ جب اس پر غم کا مرحلہ آتا ہے تو وہ’’بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے‘‘ کے نظریے سے اپنے رب کی جانب دیکھتا ہے یا مایوسی اور ناامیدی والے نظریے کے ساتھ۔ اور اسی پر انسان کے اس اطمینان اور خوشی کا انحصار ہوتا ہے جس کو حاصل کرنے والے انسانی نفوس کو قرآن مجید نے ’’اطمینان والی جان‘‘ کہا ہے کہ جو ’’رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل وپاکباز‘‘ رہتی ہے اور جس کو دنیا کے اتار چڑھاؤ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ہاں ، یہ عین ممکن ہے کہ وقتی طور پر انسان کو ایسا محسوس ہو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد میرے ساتھ ہے یا نہیں۔ اس لئے کہ مشکلات میں یہ احساس ضرور ہوتا ہے، بعض پاکیزہ نفوس بھی وقتی طور پر ایسا سوچتے ہیں لیکن فوری طور پر وہ ان منفی خیالات کو جھٹک کر اللہ کی جانب رجوع کرلیتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس جانب نہایت لطیف اشارہ موجود ہے۔’’ کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ (یوں ہی) جنت میں داخل ہوجاؤ گے اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی سی (مشکلیں) تو پیش آئی ہی نہیں۔ ان کو (بڑی بڑی) سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ ہلا دیئے گئے۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور مومن لوگ جو ان کے ساتھ تھے سب پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن لو، اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘
لیکن اللہ تعالی کی یہ مدد قریب ان لوگوں کے ہوتی ہے جو بصارت سے زیادہ بصیر ت کے ذریعہ اس مدد کو ہر حالت میں ،ہر صورت میں ، زندگی کے ہر مرحلے میں محسوس کرنے اور دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف جو جلد بازی مچاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے متعلق منفی گمان رکھتے ہیں، عین ممکن ہے کہ نہ صرف یہ کہ یہ مدد ان کی نظروں سے اوجھل ہوجائے بلکہ رب کریم ان کو ہمیشہ ہمیش کیلئے اپنی رحمت سے، اپنی مدد سےمحروم کردے۔ ہمیں اس دن سے ڈرنا چاہئے۔