ہمارے کچھ محسن ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بے لوث احسان کے صدقے میں ہم زندگی کی دشوار گزار راہوں پر بلا کسی مشقت کے چل پاتے ہیں اور اکثر منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں؛ لیکن ان محسنوں کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے احسانوں کو نہ ہی ہمہ وقت گنوا تے ہیں اور نہ ہی جتاتے پھرتے ہیں۔
ہمارے کچھ محسن ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بے لوث احسان کے صدقے میں ہم زندگی کی دشوار گزار راہوں پر بلا کسی مشقت کے چل پاتے ہیں اور اکثر منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں؛ لیکن ان محسنوں کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے احسانوں کو نہ ہی ہمہ وقت گنوا تے ہیں اور نہ ہی جتاتے پھرتے ہیں۔ یہی وہ پہلو ہے جس کی وجہ سے اکثر وہ نوجوان جو آسمان پر کمند ڈالتے ہیں اور کامیابی کے اوج ثریا تک پہنچتے ہیں، یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہماری کامیابی و کامرانی کسی کی مرہون منت نہیں بلکہ ہماری خود کی محنت، جانفشانی اور جد وجہد کا ثمرہ ہے۔
عموماً ایسے محسنوں کے زمرے میں ماں باپ اور اساتذہ آتے ہیں۔ چنانچہ آپ کو معاشرے میں بآسانی ایسے نوجوان مل جائیں گے جو کامیابی حاصل کرنے کے بعد ماں باپ سے یہ کہتے نظر آئیں گے کہ ’آپ نے ہمارے لئے کیا ہی کیا ہے۔‘ اسی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ ایسے نوجوان بھی مل جائیں گے جو یہ کہتے نہیں تھکتے ہیں کہ ہم نے اپنے ’ہارڈ ورک ‘سے یہ کامیابی حاصل کی ہے۔ نوجوانوں میں یہ سوچ اور خیال موجودہ معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے ماں باپ اور اساتذہ جب اس صورت حال سے دو چار ہوتے ہیں تو وہ صرف ذہنی اذیت اور قلبی تکلیف کے ہی شکار نہیں ہوتے بلکہ انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ تمام تر محنت اور کوششوں کے بعد بھی وہ تہی دامن رہ گئے۔ اس سلسلے میں اسلامی نقطۂ نظر بہت واضح ہے، چنانچہ جہاں ماں کے احسانوں کے بارے میں قرآن نے یہ کہا ہے کہ:’’اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں بڑی تاکید کی (اس لئے کہ) اس کی ماں بے حد کمزوری سے دوچار ہوکر اس کو ( اپنے پیٹ میں ) اُٹھائے رکھتی ہے‘‘ (لقمان:۱۴) وہیں باپ کے احسان کا تذکرہ کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ’’والد جنت (میں داخلے) کا سب سے بہترین دروازہ ہے اب تم اس دروازے کو (نا فرمانی اور برے سلوک کے ذریعے) ضائع کر لو یا (اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے) اس کو محفوظ کر لو۔ ‘‘ (ابن ماجہ) اس کے علاوہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بہت ہی تاکید کے ساتھ ماں باپ کے احسانوں کی وجہ سے ان کی عزت اور فرما برادری کا حکم دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: منشیات:ایک سم ِ قاتل
مذکورہ پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے نوجوانوں کو یہ ضرور سمجھنا اور سوچنا چاہئے کہ یہ باپ ہی ہے جو بچے کے پیدا ہونے کے بعد سے اس کی بہترین نگہداشت کے لئے ہر قسم کی محنت کرتا اور دن رات پسینے بہاتا ہے تب جا کر بچے کے پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت کی تمام ضرورتیں پوری ہوتی ہیں اور یہ ماں ہی ہوتی ہے جو اپنے بچے کے لئے رات کی نیند قربان کرتی ہے اور اس کے آرام کے لئے وہ سب کچھ کرتی ہے جو اور کوئی نہیں کر سکتا۔ نوجوانوں کو ٹھنڈے دل سے اپنے اساتذہ کے بارے میں بھی یہ سوچنا چاہئے کہ اعلیٰ تعلیم دینے والے اساتذہ تو بہت ہی اونچے مقام پر فائز ہیں کہ وہ صرف عمدہ طریقہ تدریس سے ہی آپ کو کامیابی کی راہیں نہیں دکھاتے ہیں بلکہ آپ کی نفسیات کو سمجھ کر مقابلہ جاتی امتحانات میں آپ کو مرد میدان بننے کابھی گر سکھاتے ہیں۔
جہاں تک ان اساتذہ کا تعلق ہے جو آپ کو حروف تہجی پڑھاتے ہیں، ان کی اہمیت بھی قبل الذکر اساتذہ سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے؛ کیونکہ اگر انہوں نے آپ کی توتلی زبان صحیح نہیں کی ہوتی اور آپ کو انگلی پکڑ کر لکھنا نہیں سکھایا ہوتا تو آج آپ نے آسمان پر جو کمند ڈالی ہے اور کامیابی کے جو پرچم گاڑے ہیں، یہ سب کبھی ممکن نہ ہوتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر نوجوانوں کو اپنی کامیابی کے پرواز کو مزید بلند کرنا ہے اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا ہے تو انہیں اپنے محسنوں کے مثلث (ماں، باپ اور استاد) کو عزت و عظمت کے اعلیٰ مقام پر بیٹھانا ہوگا؛ بصورت دیگر ان کی کامیابی ناپائیدار ثابت ہوگی اور انہیں زندگی میں گوناگوں مشکلات کا سامنا ہوگا۔